ہجوم کا نظام انصاف پر عدم اعتماد

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 12 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی کے علاقہ گلستانِ جوہر کے بلاک 18میں ڈاکو پلاسٹک کی دکان میں داخل ہوئے اور لوٹ مار شروع کردی۔ ایک شخص شہریار نذیر نے مزاحمت کی اور ایک ڈاکو کو پکڑنے کی کوشش کی تو دو ڈاکوؤں نے اندھا دھند گولیاں برسائیں۔

ان گولیوں کی زد میں شہر یار نذیر جاں بحق ہوا۔ علاقہ کے افراد فائرنگ کی آواز سن کر دکان کی سمت دوڑے اور فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ایک ڈاکو کو دبوچ لیا اور اس ڈاکو پر اتنا تشدد کیا کہ وہ موقع پر ہلاک ہوا ، پولیس نے 14 مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

اس واقعہ سے ایک دن قبل کراچی کی پسماندہ ترین بستی مچھر کالونی میں ایک انٹرنیٹ کمپنی کے دو ملازمین ویرانہ میں انٹرنیٹ کیبل کی مرمت کر رہے تھے کہ کسی نامعلوم شخص نے مچھر کالونی میں شور مچادیا کہ بچوں کو اغواء کرنے والے گروہ کے دو افراد ویرانہ میں موجود ہیں۔

علاقہ کے لوگ گھروں سے نکل آئے اور ہجوم میں سے کسی ایک نے پتھر ان مظلوم کارکنوں کی طرف اچھالا۔ پھر بے ہنگم ہجوم نے پتھراؤ شروع کردیا۔ یہ بے گناہ افراد چیخ چیخ کر اپنی بے گناہی بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ہجوم کو رحم نہ آیا۔ ایمان جاوید اور اسحاق میرانی جان کی بازی ہار گئے۔ ان دونوں کا پسماندہ علاقوں عمرکوٹ اور ٹھٹھہ سے تعلق تھا۔ ہجوم کے ہاتھوں ازخود انصاف کی ایک اور بے ایمانہ مثال معاشرہ میں قائم ہوگئی۔

قانون کے طالب علم اس بات سے متفق ہیں کہ عوام کا ریاست پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے اور شہر میں جنگل کا قانون نافذ ہو چلا ہے جو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ ایسے انصاف میں عموما بے گناہ سزا پاتے ہیں۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے بڑھنے سے لوگوں میں ایک غم و غصہ پیدا ہوگیا ہے۔

عمومی طور پر مزدور جب اپنی تنخواہ لے کر بسوں میں سوار ہوکر گھروں کو جاتے ہیں تو مسلح نوجوان بسوں میں سوار ہو جاتے ہیں اور ان غریبوں کی مہینہ بھرکی کمائی اچک لیتے ہیں۔ عمومی طور پر متاثرہ افراد پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج نہیں کراتے۔ اس کی وجہ وہ تمام افراد اچھی طرح جانتے ہیں جو اس طرح کی صورتحال کا شکار ہوکر تھانے گئے اور تھانے کے عملہ کی جانب سے ذلت آمیز سلوک کا شکار ہوئے۔

سندھ کے پولیس افسران اس حقیقت کا اقرار نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ تھانے کے اہلکار پہلے تو ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتے ہیں ، پھر فورا سوال کرتے ہیں کہ اپنا قومی شناختی کارڈ لائیں۔

بعض اہلکار تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ تحریری درخواست جمع کرائیں۔ اسٹریٹ کرائم میں ملزمان عمومی طور پر متاثرہ فرد کا بٹوا چھین لیتے ہیں جس میں شناختی کارڈ بھی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر سفارش کام آتی ہے یا نذرانہ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔

عام طور پر متعلقہ اہلکار فوری طور پر ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔ متاثرہ افراد کو بار بار بلایا جاتا ہے، یوں ایک طرف متاثرہ شخص اپنی رقم کھو چکا ہوتا ہے پھر اس کے لیے بار بار تھانہ کا چکر لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ پولیس پر عدم اعتماد کا عنصر زیادہ مضبوط ہے۔ کراچی میں پولیس کے اہلکاروں کی بے حسی کے ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں پولیس والے اپنی موبائل میں سوار رہے اور ملازمان واردات کی کامیاب تکمیل کے بعد محفوظ طور پر اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہوگئے۔

گزشتہ 10 برسوں کے دوران پولیس کے بہت سے سپاہی اور افسران ملزمان کے خلاف کارروائی کے دوران جاں بحق ہوئے مگر پولیس افسران اور اہلکاروں کے مجموعی رویہ کی بناء پر عوام اور پولیس عملے کے درمیان بدگمانی اور عدم اعتماد کی دیوار کمزور نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے  ملزمان پولیس والوں کے حوالہ کیے اور پولیس والوں نے ملزمان کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا۔ ذرایع ابلاغ پر یہ خبریں بھی آتی ہیں کہ پولیس کے اہلکار خود مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

چند ماہ قبل پی ای سی ایچ ایس میں ایک ماں بیٹی رکشہ میں گھر پہنچیں تو موٹر سائیکل پر سوار ملزمان نے انھیں لوٹنے کی کوشش کی۔ ایک خاتون گھر کی گھنٹی بجانے میں کامیاب ہوئی۔ ان کا نوجوان بیٹا جس کی چند دن قبل شادی ہوئی تھی دروازہ کھولنے آیا۔ ملزمان نے نوجوان پر براہِ راست گولی چلائی اور نوجوان موقع پر جاں بحق ہوا۔ اس افسوس ناک سانحہ کو کلوز ڈورکیمرہ نے محفوظ کرلیا تھا۔

چند دن بعد پولیس ڈپارٹمنٹ کے ایک ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا کہ اس واقعہ میں پولیس کا ایک سابق انسپکٹر ملوث تھا۔ جب پولیس والوں نے گلستان جوہر کی ایک مارکیٹ میں ملزم کے گرد گھیرا تنگ کیا اور اس ملزم کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کی تو ملزم نے خودکشی کر لی۔ جہاں یہ واقعہ ہوا تھا وہاں ایک ہوٹل تھا۔

ایک چینل کے رپورٹر نے ہوٹل میں کام کرنے والے افراد سے پوچھا تو انھوں نے اس واقعہ کی تصدیق نہیں کی۔ ایک سابق پولیس اہلکار ملزم کی خودکشی کے واقعہ کی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ پاکستان میں عدالتوں سے ملزمان کو سزا ملنے کی شرح خاصی حد تک کم ہے ، اگر کوئی متاثرہ شخص ایف آئی آر درج کراتا ہے تو اس کو خود عینی شاہد جمع کرنے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں گواہی کے لیے مہینوں چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ بہت سے برسوں سے گواہوں کے تحفظ کے قانون کا ذکر ہو رہا ہے۔

ایسا قانون جس میں نہ صرف گواہ کو تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ عدالت پیشی کا الاؤنس بھی دیا جائے مگر یہ قانون اب تک بن نہیں سکا ہے۔ دنیا بھر میں اب جرائم کی روک تھام کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے اور اسلحہ کی دستیابی کو ناممکن بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں اسٹریٹ کرائم پر ایک ٹاک شو میں جب تحریک انصاف کے ایک رہنما نے سندھ حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اب تک شہر میں سی سی ٹی وی سے نگرانی کا مربوط نظام قائم نہیں ہوسکا ہے ۔ کراچی بھر میں منشیات اور اسلحہ عام ہے۔ مچھر کالونی ایک کچی آبادی ہے ، اس آبادی کی اکثریت کا تعلق بنگالی نژاد افراد پر مشتمل ہے۔ یہ بستی منشیات، اسلحہ کی فراہمی، بچوں اور عورتوں کی اسمگلنگ کے لیے بدنام ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن HRCP کے جواں مرد کارکن خضر حبیب کا کہنا ہے کہ پولیس کو مچھر کالونی میں آپریشن کی اجازت نہیں ہے۔

مچھر کالونی براہِ راست دیگر اداروں کی نگرانی میں ہے۔ کراچی میں جرائم کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلحہ کی عدم دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔

شہر کے تمام علاقوں میں پولیس کو آپریشن کرنے کی اجازت دی جائے اور آئی ٹی کے جدید نظام کے ذریعہ شہر بھرکی نگرانی کی جائے۔ سندھ پولیس کے سربراہ ان حقائق پر توجہ دینے کے بجائے یہ ثابت کرنے پر پورا زور لگا رہے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم پاکستان کے دیگر شہروں سے کم ہے، یوں وہ حقائق کو مسخ کرکے سندھ کی اعلیٰ قیادت کو تو مطمئن کرسکتے ہیں مگر پولیس اور عوام میں فاصلوں کو وسعت دے رہے ہیں۔

گزشتہ ایک ماہ میں لاہور اور اسلام آباد میں ہجوم کے ہاتھوں ملزمان کی ہلاکت کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ کراچی میں ہر ہفتہ ایسا واقعہ ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائم کی صورتحال کو گہرائی سے دیکھنے کے بجائے بعض قوم پرست تنظیموں نے لسانی مسئلہ بنا لیا ہے۔

یہ سارے واقعات کسی لسانی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ عوام کا ریاست پر اعتماد نہ کرنے کی وجہ سے ہیں ، اگر شہر میں جرائم کے خاتمہ کا موثر نظام قائم ہوتا ہے تو ہجوم کے ملزمان کو ہلاک کرنے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہجوم کا ملزم کو سزا دینا انصاف اور قانونی کی پامالی ہے اور یوں انارکی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ، جس کا نقصان پورے معاشرہ کو ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔