بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

انسان
مصنف: نجم رضوی، قیمت:1000روپے، صفحات:192
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، بک سٹریٹ، لاہور(03014568820)

مشاہدہ انسان کی عقل کو جلا بخشتا ہے، بشرطیکہ فرد میں مشاہدے کی صلاحیت ہو ۔ انسانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کیونکہ ان کے مشاہدے میں گہرائی اور محسوسات کا فقدان ہوتا ہے ۔

وہ ہر چیز کو سرسری اور عام سی نظروں سے دیکھتے ہیں صرف اتنا جتنی انھیں اس چیز کو سمجھنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ ادیب کا مشاہدہ اسی لئے دوسروں سے بہت مختلف ہوتا ہے ۔ وہ کسی واقعہ کو دیکھتا ہے تو اس کے لئے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے پھر وہ اپنے ان محسوسات کو تحریر کی صورت دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔

یوں ہر ادیب کے لئے ہر فرد ، ہر واقعہ ایک کہانی ہے جبکہ عام فرد کے لئے ایسی کوئی بات نہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے اپنے مشاہدے سے اپنے ارد گرد پھیلے کرداروں سے کہانیاں تخلیق کی ہیں اور بہت خوب تخلیق کی ہیں ۔ سائیں بابا پڑھیں یا بے بے جی کو محسوسات کا ایک سمندر ہے ۔

معروف ادیب آزاد مہدی کہتے ہیں ’’ نجم رضوی کو جو صفت دوسرے تخلیق کاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ جدائی کا کرب ہے۔ خواہ موت کی شکل ہو یا پردیس کی صورت میں ۔۔۔!!! اس نے کرب کو وحشت نہیں بننے دیا ۔

کیونکہ کرب عموماً اپنے آخر پر وحشت کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن نجم رضوی اپنے فطری تخلیق کار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی آہستگی سے احسن اخلاقیات کے ساتھ اپنے آرٹ میں حسن پیدا کر دیتا ہے۔‘‘بہت خوبصورت کہانیاں ہیں ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

دو پھولوں کی کائنات
شاعر: ازہر ندیم، قیمت:700 روپے، صفحات:136
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ ، بک سٹریٹ لاہور(03014568820)

ہر انسان کے اندر اک جہاں آباد ہے بات صرف اتنی ہے کہ وہ اس جہاں میں جھانکنے کا ملکہ رکھتا ہو ، یا پھر بھاگتی دوڑتی دنیا سے کچھ وقت اپنے لئے بھی نکالے تو اس اندر کے جہاں کی پرتیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں ۔

ازہر ندیم بھی خوشبو، رنگ و نور کے جہاں کی بات کرتے ہیں ، دل کی بات کرتے ہیں ، جو دل کو لگتی ہے ۔ ڈاکٹر ذیشان اطہر کہتے ہیں ’’اگر آپ ازہر ندیم سے ’’ دوپھولوں کی کائنات‘‘ کے ذریعے پہلی دفعہ متعارف ہو رہے ہیں تو اک ذرا توقف کیجیے اور میرا مشورہ سن لیجئے ۔ عشق و محبت اور مظاہر فطرت کو آمیز کر کے نت نئے کوزے تخلیق کرنے والے ’’ ازہر کوزہ گر‘‘ کے زخموں کی یہ تیسری نمائش ہے ، میدان جذب و حیرت میں یہ اس کا تیسرا وقوف ہے ۔ حضور حسن اس جنوں سامان کی یہ تیسری حاضری ہے۔

اگر باالفاظ دیگر کہا جائے تو حجرہ جاں میں معتکف اس درویش کی یہ تیسری خود کلامی ہے۔‘‘ یاسر اقبال کہتے ہیں ’’ ازہر ندیم کی نظم اس قدیم وحدت انگیز شعری وظیفے کی گواہی دیتی ہے جس میں شریک ہو کر ’’من و تو‘‘ کا امتیاز مٹ جاتا ہے اور تمام مظاہر و مناظر ایک ’’ شاعرانہ وحدت الوجود ‘‘ میں ڈھل جاتے ہیں ۔

ان کی نظم کو اگر پورے طور پر تصور میں لایا جائے تو حواس خمسہ میں باطن و ظاہر کی نئی جمالیات تشکیل پاتی ہے ۔ یہاں انسانی وجود اور فطری مظاہر یوں باہم جذب ہو جاتے ہیں کہ زندگی ایک مثالی کلیت میں ڈھل جاتی ہے ۔ یہ کلیت انسان کا قدیم ترین خواب ہے جو ازہر ندیم کی شاعری میں زندہ تعبیر ہو جاتا ہے ۔‘‘مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

 پربتوں کے مسافر ( سفرنامہ )
مصنف : سید حسین علی گیلانی، قیمت : درج نہیں
ناشر : نشریات ، 40اردو بازار ، لاہور، رابطہ : 03214589419

’ لُپ گھر پیرپاس‘ ہنزہ کی وادی شمشال میں ہے۔ سطح سمندر سے 5,190 میٹر یعنی 17,030 فٹ بلند ۔ یہ ایک شاندار ٹریک ہے۔ مصنف نے نواب شاہ ( سندھ ) سے سفر شروع کیا، اور پھر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ’ لُپ گھر پیرپاس‘ تک پہنچے۔ ان کے لئے یہ سفر عشق کا درجہ رکھتا ہے اور پھر جب سفرنامہ کا احوال لکھا تو منفرد اور دلچسپ انداز میں لکھا، اس اعتبار سے یہ عشق کی ایک داستان ہے۔

مصنف کے بقول ’ یہ داستاں ہے پہاڑوں کی، نرم آبشاروں کی، ریشمی بہاروں کی، منتظر چناروں کی، سرخ راہ گذاروں کی۔‘ وہ لکھتے ہیں: ’’میرا ہمیشہ یہ نظریہ رہا کہ ٹریک کرتے وقت صرف منزل کو ہی مقصد نہ بنائیں بلکہ منزل سے جڑے ہوئے ہر رنگ کو اپنی آنکھوں میں سموتے ہوئے آگے بڑھیں۔

پانچ سے دس دن کے ٹریک میں آسمان کتنے رنگ بدلتا ہے؟ بادل پہاڑوں سے کیسے مستی کرتے ہیں؟جنگلی گلاب کہاں کہاں خوش آمدید کہتے ہیں؟ کس بلندی پر کس رنگ، کس سائز کی، کتنی پھرتیلی تتلیاں تھیں؟ ہر بلندی پر سبزے کا کون سا رنگ ہے؟ ہر لمحہ پتھروں کی ترتیب اور رنگ اگر دل نہ اترے تو پھر کیا دیکھا! غرض زمین، آسمان ، پہاڑ ، گلیشیر ، سبزہ ، پھول اور تتلیوں کے اپنے اپنے ہزار رنگ ہیں، ان کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے سے ہی سفر کی مقصدیت حاصل کر سکتے ہیں؟‘‘

مصنف نے یہ سفرنامہ واقعتاً اسی انداز میں لکھا ہے، اسے پڑھتے ہوئے قاری پر سحر طاری ہوتا ہے۔ سفرنامے کے آخر میں پاکستانی سیاحت کے ان مسائل کا مفصل ذکر کیا گیا ہے جن سے ہر مسافر کو واسطہ پڑتا ہے اور پھر ان کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ وہ درست ہی تو کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی سیاحت کو بین الاقوامی سطح پر بلندیوں پر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی خوبصورتی کو افسانوی انداز میں پیش کرنا اشد ضروری ہے۔  ( تبصرہ نگار : عبید اللہ عابد)

 قونیہ مجھے بلا رہا ہے ( سفرنامہ )
مصنف : محمد وسیم، قیمت : 400 روپے
ناشر: ایمل مطبوعات،11، فرسٹ فلور ، مجاہد پلازا ، بلیو ایریا ، اسلام آباد
رابطہ واٹس ایپ :03425548690

زیر نظر سفرنامہ ایک ایسے نوجوان مصنف کا ہے جو پڑھنے، لکھنے کا ذوق رکھتے ہیں، اس اعتبار سے وہ معاشرے کے دیگر بہت سے نوجوانوں سے مختلف ہیں۔

ایک روز انھیں ترک وزارت خارجہ کی طرف سے استنبول (ترکی) جانے کا موقع ملا۔ وہاں سے وہ قونیہ پہنچے اور اس تاریخی علاقے کی خوب سیر کی۔ وہ کہتے ہیں : ’’مجھے زندگی میں دنیا کے بے شمار ملکوں کے کئی شہروں میں جانے کا موقع ملا مگر استنبول سے قونیہ کا یہ بیس گھنٹے کا مختصر سفر میری زندگی کے چند یادگار تجربوں میں سے ایک ہے۔‘‘

مصنف نے سفرنامہ کے آغاز میں ایک دلچسپ تحریر لکھی ہے: ’میں مولانا روم کی قبر کی مٹی کا ایک کنکر ہوں، میں مولانا روم کے مزار کے صحن کی گھاس کا ایک تنکا ہوں۔ میں مولانا روم کے مقدس روضے کا ایک پتھرہوں۔ ‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے نوجوان مصنف کی فکر کی پختگی کا، اور خوبصورت اسلوب تحریر کا۔ صرف یہی نہیں، قونیہ کے سفر کا پورا احوال ہی نہایت دلچسپ اور منفرد انداز میں لکھا ہے

۔انھوں نے کیا لکھا ، یہ تو سفرنامہ پڑھنے ہی سے معلوم ہوگا البتہ جناب مستنصر حسین تارڑ اس کتاب کو ایک اثر انگیز روحانی واردات قرار دیتے ہیں’’ جس میں عقیدت کے ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کا بھی بھرپور اظہار ملتا ہے۔ یہ تحریر معمولی نہیں ہے، اس میں بڑی نثر کے امکانات موجود ہیں۔ محمد وسیم کی تحریر پڑھتے ہوئے قونیہ ہمیں بلانے لگتا ہے‘‘۔ جناب عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں : ’’ ایک طویل عرصے کے بعد کوئی ایسا سفرنامہ میری نظر سے گزرا ہے جسے واقعی اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

زیر نظر سفرنامہ تصنیف و تالیف کی دنیا میں قدم رکھنے والے ایک نوجوان کی اچھی کوشش ہے۔ ’ایمل مطبوعات ‘ نے اس سفرنامے کو نہایت باوقار انداز میں شائع کیا ہے، خوبصورت سرورق، عمدہ کاغذ اور اچھی طباعت۔

ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور کہوٹہ پر امریکا، بھارت، اسرائیل اور نام نہاد مقتدر پاکستانیوں کے خودکش حملے
مصنف ومؤلف : جلیس سلاسل
ناشر: الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز، اشاعت: 432، قیمت: 1600روپے

ڈاکٹرعبدالقدیر خان ان چند پاکستانی شخصیات میں شامل ہیں جن کا پوری قوم احترام اور ان سے محبت کرتی ہے، جس کا سبب پاکستان کو جوہری طاقت بنانے میں ان کا نمایاں ترین کردار ہے۔

اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے بہ طور حکم راں اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے بہ حیثیت سائنس داں پاکستان کو جوہری قوت بنا کر پاکستان کے گرد ایک حفاظتی حصار کھڑا کر دیا ۔ اس منصوبے کی داغ بیل ان ہی دو شخصیات نے ڈالی، تاہم بعد میں مختلف حکم رانوں اور سائنس دانوں کا اس منصوبے کی حفاظت اور فروغ میں کردار بھی قابل ستائش ہے۔

اگرچہ ہماری معاشی زبوں حالی اور انتظامی ابتری کو جواز بنا کر یہ سوال باربار اٹھایا جاتا ہے کہ جوہری طاقت بننے کا کیا فائدہ ہوا؟ لیکن یہ اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اگر بہت سے نازک موڑ آنے کے باوجود کسی چیز نے پاک بھارت جنگ کو وقوع پذیر ہونے سے روک رکھا ہے تو وہ پاکستان کا جوہری توانائی کا حامل ہونا ہے ۔

ڈاکٹرعبدالقدیر کے اس شان دار کارنامے کے باوجود انھیں اپنے ہم وطنوں کی جانب سے نہ صرف الزامات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی۔ اتنا ہی نہیں، پرویزمشرف کے آمرانہ دور میں ڈاکٹرعبدالقدیر کو ٹی وی پر لا کر ان سے جس طرح ’’اعترافات‘‘ کرائے گئے وہ ہماری تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب ان الزامات کا رد اور ان مہمات کا جواب ہے جن کا نشانہ ڈاکٹرعبدالقدیر کو بنایا گیا ۔ مصنف ومؤلف کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرقدیر نے یہ جواب لکھنے کی ہدایت کی تھی۔

ڈاکٹرقدیر کے پابندیوں کا شکار ہو جانے کے بعد جلیس سلاسل کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے نتیجے میں جلیس صاحب کو کن مراحل سے گزرنا پڑا ، یہ تفصیل بھی کتاب کا دل چسپ حصہ ہے۔ اس تالیف یا تصنیف کے ذریعے جلیس سلاسل نے اپنے طور پر دلائل، حوالوں اور شواہد کے ذریعے ڈاکٹر قدیر پر دھری جانے والی تہمتوں کا جواب دینے کی بھرپور سعی کی ہے ۔

کتاب پڑھتے ہوئے قاری بہت سے حقائق سے آشنا ہوتا ہے اور ماضی کے کتنے ہی واقعات اس کے ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں ۔ کتاب کی ابتدا میں ڈاکٹر قدیر سے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی اس مشہور زمانہ ملاقات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ، جس میں ہونے والی مبینہ گفتگو کو نائر صاحب نے ’’انٹرویو‘‘ کی صورت میں پیش کیا، جس کا لب لباب ڈاکٹر قدیر کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کا دعویٰ تھا۔

اس کے ساتھ ہی عالمی میڈیا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ صاحب کتاب ایسے کسی بھی انٹرویو کو جھوٹ قرار دیتے ہیں ، اور یہ ملاقات کرانے پر وہ مشاہدحسین سید پر بڑے سخت الزامات عاید کرتے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخصیت ہمہ وقت ہمارے خفیہ اداروں کے حصار اور نظر میں تھی اس سے ایک بھارتی صحافی کا مل لینا کیسے ممکن ہو سکا؟

جس طرح کتاب کے عنوان میں غیرضروری طوالت دکھائی دیتی ہے ، اسی طرح کتاب کے ابواب کے عنوانات دو دو سطروں پر مشتمل اور بعض تو پورے پورے پیرے جتنے طویل ہیں، یہ طوالت قاری کے ذہن کو بوجھل کرنے اور طبیعت پر گراں گزرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے ۔ عنوانات اور متن میں جگہ جگہ ڈاکٹرقدیر کے مخالفین یا ان ان کے ساتھ کسی بھی طور منفی سلوک کرنے والوں کے لیے جو درشت اور عامیانہ زبان استعمال کی گئی ہے ۔

جیسے ’’گھوس خور‘‘، ’’جعلی ڈاکٹر۔۔۔، اس سے گریز کرنا جانا بہتر تھا ، کیوں کہ اس قدر سنجیدہ موضوع پر لکھی جانے والی کتاب کی تحریر وقار ، شائستگی اور متانت کا تقاضا کرتی ہے ۔ اسی طرح سرورق بھی سلیقے اور نفاست کا متقاضی تھا ۔ ان خامیوں کے باوجود اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے یہ ایک لائق مطالعہ کتاب ہے، جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کے جوہری طاقت بننے کی تاریخ سے متعلق ایک اہم دستاویز کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

کارل ساگان کی دونہایت دلچسپ کتابیں
کارل ساگان مشہور امریکی ماہر فلکیات ہیں ۔ ان کی تحقیق فلکیات ، تکوینیات اور فلسفہ و سائنس کے کئی شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ۔ انھوں نے سائنس کے بارے میں جو لکھا ، عام فہم ہی لکھا تاکہ سائنس جیسے خشک مضمون کو عوام کے لئے دلچسپ بنایا جا سکے ۔ ان کے زیادہ تر موضوعات کا تعلق دو سوالوں سے ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کے ماخذ کیا ہیں اور کائنات میں دیگر جگہوں پر زندگی کے امکانات کیا ہیں ؟ 60ء کی دہائی میں ساگان نے یہ ثابت کرنے میں مدد دی کہ سیارہ مریخ کی سطح کے رنگ میں تغیرات وہاں زندگی کی موجودگی کا نتیجہ نہیں ۔70ء کی دہائی میں انھوں نے کرہ ارض کی فضا کا مطالعہ کیا۔ انہی کے نظریات کی بنیاد پر امریکی سائنس دانوں نے 80ء کی دہائی کے دوران میں نیوکلئیر موسم سرما کا تصور تشکیل دیا ۔

سائنس کو مقبول عوام بنانے کے لئے کارل ساگان نے بے شمار عوامی لیکچر دیے اور عوام کے لئے کتب لکھیں۔ ان کی The Dragons of Eden کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کو پولٹزر انعام بھی ملا ۔ اسی طرح انھوں نے ناول بھی لکھے اورتیرہ اقساط پر مشتمل ایک ٹیلی ویژن سیریز ’ کاسموس ‘ بھی بنائی ۔

’ زندگی اور موت‘ دراصل کارل ساگان کی انگریزی کتاب Billions and Billions کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ سائنس ، فلکیات اور سماجی ضمیر کے موضوعات پر لکھے گئے انیس مضامین کا مجموعہ ہے : بلینز اینڈ بلینز ، فارس کا شطرنج ، شکاری ، خدا کی نگاہ اور ٹپکتا ہوا نَل ۔ چار کائناتی سوال ، بہت سے سورج بہت سی دنیائیں ، ڈاک میں آنے والی دنیا۔ ماحولیات : دانائی کیا ہے؟ کروسس اور کیساندرا ، آسمان کا ایک ٹکڑا غائب ہے، دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ، خطرات سے بچائو ، مذہب اور سائنس : ایک اتحاد ، مشترکہ دشمن ، استقاط حمل ، کھیل کے اصول ، گیٹسبرک اور موجودہ دور ، بیسویں صدی ، سایوں کی وادی میں ۔

یہ کتاب نئے خیالات اور سوالات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں مصنف رونگٹے کھڑے کردینے والی دریافتوں کی پیش بینی کرتا اور دنیا کو درپیش چار دلچسپ ترین مسائل پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔

کارل ساگان کی دوسری کتاب ’ کاسموس ‘ دراصل کائنات کے ارتقا ، سائنس اور تہذیب کی کہانی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب بہت سے اہم ترین سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔

مثلاً ہماری کائنات کیسے بنی؟ کیا دوسری کائناتیں اور نظام بھی موجود ہیں؟ اس کرہ ارض پر ہماری ابتدا کیسے ہوئی؟ کیا یہ دنیا ہمیشہ سے ایسی تھی یا ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ؟ اس میں انسان کا مقام اور مستقبل کیا ہے؟ ہم نے خود کو اور فطرت کو جاننے کا عمل کیوں اور کیسے شروع کیا؟ کیا دیگر سیاروں پر بھی زندگی موجود ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی اجنبی مخلوق ہمارے سیارے پر آگئی تو کیا ہو سکتا ہے؟ کیا ہم ایٹمی ہتھیار تیار کر کے اپنی ہی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں؟

جیسا کہ سطور بالا میں بتایا گیا ہے کہ کارل ساگان نے 80ء کی دہائی میں 13اقساط پر مشتمل ایک ٹیلی ویژن سیریز ’ کاسموس ‘ بنائی تھی ۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی اردو ترجمہ کے ساتھ چلتی رہی ۔ اسی دوران مصنف نے اس سیریز کے سکرپٹ میں مزید مواد شامل کیا اور اسے ایک مفصل کتاب کی صورت دی ۔ یوں یہ کتاب نہایت غیر معمولی اہمیت کی حامل کاوش بن گئی ۔ ’کاسموس‘ شائع ہوئی تو فوراً اس کے پچاس لاکھ نسخے فروخت ہو گئے۔ تب سے اب تک اس کی اشاعت روز افزوں ہے۔

کارل ساگان کی ان دونوں کتب کا ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے جو معروف مترجم ہیں ۔ وہ دو عشروں سے زائد عرصہ سے تصنیف و تالیف ، تحقیق و ترجمہ سے وابستہ ہیں ۔ اب تک سائنس ، فلسفہ ، الٰہیات ، تاریخ ، مذاہب اور نفسیات کے موضوع پر 140 سے زائد کتب کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ دونوں کتب ’ بک کارنر‘ ، جہلم ( رابطہ 03215440882) نے ان کے شایان شان انداز میں شائع کی ہیں ۔ ’ زندگی اور موت ‘ کی قیمت :1200 روپے جبکہ ’ کاسموس ‘ کی قیمت 1500 روپے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔