دہشت گردی کی نئی لہر پر حکومتی خاموشی ؟

جمشید باغوان  پير 21 نومبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی طرز سیاست کی وجہ سے ہمارے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جو ہیجان پیدا ہو چکا ہے، اس کے باعث ہم اپنے اندرونی اور بیرونی ضروری معاملات کو مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں۔

ہمارے قریب ہمسایہ افغانستان میں دوستوں (طالبان) کی حکومت سفارتی آداب اور بین الااقوامی اصولوں کی پرواہ کیے بغیر ہماری سرحد پر مسائل کھڑے کر رہی ہے۔ وہاں پر پناہ گزین ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے اندر کارروائیوں میں مصروف ہیں بلکہ ان میں شدت بھی لا چکی ہے۔

ایک تقرری پر شور وغوغا میں مشغول ساری اشرافیہ اور وہ لوگ جو نظام میں کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتے ہیں، یہ بھول چکے ہیں کہ اس ملک میں پچھلے ایک سال کے دوران کسی ایک ہفتہ بھی ڈالر کی قیمت مستحکم نہیں رہی۔ عوام تو مہنگائی کی چکی میں پس ہی رہے ہیں، تاجر اور کاروباری طبقہ بے حد پریشان ہے۔

درمیانے درجہ کا یہ تاجر اور کاروباری طبقہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کرتا ہے، اگر ریڑھ کی ہڈی ٹھیک نہ رہے تو سارا بدن مفلوج ہوجائے گا۔ ہمیں اپنے مفادات کی جذیات تک یاد ہے، اگر یاد نہیں تو ملک کی سلامتی یاد نہیں، ملک کی تباہ حال معیشت یاد نہیں ہے۔

ایکسپریس میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق پشاور میں اب یہ رواج عام ہو رہا ہے کہ لوگ پانی کی ٹینکیوں کی طرح اب گیس کو ذرا ہارڈ پلاسٹک سے تیارہ کردہ غبارے نما ٹینک میں جمع کرکے بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیں۔

عام پلاسٹک سے ایک بڑے سائز کا غبارہ تیار کرلیا جاتا ہے اور اسے کو گیس سے بھر لیا جاتا ہے اورگھر میں ہی اسٹور کر دیا جاتا ہے جو ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ پلاسٹک کا غبارہ کسی بھی وجہ سے پھٹ سکتا ہے۔ پہلے سیلنڈرز کا استعمال محفوظ نہ تھا تو اب گیس سے بھرے غبارے شہر میں موت کا سامان بن سکتے ہیں۔

عوام کی بے شعوری اور بے صبرا پن تو اپنی جگہ رہا لیکن سرکار کو بھی کوئی پرواہ نہیں ہے، سب کو اپنی سرکاری تنخواہ اور مراعات کی فکر ہے، لیکن اپنی ڈیوٹی کا کسی کوئی خیال نہیں ہے۔

تحریک انصاف جو مقبول ترین سیاسی جماعت کی دعویدار ہے، خیبر پختونخوا میں اقتدار کی دوسری مدت پوری کررہی ہے لیکن اسے بھی عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ ایک ’’حقیقی آزادی‘‘ چاہیے۔

یہ حقیقی آزادی کیا ہے اور کس سے لینی ہے ، اس کے بارے میں خاموشی ہے۔ مسلم لیگ ن کے قطر سے کیے گئے این ایل جی گیس کے معاہدے تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے اڑا دیے تھے، عمران خان تو اقتدار سے چلے گئے لیکن گیس اور بجلی کا بحران پہلے سے بھی گہرا کر کے گئے ۔

ہم اپنے پانی کے ذخائر بڑھانے اور انھیں محفٰوظ بنانے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ امریکی سازش شازش کا ڈھول پیٹتے پیٹتے ہم بھول گئے ہیں کہ قریب 3 کروڑ سے زائد پاکستانی سیلاب کی تباہی کا شکار ہو گئے ہیںاور ان میں سے اکثر ابھی تک واپس اپنے گھروں کو جا نہیں سکے یا ان کے گھر موجود ہی نہیں اور اوپر سے سردی نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

اپنے مفادات کی خاطر قومی اداروں کو متنازعہ بنانے کی سیاست کرتے کرتے ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ گنے کی کرشنگ کا سیزن ہوا چاہتا ہے ، ملز مالکان نے چند روز قبل واضح اعلان کیا ہے کہ اگر ں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں کریں گے۔

مطلب وہ کسانوں سے گنا ہی نہیں خریدیں گے کیونکہ بقول ان کے پاس چینی وافر مقدار میں موجود ہے اور اسے باہر بیچنا ضروری ہے۔ ہمارے یہ سوشل میڈیائی مفکرین ہمیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ شوگر ملز مالکان کو چینی باہر بیچنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں۔ اس اہم مسئلے پر کوئی بات کرنے اور سمجھانے کے لیے آگے ہی نہیں آ رہا بلکہ انھیں ان مسائل کا علم ہی نہیں ہے۔

وہ تو اپنے اپنے لیڈر کی مدح سرائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ بے بنیاد پروپیگنڈے کی شدت کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے چمن میں ہونے والے واقعہ پر کوئی ردعمل ہی نہیں آیا۔ افغانستان کے اندر سے پاکستان دہشت گرد حملے جاری ہیں۔ افغان طالبان نے بھی ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی مشق جاری رکھی ہوئی ہے، کہیں پر باڑ توڑ دی جاتی ہے تو کہیں پر سنائپر کے ذریعے ہمارے سیکیورٹی اہلکار شہید  کر دیے جاتے ہیں۔

کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں؟ فائر بندی کا جو اعلان تھا وہ کب ختم ہوا۔ خیبر پختونخوا میں تشدد کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کی ذمے داری ٹی ٹی پی والے تسلیم کر رہے ہیں لیکن ہماری صوبائی حکومت میٹھی نیند سو رہی اور وفاقی حکومت بھی کچھ بتا نہیں پا رہی کہ ان مذاکرات میں افغان طالبان جو ثالث اور ضامن کا کردار ادا کر رہے تھے، اس کا کیا بنا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان ہی وہ واحد سیاستدان ہیں جو مسلسل اس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے صوبائی اور مرکزی حکومت کو اس حوالے سے جھنجوڑا کہ لکی مروت کا واقعہ ہو گیا۔

اسی مہینے چند روز قبل ایکسپریس کے انتہائی مستند اور محنتی رپورٹر احتشام خان نے ایک ہولناک رپورٹ شایع کی جس کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کے دوران دہشت گردوں نے تھرمل گنز استعمال کی ہیں۔

جن کا پاکستانی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے پاس فی الحال کوئی توڑ نہیں۔ مختلف واقعات کی تفتیش میں یہ بات ثابت ہوئی کہ تحریک طالبان پاکستان، افغانستان میں استعمال کیے جانے والے امریکی ہتھیاروں سے بھی لیس ہو چکے ہیں لیکن اتنی تشویشناک رپورٹ کے بعد بھی مرکزی حکومت اور صوبائی دونوں کبوتر والا کام کر رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے، انھیں سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت اور عوام کے جانی نقصان کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس ایک مہینے کے دوران دو درجن سے زائد ہمارے جوان شہید ہو چکے ہیں۔ خود کش حملوں کا سلسلہ شمالی وزیرستان میں ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے۔

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں حالات خراب ہو رہے ہیں، عام لوگ اب امن کے بغیر کسی چیز پر تیار نہیں اور وہ مسلسل باہر نکل کر امن کے حق میں مظاہرے کرہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اے این پی نے ان امن مارچوں کو نہ صرف اپنا سہارا مہیا کیا بلکہ ایک امن مارچ کا خود بھی انعقاد کیا۔

صوبے میں دہشت گردی کی نئی لہر کے حوالے سے پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت کی خاموشی سمجھ نہیں آ رہی ۔سوات میں طالبان دیکھے جانے پر مراد سعید سمیت عمران خان بھی میدان میں آ گئے تھے لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور اب وہ ذمے داری بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ بھتے کی کالیں آ رہی ہیں اور لوگ پیسے بھی دے رہے ہیں لیکن صوبے کی حکمران جماعت عمران خان کی ’’حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔

فی الحال انھیں خیبرپختونخوا بھول چکا ہے جو آہستہ آہستہ پھر سے ایک بار دہشت گردی کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ یہ مجلس عمل کی حکومت کے آخری سال کی صورتحال کی طرح دکھائی دے رہی ہے جب وزیراعلیٰ اکرام خان درانی کے ہاتھوں سے صوبے کا امن سرک رہا تھا، اس وقت مجلس عمل اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور مشرف کے ساتھ دست و گربیان بھی تھی۔

اب پی ٹی آئی کی حکومت ہے، تشدد پسند سر اٹھا رہے ہیں جب کہ صوبائی حکومت ،مرکزی حکومت کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ اﷲ نہ کرے، ہم پھر سے 2007 والی صورتحال میں واپس چلے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔