دہشت گردانہ حملے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 8 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کوئٹہ میں پولیو کی مہم میںشامل ہونے والے کارکنوں کی سیکیورٹی پر تعینات پولیس وین پر خودکش حملہ ہوا، پولیس کے چار جوان شہید ہوگئے۔

تحریک طالبان پاکستان نے اس خودکش حملہ کی ذمے داری قبول کرلی۔ تحریک طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کابل میں اگست میں ایک دہشت گرد عمر خالد کی کار بم میں ہلاکت کا بدلہ لیا گیا ہے۔

اس خودکش حملہ سے ایک دن قبل پاکستانی طالبان نے ریاست پاکستان سے ہونے والی جنگ بندی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان نے یوں پھر ایک دفعہ باقاعدہ جنگ شروع کردی ہے۔

پارلیمنٹ میں گزشتہ ہفتہ اس موضوع پر ہونے والی بحث میں انکشاف ہوا کہ پاکستانی طالبان سے جنگ بندی کا معاہدہ عمران خان کی حکومت کے کسی عہدیدار نے نہیں کیا تھا۔ گزشتہ سال افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد پاکستانی طالبان کو ایک نئی زندگی مل گئی۔

طالبان کے گروہوںنے سابقہ قبائلی علاقوں ، گلگت بلتستان، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تخریبی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ طالبان نے گزشتہ ماہ گلگت میں لڑکیوں کے اسکول کی عمارت کو بم کے دھماکہ سے مسمار کیا تھا۔

اس سے قبل سوات میں ایک اسکول بس پر حملہ کیا تھا۔ اس حملہ میں بس کا ڈرائیور جاں بحق اور ایک طالب علم زخمی ہوگیا تھا۔

طالبان نے گزشتہ ماہ ایک اور خوفناک کارروائی خیبر پختون خوا کے لکی مروت ضلع میں کی تھی۔ لکی مروت میں ہونے والی واردات میں چھ افراد شہید ہوئے تھے۔ نامعلوم افراد نے جنوبی وزیرستان میں لڑکیوں کے اسکول پر حملہ کیا، اس حملہ میں ایک فرد جاں بحق ہوا۔ اسی طرح کا حملہ شانگلہ ضلع کے علاقہ نٹ والا میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی فیصل زیب خان کے دفتر پر بھی کیا گیا۔

طالبان کی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو کئی خوف ناک حقائق سامنے آتے ہیں، جب طالبان کی فوج نے کابل پر قبضہ کیا تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے طالبان کی حکومت کی وکالت کے فرائض سنبھال لیے تھے۔ سابقہ حکومت کے وزراء دنیا بھر کے ممالک پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا پرچار کرتے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان تو طالبان کی حکومت کی حمایت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس میں فرمایا تھا کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے اور اس کلچر میں جو عورت کی حیثیت ہے وہ ان کا حق ہے۔

کابل حکومت کی ایماء پر تحریک طالبان پاکستان کے نمایندوں سے مذاکرات ہوئے۔ طالبان نے قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں شامل کرنے کے فیصلہ کو منسوخ کرنے، قبائلی علاقوں کی پرانی شکل بحال کرنے، قبائلی علاقوں میں طالبان کی شریعت کے نفاذ اور آرمی پبلک اسکول کے طلبہ کی شہادت میں ملوث مجرموں کی رہائی کے مطالبات کیے تھے۔

خیبر پختون خوا کی حکومت میں ایک بڑا گروپ طالبان کے مطالبات تسلیم کرنے کے حق میں تھا مگر پبلک اسکول پشاور کے شہید طلبہ کے والدین سول سوسائٹی کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنے پر یہ ممکن نہ ہوسکا۔ عمران خان کے دور میں ہی سابقہ قبائلی علاقوں اور سوات میں طالبان کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ طالبان نے دوبارہ چوکیاں قائم کرنے اور بھتہ وصول کرنے کا آغاز کیا۔

خیبرپختون خوا کے ایک وزیر نے تو میڈیا کے سامنے انکشاف کیا کہ طالبان نے ان سے لاکھوں روپے مانگے ہیں، دوسری صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی بھجوائی ہے۔ مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ طالبان کی بھتہ کی پرچیاں ہر سیاسی رہنما کو ملتی ہیں۔ کچھ نے خاموشی سے طالبان کے مطالبات پورے کردیے تھے۔

شمالی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے قائد منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے طالبان کی آمد پر سخت احتجاج کیا۔ یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش ہوا، جہاں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر سخت احتجاج ہوا ۔

شمالی وزیرستان میں طالبان کی سرگرمیاں بڑھیں مگر تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا کی حکومت پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرتی رہی۔ جب سوات میں عوام نے نامعلوم مسلح افراد کی موجودگی پر اعتراض کیا اور ذرایع ابلاغ پر خبریں شایع ہونے لگیں تو پختون خوا حکومت کے ایک میڈیا مشیر نے طالبان قیادت سے اپیل کی کہ وہ مسلح افراد کو واپس بلائیں مگر واپس آنے والے ایک مسلح شخص نے ایک مقامی صحافی کو بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی معاہدہ ہونے کے بعد واپس آئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے وضاحت کی کہ مسلح افراد کو علاقہ سے بے دخل کردیا گیا ہے۔

سوات میں اسکول وین پر حملے کے بعد عوام کی احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ سوات کے شہروں میں ہزاروں افراد نے جن میں مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی شامل تھے اس احتجاج میں شرکت کی۔ ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ سوات کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پختون خوا کے دیگر شہروں میں عوام نے اسی طرح کے جلوس نکالے۔ جب کابل میں امریکی ڈرون کے حملے میں ایک مشہور جنگجو مارا گیا تو تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے امریکی ڈرون حملہ پر حکومت کو معتوب کیا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ مفروضہ گھڑا کہ امریکی ڈرون پاکستانی فضائی حدود سے گزر کر نشانہ پر پہنچا ہے۔

وزارت دفاع کی تردید کے باوجود تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرتے رہے۔ اب کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پر حملہ ہوا ہے۔ اس حملہ کا نشانہ پاکستانی مشن کے سربراہ عبدالرحمن نظامانی تھے۔

سینیٹر رضا ربانی مسلسل مطالبہ کررہے ہیں کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور چمن میں پاکستانی علاقہ میں فائرنگ کے واقعات پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ یہ لوگ دہشت گردوں سے ہمدردی کر کے آخر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ پختون خوا کی حکومت پاکستانی طالبان کی جنگ بندی ختم کرنے کے باوجود ان سے مذاکرات کا پرچار کررہی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی طالبان نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جنگ بندی اور مذاکرات کا ڈھونگ رچایا ہے۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ کابل کی حکومت جان بوجھ کر ان طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہے، اس کا مقصد پاکستان کو بلیک میل کرنا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد طالبان کی پالیسیاں واضح ہوگئی ہیں۔ طالبان کے امیر نے واضح کیا ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابری کے مواقع حاصل نہیں ہونگے۔ وہاں خواتین سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا ہے اور حکومت خواتین کی پبلک مقامات پر موجودگی کو پسند نہیں کرتی، یہی صورتحال غیر مسلم افغان شہریوں کی ہے۔

پاکستانی طالبان اپنے کابل کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے اور دہشت گردی کے ذریعہ اپنی خواہشات پوری کرنے کے خواہاں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی ریاست طالبان کے آگے ہتھیار ڈالے اور جبر کے نظام میں زندگی گزارنے کو قبول کرے یا ریاست قانون کی عملداری کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، اس بات کا فیصلہ کرنے کا مرحلہ اب آچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔