بُک شیلف

غلام محی الدین  اتوار 13 نومبر 2022
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

کوہ نوردی اور مہم جوئی پر تین شاندار کتابیں

ایک چینی کہاوت ہے ’’جب کوئی سیاحت سے لوٹتا ہے تو ویسا نہیں رہتا جیسا سیاحت پر روانہ ہوتے وقت تھا‘‘۔ کہاوتیں، انسان کی مشترکہ دانش کا نچوڑ ہوتی ہیں، یہ نسل در نسل انسانی تجربے سے حاصل ہونے والے اسباق کا احاطہ کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو عملی تجربہ انسان کو سیر وسیاحت سے حاصل ہوتا ہے وہ روایتی درس گاہوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ علم کی ہر صورت انسان کو فائدہ دیتی ہے لیکن مختلف ثقافتوں، زبانوں اور معاشرتی نظاموں کے ساتھ عملی آگاہی انسان کو حصول علم کی ایک بالکل نئی جہت سے روشناس کراتی ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مختلف زمینی ساختوں، جغرافیائی حقیقتوں اور غیر معمولی مناظر کا مشاہدہ انسان کو غیر معمولی وسعت نظر اور تخلیقی وفود سے بہرہ مند کرتی ہے۔

سیاحت نے انسانیت کی ایک اور خدمت یہ انجام دی ہے کہ ان دیکھی دنیائوں کی دریافت بھی اسی انسانی سرگرمی کی مرہون منت ہے۔ یہ سیا ح تھے جنہوں نے تجسس کے اسی جنون کے بل بوتے پر ایسے علاقوں کا بھی رخ کیا جو انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ناموافق تھے اور اسی لئے لوگوں نے ان خطرات کے پیش نظر کبھی ان علاقوں کا رُخ نہیں کیا تھا۔

سیاحوں نے مستقل جمے ہوئے سمندروں، ویران جزیروں، بے آب و گیاہ صحرائوں، برف پوش چوٹیوں سمیت ہر اُس خطرناک جغرافیائی چیلنج کو قبول کیا جسے ناقابل عبور تصور کیا جاتا تھا حالانکہ ان کوششوں میں بہت سے عشاقان سیاحت کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

سیاحت کے حوالے سے ایک اور اہم بات سیاح کی اپنی قوت مشاہدہ اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے جس کے بارے میں شیخ سعدی شیرازی کہتے ہیں ’’قوت مشاہدہ سے عاری سیاح اسی طرح ہے جیسے پروں کے بغیرہ پرندہ‘‘ لہٰذا سیاحتی تجربہ اُسی صورت میں مفید بن سکتا ہے جب سیاح کی قوت مشاہدہ ذرخیز ہو اور یہ قوت مشاہدہ ہی ہے جو ہمیں اپنے تجربات کو بہتر انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

تاریخ عالم میں سیاحت اور پھر سفرناموں کی شکل میں سیاحتی تجربات کے اظہار کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ بڑی سلطنتوں کی عالمی سیاسی آویزشوں میں بھی سیاحوں کی شکل میں ملک ملک گھومنے والے حکومتی اہلکاروں نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ سیاحوں نے انسانی علم کے خزانے میں ایسی معلومات کا اضافہ کیا جس کا حصول اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

دنیا میں سیاحت پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور مسلسل لکھا جارہا ہے۔ جیسے کہ ہمیں توقع ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی اشاعتوں یا دستاویزی فلموں کا معیار غیر معمولی ہوتا ہے اور ہم ہمیشہ اس احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس معیار کا کام ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے بھی معیاری کام غیر ملکیوں نے ہی کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں سیاحت کے موضوع پر تین ایسی کتابوں سے تعارف حاصل ہوا جنہیں بجا طور پر اُردو زبان میں سیاحت پر بہترین کام قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان کتابوں کی اشاعت کا اہتمام پاکستان کے چند ایک مہم جوئوں اور سیاحوں میں سے ایک ’محمد عبدہ‘ نے کیا۔ ان میں دو کتابیں تو سیاحت کے حوالے سے عالمی سطح پر شہرت پانے والے تحریری مواد کے اُردو ترجمے پر مبنی ہیں جسے انہوں نے خود انگریزی سے اُردو میں منتقل کیا ہے جبکہ تیسری کتاب ’’پہاڑ اور کووہ پیمائی کی تاریخ‘‘ محمد عبدُہ کی اپنی تصنیف ہے جو بجا طور پر پاکستان کی پہاڑی چوٹیوں اور اُن پر ہونے والی مہمات کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔

تراجم میں پہلی کتاب ’’خلا کے اُس پار سفر‘‘ دراصل ایرک شپٹن (Erick Shiption) کی شہرہ آفاق تصنیف ‘Blank on the Map’ کا اُردو ترجمہ ہے‘ جس میں 26 اپریل 1937 کو بالتورو گلیشیئر اور کے ٹو پہاڑی کی دوسری سمت واقع گم نام علاقوں کی کھوج کا احوال بیان کیا گیا ہے۔

اس مہم میں انہیں ممتاز ماہر ارضیات، جہاز راں اور مصنف ایچ ڈبلیو ٹلمین (H.W Tilman) کی مدد حاصل تھی جبکہ ان کی ٹیم میں نقشہ نویسی کا ایک ماہر اور ایک سروئیر بھی شامل تھا جبکہ مقامی قلی اور گائیڈ بھی ساتھ تھے۔ اس مہم کی خاص بات یہ تھی کہ مہم جو ٹیم نے دریائے شکسگام کی گزرگاہ تلاش کرنا تھی، دوسرے نمبر پر کے ٹو کے شمال اور شمال مغرب میں گلیشیائی نظام کے نقشے بنانے تھے اور تیسرے یہ کہ وادی آغیل کے مغربی حصے میں بہنے والے جعلی دریائے شکسگام کا منبع دریافت کرنا اور درہ آغیل کے جغرافیائی مقام کا تعین بھی اس مہم کا حصہ تھا۔ مہم جوئی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔

دوسری کتاب کی ’قراقرم کی دریافت‘ (ابتدائی مہمات 1945-1887) بنیادی طور پر اُن مضامین کے تراجم پر مشتمل ہے جو چین اور روس کی جانب سے برصغیر کی طرف پیش قدمی کے اندیشے کے پیش نظر انگریز سرکار کی طرف سے سرحدی پہاڑی سلسلوں کی طرف روانہ کی گئی مہارت کے احوال کے بارے میں لکھے گئے جبکہ کتاب کے آخر میں ترجمہ نگار کے اپنے 6 مضامین بھی شامل ہیں۔

اس کتاب میں فرانسس ینگ ہسبنیڈ، گوڈون آسٹن، مارٹن کانوے، سرکینتھ میسن، کیٹن فیدرسٹون اور کرنل شومبرگ جیسے نامی مہم جوئوں کے اپنی مہمات کے بارے میں مضامین کو شامل کیا گیا ہے جو مہم جوئی کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔

محمد عبدُہ کی تیسری کتاب پاکستان کے پہاڑوں، پہاڑی سلسلوں اور پہاڑی مہمات کے حوالے سے جامع تفصیلات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا حصہ ’تعارف‘ دوسرا ’پہاڑ‘ یعنی پاکستان کے تمام پہاڑی چوٹیوں کی تفصیل، تیسرا حصہ ’کوہ نوردی اور گلیشئر‘ جبکہ چوتھے حصے کا عنوان ’الپائن کلب آف پاکستان‘ ہے، غرض اس کتاب میں کوہ پیمائی، کوہ نوردی، گلیشیرز اور اس حوالے سے دیگر معلومات کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو کسی قسم کی تشنگی نہیں رہتی۔

اس سے پہلے ان کی چھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’فلپائن جزیروں کی سرزمین، کوریا کی دلچسپ معلومات، پاکستان کے سوزنگ، خوردپن یاس، (پر خطر راستوں کا سفر) ’پاکستان کا تاریخی و جائزہ اور کوریا ماضی سے ترقی کا سفر‘ شامل ہیں۔

زیر نظر کتابوں کی پیشکش کا معیار شاندار ہے جنیں گرین ہارٹ پبلشرز فیصل آباد نے گوہر پبلکی کیشنز: الحمد مارکیٹ اُردو بازار لاہور (0345-4327063) سے شائع کرایا ہے۔ ’پہاڑ اور کوہ پیمائی کی تاریخ‘ کی قیمت 800 روپے، ’خلاء اُس پار سفر‘ کی قیمت 900 روپے اور قراقرم کی دریافت کی قیمت 600 روپے ہے۔ ان کتابوں کا مطالعہ ایک شاندار تجربے سے کم نہیں۔

۔۔۔

ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا

سید وارث شاہ وہ عظیم صوفی شاعر ہیں جن کی تخلیقات نے پنجابی زبان کو نئی رفعتوں سے روشناس کرایا۔ ان کی فنی عظمت کا احاطہ کرنے کے لئے ماہرین ادب اور نقادوں نے انہیں پنجابی زبان کا شیکسپئر قرار دیا، لیکن درحقیقت وارث شاہ کی فکری اور فنی عظمت اپنے آپ میں بذات خود اپنا حوالہ آپ ہے۔

ان کی تخلیق ہیر وارث شاہ دراصل محض ایک عشقیہ داستان کا منظوم بیان نہیں بلکہ پنجاب کے ثقافتی ورثے ‘ تاریخ ‘ تمدن اقدار اور پورے معاشرتی منظر نامے کی جیتی جاگنتی تصویر ہے۔

جس طرح ایک بڑا ناؤل اپنے کرداروں کے ذریعے صرف کسی ایک دور یا عہد کے کینوس پر کچھ کرداروں کے گرد گھومتی کہانی بیان نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اس کے ذریعے کسی عہدمیں اُس معاشرے کی تمام تفصیلات پڑھنے والے تک پہنچا رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح وارث شاہ کے بیان کردہ ہیر کے قصے میں کہانی تو صرف ایک کینوس فراہم کر رہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وارث شاہ نے ا نسانی نفسیات اور رویوں کے ایسے ایسے اسرار کھولے ہیں کہ یہ داستان ہمارے لئے رہنمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

اسی بات کو وارث شاہ کے اُستاد محترم غلام مرتضیٰ نے انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا تھا۔ کیونکہ علماء کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ بہت بڑی بات بہت کم الفاظ میں کہہ دیتے ہیں۔

اس کا تذکرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ ہم مکتب ہیں‘ ایک ہی وقت میں ایک ہی استاد سے دونوں نے تعلیم پائی۔ دنیاوی علوم سے فیض یاب ہونے کے بعد بابا بلھے شاہ نے باطنی رہنمائی کے لئے شاہ عنایت قادریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی، جبکہ وارث شاہ بابا فرید گنج شکرؒ کے خاندان میں بعیت ہوئے ۔

جب انہوں نے ہیر کا قصہ لکھا تو ان کے استاد غلام مرتضی ناراض ہوئے۔ وہ بابا بلھے شاہ سے اس لئے ناراض تھے کہ انہوں نے موسیقی سے ناطہ جوڑ لیا تھا جبکہ وارث شاہ کے عشقیہ قصہ لکھنے پر وہ ا ور بھی زیادہ ناراض ہوئے۔

انہوں نے اپنے مریدوں سے کہہ کر پر بطور سزا انہیں ایک حجرے میں قید کروا دیا تھا لیکن دوسرے روز انہیں بلا کر حکم دیا کہ جو لکھا ہے سناؤ‘ جب وارث شاہ نے کلام سنانا شروع کیا تو استاد کی رو رو کر حالت غیر ہو گئی۔ انہوں نے وارث شاہ کے کلام پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا’’وارث! تم نے سُچے موتیوں کو مونج کی رسی میں پرو دیا ہے‘‘۔ مونج ایک ایسا پودا ہوتا ہے جس سے چار پائی کا بان تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی بٹی ہوئی رسی انتہائی کھردری ہوتی ہے۔

غیر معمولی فنی تخلیقات کو اپنی اصلیت اور خالص پن برقرار رکھنے کے حوالے سے خطرات درپیش رہتے ہیں۔ بالخصوص ماضی کے ادوار میں جب تحریروں کو محفوظ کرنے کی وہ جدید ٹیکنالوجی میسر نہ تھی جو آج ہے یہ بہت مشکل تھا کہ اسے زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھا جا سکے۔

بالکل یہی کچھ ہیر وارث شاہ کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ بات اس لئے بھی زیادہ آسان رہی ہو گی کہ وارث شاہ سے قبل بھی ہیر کا قصہ ایک سے زیادہ مرتبہ منظوم صورت میں لکھا جا چکا تھا۔

زیر نظر کتاب ’’ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا‘‘ ’یعنی ہیر وارث شاہ میں ملاوٹ کئے گئے اشعار کی چھان پھٹک‘ اس حوالے سے ایک غیر معمولی کام ہے جسے زاہد اقبال نے انجام دیا ہے۔

انہوں نے گذشتہ دو صدیوں سے زائد عرصہ کے دوران کلام کی صحت کی تصدیق کئے بغیر چھپنے والے نسخوں میں بعد میں شامل کئے گئے اشعار کی نشاندہی کے لئے قدیم قلمی نسخوں تک رسائی حاصل کی اور انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ان اشعار کو الگ کر دیا جو وارث شاہ کی اصل تخلیق کا حصہ نہیں۔

زاہد اقبال مرحوم کے اس معرکتہ الاآرا کارنامے کی حقیقی اہمیت کا درست اندازہ پنجابی زبان و ادب سے تعلقات رکھنے والی بڑی شخصیات ہی کر سکتی ہیں اور اسی لئے ہم زاہد اقبال کی اس تصنیف پر ا نہی علما ء کی رائے کا سہارا لے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ تبصرہ اردو میں ہے لہٰذا ہم ان کی آراء کو اردو میں بیان کر رہے ہیں۔

جالندھر سے پنجابی ستھ کے سیکرٹری ڈاکٹر نرمل سنگھ کا کہنا ہے ’’زاہد اقبال کی محنت‘ ہمت لگن اور اس معاملے کی چھان پھٹک میں انہماک انتہائی متاثر کن ہے۔ اس لئے ہم نے اس معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کا عہد کیا۔ یہ پہاڑ جیسا کام کسی اکیلے شخص کے بس کی بات نہ تھا۔

میں بیرون ملک آباد ان بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے صرف ہماری ہمت ہی نہیں بندھائی بلکہ دل کھول کر مالی مدد بھی کی۔ ہمارے سیاستدانوں کی تنگ نظری کے باعث کسی یونیورسٹی ‘ بورڈ یا ادارے نے اس کام کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

چندی گڑھ سے ڈاکٹر کرنیل سنگھ تھڈ کا کہنا ہے ۔ ’’زاہد اقبال کا وارث شاہ کے کلام سے ملاوٹی شعروں کو الگ کرنے کاکارنامہ پانی سے دودھ کو الگ کرنے کے مترداف ہے، جو پنجابی زبان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔

جالندھر سے ڈاکٹر جگتار نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا‘ ’’اس کتاب کے ذریعے جو کام زاہد اقبال نے کیا وہ گزشتہ دو صدیوں میں کسی نے نہیں کیا۔ ہیروارث شاہ میں ملاوٹ کرنے والوںنے جہاں وارث شاہ کی روح کو اذیت میں مبتلا کیا وہیں زاہد اقبال نے ان کی روح کو تسکین پہنچائی ہے۔

سید سبط الحسن ضیغم کا کہنا ہے کہ عام منصنفین کی تو بات ہی نہ کریں اچھے خاصے دانشوروں سے ان ملاوٹی اشعار کے حوالے سے بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں۔ زاہد اقبال نے ہیر وارث شاہ میں ملاوٹ کی نشاندہی کر کے غیر معمولی کام کیا ہے۔ جبکہ پنجابی ستھ نے یہ کتاب چھاپ کر پنجابی ادب کا سرفخر سے بلند کر دیا ہے۔

پروفیسر عبداللہ شاہ ہاشمی لکھتے ہیں کہ زاہد اقبال نے ہیر وارث شاہ سے ملاوٹی شعروں کو الگ کرنے کا چیلنج پورا کر کے تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ کتاب ہیر وارث شاہ میں ملاوٹی اشعار کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔

شفقت تنویر مرزا کہتے ہیں کہ زاہد اقبال نے اصل اور نقل کو کچھ اس انداز میں جدا کیا ہے کہ ہمارے بڑے محقق اور ناقدوں کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔

پنجابی کے ان بڑے عالموں کی آراء سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ زاہد اقبال نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس تحقیق و جستجو میں صرف کر کے پنجابی زبان و ادب کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت کو یورپی پنجابی ستھ یو ۔کے (برطانیہ ) نے ممکن بنایا ہے اور اسے پاکستان ‘ بھارت اور برطانیہ سے بیک وقت شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کی پیش کش کا انداز شاندار ہے۔ بڑے سائز کے 949صفحات پر پھیلے ہوئے اس تحقیقی کام پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 1000 روپے ہے جو انتہائی مناسب ہے۔ اسے بجا طور پر حوالہ جاتی کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ پنجابی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب کسی سوغات سے کم نہیں۔

ہمارے جسم تمہاری مرضی ؟

مصنفہ۔نوشی بٹ ، پبلشرز۔عکس پبلشرز ،لاہور

صفحات۔350، قیمت۔1200، براے رابطہ/آرڈر 0300 4827500

نوشی بٹ کی زیرِ تبصرہ کتاب ان کی ان تحاریر پر مشتمل ہے جو وہ مختلف سماجی پلیٹ فورموں پر لکھتی رہی ہیں۔انہوں نے نہ صرف آج کے زندہ سوالوں کو سمجھا ہے بلکہ تکلیف دہ واقعات کی صورت خود پر بیتتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کا زندہ جواب تلاش کیا ہے۔ یہ محض کوئی دیوانگی نہیں تھی بلکہ ایک سراسر شعوری کوشش تھی۔

اس کتاب میں ہمیں ہر اس سوال کا جواب ملے گا جسے ہم انتہائی پرسنل یا پرائیویٹ سمجھ کر کسی سے بھی پوچھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔مصنفہ نے سماج کی عریاں حقیقتوں پر اپنے قلم سے کاری ضرب لگائی ہے اور بے باک انداز میں پدر سری معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے جسمانی، جنسی، معاشرتی، سماجی مظالم کو بڑے پر اثر انداز میں تحریر کیا ہے۔

یہ کتاب ایک کیتھارسز بھی ہے، چیخ جیسا احتجاج بھی اور تبدیلی کے راستے کا نشان بھی۔ اس کتاب کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ یہ بہت سے ایسے بے چین افراد کو لکھاری بنا سکتی ہے جنھیں ہمارے ٹیکنیکل اور ٹیکٹیکل ادیبوں نے اس مایوسی سے دوچار کردیا ہے کہ لکھنا کوئی آسان کام ہرگز نہیں۔کتاب کی زبان آسان الفاظ پر مشتمل ہے اور مصنفہ نے اس میں عام فہم محاوروں کے ذریعے ہر قاری کیلئے اس کو آسان بنایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔