عالمی یومِ اطفال اور پاکستانی بچے!

کاشف شمیم صدیقی  اتوار 20 نومبر 2022

شہر قائد میں ایک سروے ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جس کی بابت یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کورنگی، اورنگی ، کیماڑی ، لیاری ، لالوکھیت، رنچھوڑ لائن ، جٹ لائن ، پٹیل پاڑہ اور اسی طرح کے دیگر علاقوں میں موجود، مکینک کی دکانوں پر بیٹھے، استادوں سے فحش گالیاں سنتے، 10 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد آخر ہے کیا ؟

اس بات کی بھی کھوج لگائی جائے کہ  4سے 6  سال کی عمر کے کتنے بچے سڑکوں، چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگ رہے ہیں؟ ہر روز بھوک کے ہاتھوں مجبور ، کھانا ملنے کا انتظار کرتے، خالی پیٹ زندگی کی جنگ لڑتے اور پھر بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس جنگ کو ہارتے، ابدی نیند سو جانے والے کتنے ہیں ؟

بہیمانہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کا شمار کیا جائے ، عالیشان کوٹھیوں اور بنگلوں میں نوکر کے فرائض سنبھالے کسی کم سن وجود کی بے بسی سے آگاہی حاصل کی جائے، یہ تحقیق بھی کی جائے کہ ایسے بچے کتنے ہیں جو اسکول جانا اور پڑھنا لکھنا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں ، لاچار بھی۔

ریسرچ کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جائے کہ کچرے کے ڈھیر پر اپنا رزق تلاش کرنے والے معصومین کی تعداد کیا ہے، کتنے ہیں جو بیچارے یتیم اور مسکین تو ہیں ہی ، معذور بھی ہیں اور بے توجہی کا شکار بھی!

تحقیقات پر گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں بحیثیت محب وطن پاکستانی کسی ایک شہر واحد کے اس نوعیت پر مبنی اعداد و شمار اور تفصیلات سے آگاہی ہے ؟

اگر نہیں تو پھر پورے ملک میں بسنے والے بے بس و لاچار بچوں کی حالت زار کیا ہے ، کیسے اندازہ ہو کہ سیلاب متاثرہ بچے جو بھوک اور بیماری سے مرگئے ان کے والدین پر اب کیا گزر رہی ہے ، چھوٹے بچے ، بچیوں کی شادیاں کروائی جارہی ہیں ، زیادتی اور حقوق کی پامالی کے دلخراش واقعات رونما ہو رہے ہیں، نہیں معلوم ڈنگی اور دیگر وبائی امراض سے مزید کتنی جانیں ضایع ہوں گی۔

دیہی سطح پر قائم صحت کے نظام کی کارکردگی کا اندازہ شہروں کے اسپتالوں میں دھکے کھاتے معصوم بچوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس طرح کے اندازے ہم لگائیں ہی کیوں ؟ کیوں ایسی باتوں کے بارے میں سوچیں کہ جن کا کوئی حاصل وصول ہی نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ کیا فائدہ ان تفصیلات میں خود کو الجھانے کا، اپنی ہی پریشانیاں اور مسائل کیا کم ہیں جو بلاوجہ ایک نئی فکر اپنے اُوپر سوار کر لی جائے یہ سب ایسے ہی چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔

یہی سوچ ، جی ہاں! ہماری یہی سوچ ہر خرابی کو جلاِ بخش رہی ہے، نظام کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہی، بچوں سے جڑے سنگین اور بد ترین مسائل کے حل میں ہم سب کا کردار ہے جو ہم ادا نہیں کر رہے یا اگر کر بھی رہے ہیں تو وہ انتہائی ناکافی ہے ، بچوں سے وابستہ حساس ترین مسائل کے حل میں اپنے، اپنے حصے کی ذمے داریاں ادا نہ کرنا بھی غفلت ہے، یہ سمجھ لینا کہ ان معاملات سے لاتعلقی اس لیے جائز ہے کیونکہ ہمارے اپنے بچے تو بہت خوش و خرم اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں ، ایک بھُول ہے !

لاتعداد خار دار کانٹوں کے بیچ کھلیِ پھولوں کی خوبصورتی کو بھلا کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے ؟ چاروں جانب اندھیرا ہو تو پھر چمکتے ، دمکتے شاداب چہرے دکھائی نہیں دیا کرتے، پتھروں کی بستی میں بنا کوئی شیش محل کیسے اورکیونکر محفوظ رہ سکتا ہے؟

بہر حال ، اقتدارکی نشستوں پر برا جمان حکامِ بالا اگر ذمے داریاں نہ نبھانا چاہیں تو نہ سہی ، ہم عوام ہی، ہاتھوں میں تھامے ہاتھ ایک نئے عزم ، جذبے اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں،کچھ سوچتے ہیں ، کچھ کرتے ہیں ، کچھ ایسا جو مثال بن جائے، پہلے مرحلے میں پسماندہ علاقوں کی گلی ، محلوں میں ایسی کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں جو ہر شام ملِ ، بیٹھ کر اپنے ، اپنے علاقوں میں موجود بے بس و مجبور بچوں کے بارے میں مشاورت ، غور و فکر اور اہم فیصلے کریں۔

ایک فیصلہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ محلے کا ہر گھر معصومین کی فلاح و بہبود کے لیے ہر مہینے 100 روپے کا عطیہ دے گا۔ ایک محلے میں اگر بالفرض 25 گھر ہیں تو اس طرح 2500 جمع ہوجائیں گے اور اگر ایک علاقے میں 25 محلے ہیں تو جمع شدہ رقم 62500 بنے گی۔

یہ امداد ایک علاقے سے حا صل ہوگی اور پھر اسی طرح نہ صرف شہر قائد بلکہ ملک کے ہر علاقے میں جمع شدہ رقم سے پاکستان کے کتنے بچوں کو دکانوں، بنگلوں، سڑکوں اور چوراہوں سے اُٹھا کر اسکول بھیجا جاسکتا ہے، غذائیت کی کمی کا شکار کتنے بچوں کا علاج کروایا جا سکتا ہے، کتنے بے گھر اور بے آسرا بچوں کی کفالت کی جاسکتی ہے ، یہ حساب اب آپ خود لگا لیں۔

ہر ماہ جمع کی جانے والی رقم میں اگر پوش علاقوں کے مکین ، مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیز بھی اپنا حصہ ملاِ دیں تو مقدارِ رقم کہاں سے کہاں پہنچ جائے ! جس اسکول میں ایسے بچوں کو داخلے کے لیے لے جایا جا رہا ہو وہ اگر فیس بالکل معاف نہیں کرسکتے تو فیس کا ایک چوتھائی لے کر حقِ انسانیت ادا کر سکتے ہیں۔

کتابیں ، کاپیاں ، یونیفارم ، اسٹیشنری ، موزے جوتے اور اسکول بیگ بنانے والے کارخانے ایسے ضرورت مند بچوں کے لیے رعایتی پیکیجزکا اعلان کر سکتے ہیں۔ کھانے ، پینے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیز اسکولوں کی کینٹین میں بچوں کے لیے اشیاء کی بلامعاوضہ فراہمی کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں، ٹرانسپورٹرز تنظیموں کی جانب سے مستحق بچوں کے پک اینڈ ڈراپ کے لیے خصوصی بسیں چلائی جائیں اور پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کرتے ادارے بسوں کو ایندھن کی مٖٖفت فراہمی کرنے لگ جائیں توکافی مدد مل جائے۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمایندگان بھی بہت مددگار اس طرح سے ثابت ہو سکتے ہیں کہ متعلقہ ارباب اختیار کو (جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہیں) اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے رُو برو کردیا جائے تاکہ مثبت، معیاری اور شفاف بحث و مباحثہ مسائل کا فوری حل ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہو سکے۔

نامور صحافیوں کی میزبانی میں درجن بھر ٹاک شوز ہوتے ہیں، ایک آدھا ان مسائل کو اُجاگر کرنے پر بھی کر لیا جائے توکیا ہی اچھا ہو جائے، اخبارات میں مضامین شایع ہوں ، بچوں کے دیرینہ اور سُلگتے ہوئے مسائل اور مشکلات پر مبنی خبروں کو ہر روز تلاش کیا جائے اور پھر مسائل کے حل تک خبروں کی اشاعت کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا جائے ، اگر بیان کردہ تجاویز قابلِ قبول نہ ہوں، پسند نہ آئیں، اچھی نہ لگیں تو کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ لیجیے، لیکن خدارا بچوں سے وابستہ مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور تلاش کیجیے۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں کہ جہاں ہمیں مشکلات کے حل کے لیے خود ہی آواز اُٹھانا ہوگی، خود ہی متحرک ہونا ہوگا ، مسائل کا حل اپنے طور پر تلاش کرنے کی کبھی کامیاب تو بہت بار ناکام ، لیکن کوشش ضرورکرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔