خود ہی خودکو دھوکا دینا

سعد اللہ جان برق  اتوار 6 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

دھوکا کھانا اور دھوکا دینا، انسان کی جدی پشتی اور خاندانی عادت بھی ہے، روایت بھی، شوق بھی اور کاروبار بھی۔ صدیاں گزرگئیں ، دھوکا دینے والے بھی ختم نہیں ہوئے اور دھوکا کھانے والے تو خیر سے بہت زیادہ ہیں۔

یہ انسانی جبلت ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی… دھوکا کھانا اور دھوکا دینا ، دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اتنی جڑی ہوئی ہیں کہ کسی کو یہ پتہ نہیں کہ دھوکا کھانا کہاں سے شروع ہوتا ہے اور دھوکا دینا کہاں پر ختم ہوتا ہے، دراصل انسان کو یہ دونوں ’’کھانے‘‘ اتنے پسند ہیں کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مواقع پیدا کرتا ہے کہ دھوکا کھائے اور دھوکا دے، حضرت انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ ہزاروں لاکھوں برس سے چلی آرہی بنی نوع انسان کی عادت کو جاری رکھ سکے۔

اس سلسلے میں تو انسان جہاں بھی ہوتا ہے ، دھوکوں کو کھانے میں مصروف رہتا ہے یا دھوکا دینے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے لیکن کچھ مقامات پر تو حد کر دی ہے، انسان نے۔ مثلاً پاکستان کو لے لیجیے، یہاں کے لوگ جان جوکھم میں ڈال کر طرح طرح کی تکالیف اٹھا کر اپنی یہ عادت جاری رکھے ہوئے اور اس غرض کے لیے ایسے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں جو ان کو گندم یا دھوکا کھلاتے رہیں، ایسے لوگوں کو یہ لیڈر اور ہیرو کہتے ہیں اور بڑے تسلسل کے ساتھ ایک کے ’’پرانا‘‘ ہونے پر نیا تلاش کر لیتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر ان سے دھوکا کھاتے رہتے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ دھوکا کھانے کے بعد بھی خوش رہتے ہیں اور بے مزہ نہیں ہوتے اور ہر وقت یہ کہتے رہتے ہیں کہ… ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ہم پاکستانی اپنی دھوکا خوری کا مشغلہ جاری رکھنے کے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے، کسی کونے کھدروں سے کسی کو پکڑ کر لیڈر بناتے ہیں، جلسے جلوس اور دھرنے جلسے کرتے ہیں، دھوپ دیکھتے ہیں نہ سردی، پھر ووٹوں کے انڈے دے دے کر ان کو بانس پر چڑھاتے ہیں تاکہ وہ ہمیں دھوکے دیں اور ہم جی بھر کر دھوکے کھائیں، ویسے اگر غورکیا جائے اور پاکستانیوں میں دھوکا خوری کا بے پناہ جذبہ دیکھیں تو لگتا ہے جسے دھوکا کھانے میں جو مزہ ہے، وہ دھوکا دینے میں نہیں۔

یہ سب باتیں تو آپ جانتے ہیں کہ اس کام میں انسانوں کا ہزاروں لاکھوں سالہ تجربہ ہے اور پاکستانیوں کا پچھتر سالہ لیکن جو آپ نہیں جانتے بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ پاکستانی لوگ دھوکا کھانے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جب کوئی اور نہیں ملتا توخود سے خود ہی دھوکا کھانا شروع کردیتے ہیں اور یہ دھوکا دہی اور دھوکا خوری کا وہ اعلیٰ مقام ہے جو صرف پاکستانیوں نے اپنی محنت، لگن اور خلوص سے حاصل کیا ہوا ہے، دنیا بھر میں کسی اور ملک کے عوام کو دھوکا کھانے میں اتنا ملکہ حاصل نہیں ہے جتنا کہ ہم پاکستانیوں کو حاصل ہے۔

ہم تو دھوکے کو دور جاتا دیکھ کر پاس بلا کر اس سے التجاء کرتے ہیں کہ بھائی! ہمیں دھوکا کھانے کی عادت ہے۔ پلیز! ہمیں دھوکا دے کر پھر کسی دوسری طرف جانا۔ ویسے تو سارے پاکستانی اپنے آپ سے دھوکا کھانے میں خودکفیل ہیں لیکن کچھ لوگ تو اس کام میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، مثلاً آج کل ہمارے سامنے اسٹیج پر جو ناٹک چل رہا ہے جسے یہ لوگ عام طور پر سیاست کہتے ہیں، اس میں تو بعض شوقین اتنے ماہر ہو جاتے ہیں کہ بیک وقت کئی کئی دھوکے کھا ئے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین اور بلند ترین مقام اس وقت ہمارے کپتان خان کو حاصل ہے جو روزانہ اپنے آپ کو بے شمار دھوکے دے رہے ہوتے ہیں اور بڑے شوق سے دھوکے کھاتے رہتے ہیں۔ اب ذرا آج کل کے حالات کو دیکھیے تو موصوف اپنے آپ کودھوکے پر دھوکا دیتے ہوئے، خود کو نہ جانے کیا بلکہ کیا کیا نہ سمجھ رہے ہیں، صادق وامین، بانی ریاست مدینہ، اس کے علاوہ خود کو ’’ملک‘‘ بھی سمجھ رہے ہیں، قوم بھی، آئین بھی اور جو کچھ بھی ان کے ذہن میں آتا ہے۔

نہ جانے کس وقت کس اتھارٹی نے ’’پاکستان‘‘ کو ان کے نام کیا ہوا ہے چنانچہ آج کل جب بھی بولتے ہیں، ایسے بولتے ہیں جیسے ان کی جدی پشتی جائیداد پر کسی اور نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ بہت جلد اپنی اس جدی پشتی جائیداد کو واگزارکر لیں گے اور قبضہ گروپ کو بتا دیں گے کہ کسی کی وراثتی جائیداد پر قبضہ کرنا ٹھیک نہیں۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

اسلام آباد ہم ترے پاس آئیں گے اک دن
ستم شعار سے تم کو چھڑائیں گے اک دن

صرف جناب کپتان خان کا ہی یہ حال نہیں ہے بلکہ اس کیٹگری کے سارے لوگ اپنے آپ کو دھوکا دے بھی رہے ہیں اور اپنے آپ سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ یہ سارے جو ہم تم کو نظرآرہے ہیں، سب کے سب خود سے خود دھوکا کھا کر سرگرداں پھر رہے ہیں بلکہ اپنے اعمال کی خود اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں۔

انسان حیران ہو جاتا ہے اور اس عظیم عقل کل ہستی کا ثناخواں ہو جاتا ہے کہ کس خوبصورتی سے اس نے یہ سارا نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ بڑے بڑے ناموں والے اسی دنیا میں اپنے اعمال کی سزا پا رہے ہیں اورخود ہی خود کو سزا دے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں وہ مزدور، وہ فقیر، وہ غریب کی زندگی کتنی اچھی، کتنی پرسکون اورکتنے آرام سے گزر رہی ہے جو اپنے لیے نان ونفقہ کما کر اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں کھا لیتا ہے اور زمین پر یا کھردری چارپائی پر آرام کی نیند سو لیتا ہے اور یہ خود کو خود ہی دھوکا دینے والے اپنی ہی کمائی ہوئی دولت کے ہاتھوں دن رات پریشاں، سرگرداں اور بے آرام رہتے ہیں، نہ دن کو چین نہ رات کو آرام اور بدلے میں دنیا جہان کی بددعائیں، کوسنے، گالیاں۔

کسی فلم میں ایک کردار کا مکالمہ ہے، میں خود ہی مجرم بھی ہوں، عدالت بھی ہوں، جج بھی ہوں اور جلاد بھی، خود ہی خود کو سزا دینے سے زیادہ بڑا عذاب کوئی نہیں ہے اور خود ہی خود دھوکا دینے سے بڑا کوئی اور دھوکا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔