سب کچھ میں سب کچھ جائز

سعد اللہ جان برق  جمعـء 25 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

بقول سیف دین ہمارے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہم ایک بات شروع کرتے ہیں تو یہاں وہاں سے دوسری باتیں اپنی ’’دمیں‘‘ ہلانا شروع کردیتی ہیں ، اس وقت ہمارا اصل تحقیقی پروجیکٹ ایک ایسے قول زریں پر تھا جو مغرب سے براستہ مشرق ہم تک پہنچا ہے۔

قول ہے،جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، ایوری تھنگ ازفیر ان لو اینڈ وار۔غیر متعلق ’’دم‘‘ یہ ہل رہی ہے کہ ہم بھی عجیب ہیں، ہمارے ہاں جو کچھ بھی مغرب سے آتا ہے براستہ مشرق آتا ہے اورجو کچھ مشرق سے آتا ہے۔

وہ براستہ مغرب آتا ہے مثلاً مذاہب، عرب، ایرانی، یونانی، ترکی اور مغل وغیرہ سارے ’’مشرق‘‘ براستہ مغرب یعنی درہ خیبر سے گزر کر آئے تھے اور سارے مغربی یعنی انگریز،فرانسیسی ،پرتگالی ،اطالوی اور بہت سارے براستہ ’’مشرق ‘‘ سے آئے تھے اور ہم تو سدا سدا کے خاندانی اور جدی پشتی مہمان نواز یا انصار ہیں کہ سب کو دل وجان سے قبول کرلیتے ہیں۔

یہاں ایک اور دم ہلنا شروع ہوگئی ہے کہ مشرق کہاں سے شروع ہوتاہے اور مغرب کہاں پر ختم ہوتاہے کہ ان دونوں کا تعین آج تک کسی بھی ’’پٹواری‘‘ یا جغرافیہ دان نے نہیں کیا ہے مثلاً ہم جب پشاور سے لاہورکے لیے چل پڑتے ہیں تو اسلام آباد ہمارے لیے مشرق ہوتا ہے لیکن گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اچانک کچھ دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد تو اب مغرب ہوگیا ہے لیکن یہ بڑی لمبی دم ہے اور ٹیڑھی بھی۔اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے نلکی میں بند کرکے آگے بڑھتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتاہے جب کہ ہمارے ہاں جنگ اور محبت دونوں ناجائز سمجھے جاتے ہیں۔

لہٰذا ناجائز میں کیا جائز اور کیا ناجائز ،لیکن اب اس مغربی قول زریں کے مغرب سے براستہ مشرق آنے پر صورت حال ایسی ہوگئی ہے کہ سب کچھ میں سب کچھ جائز بھی ہے اور ناجائز بھی گویا جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔

پھر جب پرانا پاکستان ’’تبدیلی‘‘ کا شکار بن کر نیا پاکستان ہوگیا اور پھر آگے ٹائم مشین میں بیٹھ کر ریاست مدینہ بن گیا تو جائز وناجائز کا سوال ہی درمیان سے نکل گیااور مشہور مفتی عمران خان نے فتویٰ جاری کردیا ہے کہ وہ سب کچھ ناجائز ہے جو دوسرے کرتے ہیں اور وہ سب کچھ جائز ہے جو وہ خودکرتے ہیں یا اس کے اپنے بنائے ہوئے صادق وامین کرتے ہیں۔

چنانچہ اس فتوے کے بعد اب پاکستان کی سیاست میں سب کچھ جائزہے بشرطیکہ ’’کرنے والے‘‘ جائز ہوں اور یہ تو اب کھلے عام ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان میں جائزصرف اور صرف ’’وہی‘‘ہیں ۔ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ جو ہو رہاہے اسی قول زرین کی ’’تفسیر‘‘ اور تفصیل ہی ہے جو مغرب سے براستہ مشرق آیاہے کہ سیاست، محبت اور جنگ دونوں کا ’’عطرمجموعہ‘‘ہی تو ہے ،کرسی کی بے پناہ محبت اور رقیبوں سے جنگ اورجنگ بھی ایسی کہ جنگ میلوغہ اور ملغوبہ یعنی سب کچھ جائز ہو۔

کیا مزے کاانصاف بلکہ تحریک انصاف ہے کہ کل جو یہ ایک منتخب وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کرچکاہے، وہ جب آج اس کے ساتھ ہو رہا ہے تو۔

لے آئی ہے کہاں تک قسمت ہمیں کہاں سے

یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

کہتے ہیں کہ ایک بیٹا اپنے باپ سے تنگ آکر اس سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی تدابیر سوچنے لگا، آخر کار اس نے سوچا کہ باپ کو دریا میں پھینکنا چاہیے کہ نہ رہے باپ اور نہ بانسری۔چنانچہ اس نے اپنے باپ کو کمر پر لاد ا اور دریا کنارے لے گیا اور ایک جگہ مناسب سمجھ کر دریا برد کرنے لگا تو باپ نے کہا، بیٹا!یہ جگہ مناسب نہیں ہے اور پھر اشارے سے بتایا، وہ جگہ ٹھیک رہے گی، وہاں پانی گہرا ہے، فوراً ڈوب جاؤں گا ۔

بیٹا حیران ہوکر بولا، آپ کو کیسے پتہ لگ گیا کہ میں آپ کو دریا میں گرانے والا ہوں اور وہاں پانی گہرا ہے ۔باپ نے کہا کہ بیٹا ایک دن میں بھی اپنے بوڑھے باپ سے چھٹکارا پانے کے لیے تمھاری طرح اسی دریا پر آیا اورجہاں میں نے اشارہ کیا ہے ، اسے وہیں پر گرا کر ڈبویا تھا ۔

گندم ازگندم بروید جو زجو

ازمکافات عمل غافل مشو

پہلے ’’سیاست‘‘ صرف تماش بینوں میں گھری رہا کرتی تھی لیکن دو شخصیات نے اسے بالاخانے سے اتار کر گلیوں کوچوں میں نچانا شروع کردیا، ایک وہ روٹی، کپڑا، مکان والا اور دوسرا یہ نیا پاکستان والا۔

ایک دانا دانشورسے ہم نے ان دونوں کی تیز ترین مقبولیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ان دونوں نے عوام کو یقین دلایا کہ ہم بھی تمہاری طرح سب کچھ میں سب کچھ جائز والے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔