قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی

سلمان عابد  اتوار 27 نومبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

حادثات یا قدرتی آفات ایک فطری عمل ہے۔ کوئی بھی ملک تمام تر اقدامات کے باوجود آفات سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتا۔ لیکن اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کے حادثات یا آفات سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ بنیادی طو رپر اس طرز کے حادثات سے نمٹنے میں ریاستی یا حکومتی حکمت عملی ، صلاحیتیں ، سیاسی کمٹمنٹ ، پالیسی یا قانون سازی سمیت عملدرآمد کے نظام کو موثر طور پر ایک واضح اور شفاف روڈ میپ درکار ہوتا ہے۔

عمومی طو رپر اس طرز کے بڑے حادثات سے نمٹنے کا عمل تنہا ریاست یا حکومت نہیں کرسکتی ، اس کے لیے ریاست نظام معاشرے میں موجود رضاکاروں کو متحرک اورفعا ل کرنا ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں جب واقعات ہوتے ہیں تو ہم سرگرم نظر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی سانحہ گزرا ریاستی اور سماجی نظام سست ہوجاتا ہے بلکہ بھول جاتا ہے۔

ہمارا ایک مجموعی مزاج یہ ہے کہ ہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور محض الزام تراشیوں کو بنیاد بنا کر ہم معاملات کو درست کرنے کے بجائے اسے اور زیادہ الجھا دیتے ہیں۔ نیشنل ، صوبائی اور ضلعی ڈیسائسٹر مینجمنٹ اتھارٹیوں کے باوجود ہم ابھی تک موثر حکمت عملی کے تحت ان حادثات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔

حالانکہ عالمی دنیا اور قدرتی آفات سے نمٹنے والے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے خطیر رقم کے باوجود ہم ابھی تک اپنے ادارہ سازی کے عمل کو موثر بناسکے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حادثات کی بنیاد پر نمٹنے والے اداروں اورعوام میں ایک واضح خلیج یا بداعتمادی کا ماحول نظر آتا ہے۔

ہمیں ان پندرہ نکات کو بنیاد بنا کر حادثات یا آفات سے نمٹنے کی پالیسی کی جانب بڑھنا ہوگا۔

اول ، ایک مربوط ، مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت کا نظام ۔

دوئم، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے کو مربوط او رمستحکم کرنا بالخصوص ضلعی اتھارٹی کو مستحکم کرنا ۔ کیونکہ ان حادثات سے نمٹنے میں بنیادی عملی کردار بلدیاتی اور ضلعی ڈھانچے یا اتھارٹی کا ہوتاہے او راس کو مضبوط بنائے بغیر حادثات سے نمٹنے کی حکمت عملی موثر نہیں ہوسکتی۔

سوئم، قدرتی آفات یا حادثات سے نمٹنے کے لیے ہمیں ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ، حکومت اور غیر سرکاری یا سول سوسائٹی پر مشتمل وفاقی ، صوبائی اور مقامی ماہرین کا ایک ریسورس پول بنایا جائے جو حکومت کی پالیسی سازی اور عملدرآمد کے نظام میں واچ ڈاگ کا کردار ادا کرے ۔چہارم، ضلعی انتظامیہ اور ضلعی محکموں یا اتھارٹی کی قدرتی آفات یا حادثات سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی تربیت کا عمل اور موثر و شفاف نظام کو موثر بنانا ۔

پنجم ، ہمیں ان قدرتی آفات یا حادثات سے نمٹنے کے لیے ردعمل کی پالیسی کے بجائے مستقل بنیادوں پر پالیسی سازی ، قانون سازی ، اور عمل درآمد کے نظام کے بنیادی فریم ورک جو مستقل بنیادوں پر کام کرسکے ۔خصوصاً تعمیراتی عمل میں بے قاعدگیوں کو روکنا ہوگا۔

ششم، قدرتی آفات یا حادثات سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر وسائل کی بہتر تقسیم ، بجٹ اخراجات کی شفافیت کو یقینی بنانا اوربجٹ کا ایک خاص حصہ مقامی حکومتوں کے ذریعے خرچ ہو۔ اس کے لیے قومی پانچ سالہ منصوبہ ، سالانہ وفاقی ، صوبائی اور مقامی منصوبہ سازی کو مستحکم کرنا اور اسی بنیاد پر قدرتی آفات کو ترجیحی بنیادوں کا حصہ بنانا ہوگا۔

ہفتم قدرتی آفات یا حادثات سے تمام ریاستی ، حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کے کاموں کی نگرانی ، جوابدہی یا احتساب کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا او ران اداروں کی پالیسی او رفریم ورک کو پارلیمنٹ سے منظوری کو یقینی بنانا ہوگا۔ہشتم ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی،اور ضلعی حکومتوں کی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل اوران کو مستحکم کرنا اور پارلیمانی کوکس کا قیام اور ان کو بااختیار بنانا اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر اس اہم مسئلہ پر پالیسی فریم ورک یا پالیسی پیپرز کا اجرایا انتخابی منشور میں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا۔

نہم ، نصابی کتابوں میں قدرتی آفات یا حادثات کی اہمیت اوران سے نمٹنے کے حوالے سے مختلف فریقین کی ذمے داریوں پر مضامین کا اجر اور ڈگریوں یا شارٹ کورسز کا اجرااور جامعات کی سطح پر ڈیسک کا قیام جو ان اہم معاملات میں تحقیقی عمل کو آگے بڑھاسکے ۔دہم، دنیا میں قدرتی آفات یا حادثات سے نمٹنے کے لیے ہونے والے تجربات سے آگاہی اور ان سے سیکھ کر اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دینا اور عالمی فورمز او رڈونرز سے رابطہ کاریوں کو مضبوط بنانا۔

گیارہ، ملک میں قدرتی آفات یا حادثات پر کام کرنے والی سماجی تنظیموں کی ریاستی سطح پر سرپرستی کو ممکن بنانا تاکہ ان ہی تنظیموں سے مدد لی جاسکے۔بارہ ،میڈیا میں کام کرنے والے افراد او ربالخصوص جو ان موضوعات پر کام کرتے ہیں کی تربیت اور آگاہی کے تربیتی پروگرام کو یقینی بنانا اور میڈیا اور تعلیمی اداروں کی مدد سے ڈیسائسٹرز لٹریسی پر آگاہی مہم پر توجہ دینا ۔

تیرہ ، وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں اوراداروں کے درمیان موثر او رمنظم رابطہ کاری او رایک دوسرے کے کاموں میں بہتر سہولت کاری کو ممکن بنانا، ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔چودہ ، امدادی کاموں یا خیراتی کاموں میں شفافیت کے لیے میکنزم تیار کرنے پر توجہ دینا ہوگا۔پندرہ ، ہمیں نوجوانوں کو اپنی بڑی طاقت بنانا ہوگا اور نوجوان رضا کاروں کی کھیپ تیا رکرنا ہوگی جو حادثات کی صورت میں کلیدی کردار ادا کرسکے۔

حکومت کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔ جب تک قدرتی آفات سے نمٹنا حکومت کی ترجیح نہیں بنے گی،کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے میں جو غیر سنجیدگی دکھائی گئی ہے ، اس کی قیمت آفات سے متاثرین کو ادا کرنا پڑی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا فعال اور سرگرم نہ ہونا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

ہمارے بہت ہی پیارے دوست او ربھائی او رایک بڑے ادارے اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بھی اب تک بائیس کے قریب اپنے کالموں کی اقساط میں تفصیل کے ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے پر بھی اپنا ایک روڈ میپ پیش کیا ہے ۔ ان کی اقساط کا سلسلہ ابھی چل رہا ہے اس میں پیش کیا جانے والا روڈ میپ اور تجاویز سے بھی ریاست اور حکومت فائدہ اٹھاسکتی ہے۔

اس وقت ان کا اپنا ادارہ اخوت براہ راست متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہے او ران کے اپنے عملی تجربات بھی اہم ہیں کہ کیسے ہم ان معاملات میں ایک ذمے دار ریاست او رحکومت یا معاشرہ کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں ۔ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط اور جدید بنانا ہے او ریہ ہی حکمت عملی ہے جو ہمیں قدرتی آفات سے نمٹنے میں کافی مدد دے سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔