اور پھر رابطہ کٹ گیا…

جاوید قاضی  اتوار 11 دسمبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

خان صاحب نے مسلسل چھ ماہ جلسے کیے اور جلسے بھی روزانہ کی بنیاد پر، اگر کوئی نا غہ بھی کیا تو اس دن یا توآن لائن خطاب کیا یا کوئی متنازعہ انٹرویو دے دیا اور پھر سوشل میڈیا تو ان کے بائیں بازو کا کھیل تھا وہ فورم الگ۔

مگر اب نہ انٹرویو ہیں اور اگر اکا دکاہیں بھی تو نہ ہی تنقید سے بھرے ہیں اور نہ ہی ان میں اداروں کو متنازعہ بنانے والی کوئی بات ہے۔ اب جب حالات بدلے، تو پرویز الٰہی اور مونس ا لٰہی کے تیور بھی بدل گئے۔

شطرنج کی بساط میں ہمیشہ پیادے مارے جاتے ہیں، کوئی بادشاہ یا وزیر نہیں۔ احتساب ہمیشہ سیاست دانوں کا ہوتا ہے، تگڑوں کا نہیں۔ نیب کے دفتر صرف ہمارے لیے کھلے ہوتے ہیں کسی اور کے لیے نہیں، اگر کسی نے آرٹیکل چھ کا اطلاق کرنے کی کوشش بھی کی تو ہو ا کیا؟ سیاستدان جیسے بھی ہوں مگر ہیں وہ سیاستدان۔ اب احتساب کی باری ان کی ہے۔ آزاد آنکھ رکھنے والے ایک رائے پر ہیں۔

اقرباء پروری، توشہ خانہ اسکینڈل خان صاحب کے گلے میں پڑچکے ہیں۔صادق و امین کا تغمہ جو خاں صاحب نے ہمارے جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے پایا تھا وہ چکنا چور ہوا۔خان صاحب نے پہلے سیشن کورٹ کی خاتون جج کو دھمکایا اور پھر معافیاں مانگی۔

چیف الیکشن کمشنر کے لیے بھی بہت کچھ کہا لیکن کچھ ہو نہ سکا۔ زخمی ہونے کے بعد نہ ایف آئی آر کٹوائی ، نہ ہی طبی معائنہ سرکاری اسپتال سے کروایا؟ گولیاں بے نظیر پر چلیں تھیں اور خودکش حملہ بھی ہوا تھا مگر وہ ڈٹ کرکھڑی رہیں، پھر ماری گئی تھیں۔

یہی وجہ ہے، اس پارٹی کی جڑیں عوام سے جڑی ہیں اور اسی طرح سے میاں نواز شریف کی پارٹی بھی عوام سے ہے جو اسٹبلشمنٹ کا مہرہ بن کراستعمال نہیں ہوئے، وہ پارٹیاںاب زندہ نہیں جو کہ اسٹبلشمنٹ کا مہرہ بن کر استعمال ہوئیں ، جیسا کہ میر ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز، محمد خان جونیجو وغیرہ، مگر ان میں خاں صاحب کی شخصیت ذرا مختلف ہے اور بہرحال وہ پاپولر ہیں، ان کے چاہنے والے بہت ہیں اور یہ ان کے چاہنے والے خان صاحب کی ہر بات پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔

اب اس جماعت میں جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے بیانیے، طالبان دوست اور موقع پرست بھی موجود ہیں اس لیے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے قریب تھے اور اقتدار تو اسٹبلشمنٹ سے دوستی کی وجہ سے ہی ملتا ہے۔

بہر حال خان صاحب جلد انتخابات کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے ،نہ راولپنڈی کا محاصرہ کرکے، نہ اسلام آباد کا گھیرائو کرکے۔ ایک آخر ی پتا جو خطرناک ثابت ہوتا شہباز شریف کی حکومت کے لیے وہ تھا پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر نا، مگرپرویز ا لٰہی صاحب نے اس پتے کو بھی توڑ دیا۔

اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز ا لٰہی میں قربتیں بحال ہورہی ہیں، رہی بات خیبر پختونخوا حکومت کی تو وہ بھی وفاق سے ٹکر زیادہ عرصے تک برقرار رکھ نہیں پائے گی ، اب چونکہ اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ خان صاحب پر نہیں رہا تو لازمی ہے کہ پارٹی کے اندر جوڑ توڑ کاعمل شروع ہوا چاہتا ہے جو ہر پارٹی میں ہو تا ہے۔

ایسا عمل بے نظیر کی پارٹی میں بھی ہوا ، اور نواز شریف کی پارٹی میں بھی۔ مگر دونوں کی عمریں اس وقت چھو ٹی تھیں، وہ دوبارہ اننگ کھیل سکتے تھے۔ خان صاحب اب ستر سال کے ہورہے ہیں۔اب شاید سرکاری ہیلی کاپٹر میں سیر سپاٹے ممکن نہ ہوں، انھوں نے ساری حدیں پار کرکے جو ٹکرائو کی کیفیت پیدا کی، ریٹائر ہونے والے تو چلے گئے ، مگر ان کے لیے بھی ریٹائرمنٹ کا آخری کارڈ چھوڑ گئے۔

میں نہیں سمجھتا کہ اب خان صاحب جلسے کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ 2013 میں، جنرل پاشا کے زمانے سے کامیاب جلسے کروانے کی جو روایت برقرار تھی اب وہ گراف بہت تیزی سے گرے گا جب تک کہ کوئی مدد کو پہنچے ۔ ہائبرڈ ڈیموکریسی کے پروجیکٹ کی ناکامی کے بعد کم از کم جو واضح طور پر اب نظر آرہا ہے وہ یہ کہ نیم جمہوریت اس ملک میں اپنی جڑیں گاڑچکی ہے ۔ یہ وہ جمہوریت ہے جس کو ’’سول ملٹری تعلقات‘‘ کی اصلاح سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد اس ملک نے کبھی مکمل جمہوریت نہیں دیکھی، ہمیشہ نیم جمہوریت ہی رہی۔ کبھی اس پر آرٹیکل 58(2)(b) کی تلوار تھی، کبھی شب خون مارا گیا یا پھر ہائبرڈ جمہوریت نے اسے توڑا ۔ اس مسلسل مداخلت نے ملک کا جو شیرازہ بکھیر ڈالااور ہماری معیشت کو کمزور سے کمزور تر کردیا، وہ اس حد تک کہ یہ اب نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ بن چکا ہے۔

ہمارے ملک میں گماشتہ سوچ کی بھرمارہے۔ یہ بات بار بار میں کہتا آیا ہوں کہ یہ شرفاء پہلے انگریزوں کے سائے تلے پلے بڑھے، پھر آمریتوں کے زیرِ اثر رہے اور اب تمام سوچ خان صاحب نے اسٹبلشمنٹ سے لے کرپنے ہاتھ میں لے لی ہے، اس سوچ سے ہم آہنگ ہمارے بہت سے صحافی، اینکرز اور پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں جو اس بیانیہ کے زیر ِ اثر رہے کہ جمہوریت ملک کے لیے بہتر نہیں اور تمام سیاستدان کرپٹ ہیں،یہ پروپیگنڈہ عروج پرپہنچایا خان صاحب نے ۔

مختصرا یہ کہ آئینی ترمیم کرکے یہ لازم کیا جائے کہ جو بھی سینیئر ترین جرنیل ہوگا وہ ہی چیف آف آرمی اسٹاف بنے گا۔ ایسے مرحلوں میں اب تو ملک میں جمود طاری ہو جاتا ہے، جو چند ایک توقع رکھتے ہیں وہ تمام حدیں پار کرکے سیا سی کٹھ پتلیوں کو میدان میں اتار دیتے ہیں، مگراس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کیونکہ ہمارے سسٹم میں یہ جو موقع پرست بیٹھے ہیں وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے ،یہ ایک ایسا بیانیہ ہے، جس نے فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دی ۔

جب تک اعتراف نہیں ہوگا تب تک پاکستان کے آگے نکلنے کے راستے نہیں کھلیں گے۔اس ’’اعتراف‘‘ سے میری کیا مراد ہے؟ یہ ایک وسیع عمل سے، نہ صرف تاریخ کی سمت کو درست کرنے کا، بلکہ پورا بیانیہ بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ آگے جا کر جو جمہوری قوت بن کر اس سفر کا آغاز کررہے ہیں ،خود ان کے اندر کمزوریاں ہیں ۔ پارلیمنٹ میںبلآ خر وہی لوگ پہنچتے ہیں جن کے پاس کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑنے کی طاقت ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ سیاست میں تو آسکتے ہیں لیکن ممبر اسمبلی نہیں بن سکتے۔

ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیاں ہماری دہلیز پر ہیں ۔ پاکستان کے اس سیاسی بحران نے غریبوں کو غریب تر کردیا ہے اور امیر کو امیر تر کردیا ہے۔ یہ غربت و افلاس پاکستان کے سیاسی بحران کی پیداوار ہے۔ اس داخلی بحران میں اٖفغانستان کا بحران ،یا جو تاریخی پس منظر ہے کہ سرد جنگ کے زمانے کا ایک محاذ یہ بھی تھا کہ سویت یونین کو آگے بڑھنے سے روکا جائے ، جس سے امریکا نے پاکستان میں آمریتوں کو جمہوری عمل پر ترجیح دی۔ حادثے اچانک جنم نہیں لیتے، ہمارے اس بحرا ن کے کئی تاریخی پہلو بھی ہیں جس پر کبھی کسی اور کالم میں بحث کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔