مکالمہ ‘ہماری بقاء کے لیے ضروری ہے!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 29 اکتوبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ہرگز ہرگز نہیں چاہتا کہ ’’ صاحب‘‘ کی ملک کی متعلق کہی ہوئی باتیں بلکہ پیشن گوئیاں درست ثابت ہوں۔ قلم بوجھل ہونے کے باوجود‘ گزارش کرنے پر مجبور ہوں کہ ان کی بتائی ہوئی ہر بات ‘ اسی فیصد نہیں‘ نوے فیصد نہیں بلکہ سو فیصد درست نکلی ہے۔

صاحب کی گفتگو کا کچھ حصہ تو گزشتہ چند کالموں میں لکھتا آیا ہوں۔ مگر تمام پیشن گوئیاں درج کرنا ناممکن ہے۔ کہہ نہیں سکتا‘ لکھ بھی نہیں سکتا ۔ صرف یاد دہانی کے لیے عرض کرونگا کہ ملکی معیشت کی بربادی ایک طے شدہ اسکرپٹ کے تحت ہوئی ہے۔

آنے والے دنوں میں بدحالی مزید بڑھ جائے گی۔ ابھی تو صرف ابتدا ہے۔ کسی بھی ریاست کے جوازکے لیے صرف چند عناصر پر غور کرنا چاہیے۔

کیا اس کی سرحدیں محفوظ ہیں؟کیا اندرونی نظم و ضبط‘ لاء اینڈ آرڈر ٹھیک ہے؟ کیا عوام کی جان و مال محفوظ ہیں؟ کیا سیاسی اور غیر سیاسی نظام میں انصاف کا بول بالا ہے یا طاقتور طبقہ ڈریکولا کی طرح لوگوں کا خون چوس رہا ہے؟ کیا لوگوں کا ذاتی سرمایہ تحفظ میں ہے ؟کیا ملکی اقتصادی نظام غریب پرور ہے یا امیر کے گھر کی باندی؟ ان چھ عناصر کے علاوہ بھی بہت سے عوامل ہیں جو کسی ریاست کے قیام اور بقاء اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔

طالب علم کے طور پر عرض کرونگا کہ مندرجہ بالا کسی بھی نکتہ پر غیر متعصب تحقیق فرمایئے ۔ کسی ادارے یا سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کی باتوں میں آئے بغیر اکیلے بیٹھ کر کسی نکتے پر غور فرمائیے۔ جواب دیوار پر لکھا نظر آئے گا۔

ہاں‘ اگر آپ کسی سیاسی جماعت سے حد درجہ متاثر ہیں یا ملک کے ’’مہربانوں‘‘کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں‘ تو پھر تحقیق یا غور وفکر کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ معاملہ کو اس دور بین سے ملاحظہ فرما رہے ہوںگے۔ جس میں خرگوش ‘ شیر دکھائی دے گا۔اور ممولا‘ شاہین نظر آئے گا۔ روئے سخن ان چند فیصد لوگوں سے ہے جو معاملہ کو گہرائی سے پرکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اور قدرت نے ان کے تعصب کو ختم یا کم کر دیا ہے۔

ملکی حالات خراب نہیں ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں کہ ہم ایک لاوارث ملک بن چکے ہیں۔ لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ مثال سے ثابت کرنا چاہتا ہوں تاکہ ذہن نشین رہے۔ برطانیہ میں جمہوریت حقیقت میں موجود ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ برطانیہ میں ہمارے متعدد سیاسی‘ ریاستی اکابرین اور کاروباری بڑی آسائش سے موجود ہیں۔

ان کی دولت ‘ آل اولاد اور ٹھاٹھ باٹھ دیدنی ہیں۔ ان کے پاس سرمایہ کی نمائش کا جواز بھی ہے۔ بہرحال یہ ہمارے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ ہے جو ان کے چہروں کی لالی کی بنیاد ہے۔ مگر ٹھہریئے۔ بخدا برطانیہ میں یہ لوگ عام سا الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔

اس لیے کہ برطانیہ کا جمہوری نظام ‘ ان لوگوں کی فکری ضد پر قائم ہے۔ چیلنج کرتا ہوں کہ ان سیاسی دیوتاؤں میں سے کوئی ایک آدمی مقامی الیکشن لڑنے کی کوشش کرے۔ برطانیہ کے جمہوری قوانین ان سیاستدانوں کو مکھی یا چیونٹی بنا دیں گے۔

مگر ہمارے ملک میں یہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا اہم ترین عہدے سے کم پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ ہمارے ملک کے نظام میں اپنی نقب لگا چکے ہیں۔ لوگوں کوبیوقوف بنا چکے ہیں۔ بلا تقسیم سیاسی جماعت‘ تمام ا کابرین کے متعلق عرض کر رہا ہوں۔ بالکل یہی حال ریاستی اداروں کے ریٹائرڈ سربراہان کا ہے۔

وہ تو عام لوگوں سے اتنے الگ تھلگ ہیں کہ اپنے عالیشان محل کی کھڑکی سے باہر تو جھانک لیتے ہیں ۔ مگر کسی مقامی اہم مجلس یا محفل میں جانے سے کتراتے ہیں۔دراصل یہ تمام عناصر ہماری بدقسمتی کی شخصی تصویر ہیں۔ ان کے نکھار کے پس منظر میں ہماری ملکی بدقسمتی موجود ہے۔

ذرا سوچیئے۔ کہ ملک میں فرعون نظر آنے والے لوگ‘ برطانیہ اور امریکا میں ایک چیونٹی سے بھی کمزور تر ہیں۔ اس لیے کہ ان ملکوں میں نظام انصاف ‘ ملکی رہنماؤں کے لیے حد درجہ بلند کردار کی موجودگی اور توازن ہے۔ مگر یہ سب کچھ ہمارے ہاں مکمل طور پر ناپید ہے۔ اس لیے یہ جو چاہتے ہیں‘ ہمارے کمزور نظام کو مسخ کر کے بڑے آرام سے حاصل کر لیتے ہیں۔

’’صاحب‘‘ کے بقول پاکستان کو مزید کمزور کر کے اسے تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ طاقتور مافیا کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ پھر مذہب کا تڑکہ لگا کر لوگوں کو خواب خرگوش میں مزید غرق کیا جائے گا۔ ابھی ہم آہستہ آہستہ سانس لے رہے ہیں۔ مگر آنے والے وقت میں ہمیں نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ موجودہ سیاسی حالات کی خرابی دیگ کا صرف ایک دانہ ہے۔

ابھی آگے دیکھیئے ‘ کیا کیا ہو گا۔ ذاتی عرض کر رہا ہوں۔ میرے خمیر میں وطن کی محبت ہے۔ والدین ‘ ہندوستان سے ہجرت کر کے اسی مٹی کی خوشبو سے لبریز زندگی گزارتے رہے۔ اس عظیم مٹی میں دفن ہیں۔ اپنے ملک کے اداروں‘ سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کو ہر طور جانتا اور سمجھتا ہوں۔ پر اب دل دکھ سا گیا ہے۔ ہمارے ادارے حد درجہ عظیم ہیں۔

ہماری آئی ایس آئی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ چند برس پہلے ایک مغربی ملک کے محققین دلیل کی بنیاد پر کہہ رہے تھے کہ محدود ترین وسائل میں کام کرنے والی آئی ایس آئی پوری دنیا کے لیے ایک نایاب مثال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر ایسے لگ رہا ہے کہ پورا نظام کسی شدید دباؤ میں ہے۔

خیر آگے کے متعلق سوچیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت عوامی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ یہ پذیرائی ‘ پاکستان میں کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ اس سچ کو تسلیم نا کرنا نامناسب ہو گا۔ خان صاحب میں ہزار خرابیاں ہیں۔ مگر جو انسان برطانوی عدالت میں گولڈ اسمتھ کی جائیداد میں اپنا قانونی حصہ وصول کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔

کیا وہ بطور وزیراعظم کرپٹ ہو سکتا ہے؟ خان کے اردگرد کے لوگوں کے متعلق قطعاعرض نہیں کر رہا۔ ان میں سے اکثریتدور اقتدارمیں اپنا حصہ بخوبی وصول کرتے رہے ہیں۔

ناموں میں کیا رکھا ہے۔ پیسے کمانے میں تمام فریقین ایک جیسے ہیں۔ کسی میں کوئی معمولی سافرق بھی نہیں ہے۔اگر ملکی فہمیدہ حلقے‘ خان صاحب کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ‘ ان سے مکالمہ کرتے ہیں۔ تو یہ تصادم کی فضا ایک گھنٹہ میں ختم ہو سکتی ہے۔ ہاں۔ اس ملک سے بیس سے پچیس بلین ڈالر چرانے والے قزاق سو فیصد چاہتے ہیں کہ عوام اور ریاست کے درمیان تناؤ بڑھتا جائے۔ اور چند دنوں میں یہ ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کر دیں۔

پھر عرض کرونگاکہ یہ طاقتور لوگ جہازوں سے فوراًباہر روانہ ہو جائیں گے۔ مگر پچیس کروڑ لوگ اگر غضب اور دکھ میں مبتلا رہے تو یہاں کے حالات کون درست کرے گا؟ ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اس وقت اداروں اور عوام کی باہمی لڑائی کو مزید ہوا دے رہی ہوں۔ ہمارا ازلی دشمن ہندوستان اس تاک میں ہوکہ عسکری ادارے ضعف کا شکار ہوں اور وہ ہمارے کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ آور ہو جائیں۔

ویسے عرض کرتا چلوں۔ معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کہ اندرونی خلفشار جتنا مرضی کثیر ہو‘ ہمارا دفاع ہر دم مضبوط اور فولادی ہاتھوں میں ہے۔ دنیا میں ہمارے دشمنوں کو اسی طاقت سے ڈر لگتا ہے۔ لہٰذا انھوں نے ہمیں دوست نما دشمن تحفہ میں دیے ہیں۔ جو آج بھی وسائل کو بے دریغ لوٹ رہے ہیں۔ جو ملکی عدم استحکام سے مزید دولت کمانے کے درپے ہیں ۔

حل کیا ہے ‘ اس طرف ضرور فکر فرمایئے۔ عسکری اداروں کو بڑی سیاسی قوتوں کی ہمہ وقت ضرورت ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح سیاسی قوتوں کو استحکام پیدا کرنے کی اشد خواہش ہے۔ خدارا‘ باہمی مڈھ بھیڑ کو ختم کیجیے۔

تمام فریقین ٹھنڈے دل سے مکالمہ کی طرف آئیں۔ اس ڈائیلاگ کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں ہے۔ یہ نہ ہو کہ اس غیر ضروری جنگ میں ملک ہار جائے؟ خدارا بات کیجیے۔ اسی میں ہماری بقاء ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔