صرف چند ماہ کا فرق …

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 3 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عمران خان نے راولپنڈی میں ایک زوردار جلسہ کیا اور اسمبلیوں سے مستعفی ٰ ہونے کا اعلان کیا۔ عمران خان نے اپنی اساسی تقریر میں کہا کہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تاریخ کا اعلان اتحادیوں سے مشورہ سے کریں گے۔

مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی نے عمران خان کے اس اعلان کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان ہدایات جاری کریں گے ان کے والد چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دیں گے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے دوسرے دن اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب کی حکومت عمران خان کی امانت ہے۔ وہ عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کے حکم کی پاسداری کریں گے۔

خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی اپنی جماعت کے سربراہ کو اسمبلی توڑنے کے فیصلہ پر مکمل عملدرآمد کا یقین دلایا۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ عمران خان اپنے بیان پر ’’یوٹرن ‘‘ لے لیں گے۔ وزیر اعظم کے مشیر قمر الزماں کائرہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو صرف ان دونوں صوبوں کے انتخابات ہونگے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات اگلے سال نومبر میں ہی ہونگے۔ وفاقی وزراء اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کا واضح مؤقف ہے کہ انتخابات اگلے سال نومبر میں ہی منعقد ہونگے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا۔

قومی اسمبلی کے حلقوں کے ضمنی انتخابات میں خود امیدوار بن گئے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے اراکین کی نشستیں خالی قرار دے دیں تو تحریک انصاف نے ان میں سے 8نشستیں دوبارہ حاصل کر لیں۔ قومی اسمبلی کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں دو حلقوں کے علاوہ باقی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ عمران خان نے گزشتہ ماہ اپنا لانگ مارچ شروع کیا ، انھوں نے مارچ کے آغاز سے پہلے خیبرپختون خوا اور پنجاب میں پچاس کے قریب بڑے اور چھوٹے جلسے کیے۔

عمران خان گزشتہ ماہ کے آخر میں لاہور سے حقیقی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے روانہ ہوئے۔ ان پر وزیر آباد کے قریب ایک مشتعل نوجوان نے گولیاں چلائیں۔ اس نوجوان کی فائرنگ سے وہ زخمی ہوئے۔

اس فائرنگ میں ایک نوجوان کی جان گئی مگر لانگ مارچ اختتام کو پہنچ گیا مگر اب تحریک انصاف سے عمران خان کے استعفوں کے اعلان پر دوسری آوازیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ بیرسٹر سیف جو 2018 سے پہلے ایم کیو ایم میں ڈیوٹی کرتے تھے اب خیبر پختون خوا میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔

یہ بھی خبر ہے کہ تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اعلیٰ سطح کمیٹی اس معاملہ پر غورکررہی ہے، تحریک انصاف شاید پھر یوٹرن لینے والی ہے۔

فواد چوہدری نے سفارت خانہ میں جا کر امریکی سفیر سے دو دفعہ مذاکرات کیے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان امریکی سازش کے بیانیہ سے دستبردار ہونے جا رہے ہیں۔ ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دینے پر اپنی مشیر مسرت جمشید چیمہ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔

کچھ صحافیوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کی نئی کمانڈ اس دباؤ پرکوئی مداخلت کرے گی۔ وفاقی وزیر رانا ثناء اﷲ اس رائے کا اظہارکرچکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی میعاد میں چھ ماہ کی توسیع ہوسکتی ہے۔

ادھر اخبارات میں ایک خبر شایع ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے 47 بلین روپے نئے انتخابات کی تیاریوں کے لیے وزارت خزانہ سے مانگے تھے مگر وزارت خزانہ نے یہ رقم جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔ وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا تھا کہ الیکشن کمیشن اس رقم کی منظوری کے لیے قومی اقتصادی کمیٹی میں ایک سمری بھیجے۔ اس سمری میں مطلوبہ رقم کا جواز فراہم کیا جائے۔ قومی اقتصادی کمیٹی نے گزشتہ روز اس رقم کی منظوری دے دی۔

ایک طرف سیاسی محاذ پر محاذ آرائی جاری ہے تو دوسری طرف معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا مشن جو قرضہ کی دوسری قسط کے بارے میں بات چیت کے لیے پاکستان آنے والا تھا ، اس نے اپنا پروگرام تبدیل کردیا ہے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو آج کل اخبارات میں معیشت پر مضامین لکھ رہے ہیں اور پھر ان مضامین میں جاری کردہ بیانیہ کو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاصی کمی آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے وفاقی حکومت کو قرض دینے سے انکارکیا ہے اور اگر فوری طور پر آئی ایم ایف کی گرانٹ نہ ملی تو ملک اگلے چند ہفتوں میں دیوالیہ ہوسکتا ہے۔

جب اسحاق ڈار لندن سے واپس آئے تو ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی پاکستانی روپے میں قیمت 200 روپے سے کم ہے اور ڈالرکی قیمت مصنوعی طریقہ سے بڑھائی گئی ہے۔ حکومت ایسے اقتصادی اقدامات کررہی ہے کہ ڈالرکی حقیقی قیمت 200 سے کم ہو مگر اسحاق ڈار کے اعلانات سے ڈالرکی قیمت کم نہ ہوئی ۔

مہنگائی کا سیلاب ہر شعبہ کو متاثرکیے جارہا ہے۔ اس وقت ڈالر کی عدم دستیابی کی بناء پر برآمدات کے لیے ایل سی کھلنا بند ہوگئی ہے اور بے روزگاری کی شرح 28 فیصد تک پہنچ رہی ہے جو ملک کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

اقتصادی ماہرین کا بیانیہ ہے کہ سیاسی بحران ختم ہوگا تو معاشی بحران قابو میں آئے گا۔ عمران خان کے فوری انتخابات کے انعقاد کا بیانیہ اور حکومت سے مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کے مؤقف میں محض تین ماہ کا فرق ہے، اگر حکومت دسمبر میں انتخابات کا فیصلہ کرے تو 90 دن کے لیے عبوری حکومت کا دور آئے گا اور قانونی طور پر انتخابات اپریل میں ہونگے اور حکومت کی پانچ سال کی تکمیل پر انتخابات کا انعقاد نومبر میں ہوسکتا ہے۔

وفاقی حکومت نے انتخابات ملتوی کیے اور موجودہ قومی اسمبلی کی میعاد بڑھانے کی تجویز کو عملی شکل دی تو سیاسی بحران مزید بڑھ جائے گا۔

یہی وقت ہے کہ عمران خان اور وفاقی حکومت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹیں اور انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات شروع کریں۔ ان مذاکرات میں وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کے لیے ناموں کے لیے غور کیا جائے اور ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے میثاق جمہوریت کے خدوخال پر بھی غور ہونا چاہیے۔

عمران خان اور برسرِ اقتدار جماعتوں کے اتحاد کے اکابرین کو اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ گزشتہ صدی کی 70ء کی دہائی کے اوائل میں ملک سیاسی اتفاق رائے نہ ہونے پر خانہ جنگی کا شکار ہوا تھا اور اس خانہ جنگی کا نتیجہ 16 دسمبر 1971کو ملک دولخت ہوا تھا۔

سیاسی بحران کے مزید شدید ہونے سے اقتصادی بحران مزید شدید ہوگا ، اگر ملک ڈیفالٹ ہوا تو انارکی پیدا ہوگی جس سے طالع آزما قوتوں کی خواہشات پورا کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔