انسانوں کے اندر کے بھیڑیے مرنہ سکے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 16 دسمبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

عظیم فرانسیسی ادیب Gustave Flaubert کا ناول “Madame Bovary” ایک عہد ساز تصنیف ہے جس کی ہیرو ئن Emma Boary غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کر نے کی جرات رکھتی ہے تاہم اس کی رومان بھری آرزوئیں روایت سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔

Emma کا المیہ یہ تھا کہ اسے اچھی زندگی گذارنے کی آرزو تھی مگر یہ خواہش سماج میں موجود اختیار کے سر چشموں کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی۔

اس ناول سے پہلے ادب میں محبت شہزادے اور شہزادی کے گرد گھومتی تھی۔ Emma اسے غریبوں کے گھروں تک لے آئی انسان جانوروں میں سب سے زیادہ مصائب اور دکھ کا عادی اور مصائب و دکھ سے دو چار رہنے والی مخلوق ہے لیکن یہ مصائب ، دکھ اور اذیت کو تب ہی سہتا ہے گر اس کے ساتھ کوئی معنی و مقصد جڑا ہوا ہو۔ انسان خود مصائب کی خواہش کرتا ہے حتیٰ کہ وہ خود ان کی تلاش کرتا ہے اگر ان مصائب کو سہنے میں کوئی مقصد پوشیدہ ہو۔

Emil Cioran کہتا ہے’’ میں روزانہ کی بنیادوں پر خود کو دریافت کر تا رہتا ہوں، بہت ہی عجیب لگتاہے جب کوئی شخص آکر مجھے کہتا ہے کہ ’’میں آپ کو پوری طرح جانتا ہوں ‘‘ ہسپانوی مصور Francisco Goya نے ایک تصویر بنائی تھی یہ ایک قبر کی تصویر ہے جس کے لیے اس نے سیا ہ رنگ استعمال کیا ہے۔

قبر کے غلاف کے نیچے سے ایک ہاتھ جس پر سوائے ہڈیوں کے اور کچھ باقی نہیں رہا، نکل کر ایک دھندلی تختی تک جا پہنچا ہے اور اس پر اپنی ایک انگلی سے ہسپانوی زبان کا لفظ ’’ نادا‘‘ رقم کررہا ہے جس کے معنی ہیں عدم ، لاشے۔ Goya نے انسانیت کو دو طبقوں میں تقسیم کررکھا تھا ایک وہ رحم و شفقت کے لائق ہوتاہے اور دوسرا وہ جو نفرت اور غیظ و غضب کا سزا وارہوتاہے اس کا ایمان تھا کہ کسی بھی انسان کا المیہ کسی دوسرے انسان کا لا یا ہوا ہوتا ہے۔

انگریزی کے مشہور ادیب Matthew Arnold نے انیسو یں صدی کے دوسرے نصف میں اپنے دور کے انتشار، تذبذب اور بے اطمینانی کو کرب کیساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا ۔

’’ ہم لوگ اس وقت دو دنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مر چکی ہے اور دوسری اس قدر بے سکت ہے کہ کسی طرح پیدا ہی نہیں ہو پاتی۔ ‘‘ یہ اب سے کم و بیش سو سال پہلے کی آواز ہے اس وقت زندگی کی نئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی قدروں اور اقداروں کا صرف ایک مبہم سا احساس شروع ہو اتھا اس وقت عوامی دنیا مجموعی طورپر قناعت اور اطمینان میں زندگی گذار رہی تھی جو محض بے حسی کی علامتیں ہیں ۔

امریکی ادیبJames Fenimore Cooper نے کہا ’’چھوٹے غم واویلا کرتے ہیں بڑے غم خاموش ہوتے ہیں ‘‘اسی لیے آج ملک بھر میں چاروں طرف خاموشی طاری ہے۔

آئیں !یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے غم بڑے غم کیوں ہیں؟ اس کے لیے پہلے ہمیں ہندوستان جانا پڑے گا ۔

ہندوستان میں بیٹھ کر ہم سا لہا سال تک خو شحالی، آزادی ، ترقی ، کا میابی اور سکون کے خواب دیکھتے رہے اور ان پر خوب مچلتے رہے اور پھر جب ہم نے اپنے لیے ایک الگ ملک کا خواب سچا کر دکھایا تو ہم اپنے باقی خوابوں کو سچا کرنے کے لیے نئے ملک میں بڑے اکڑے اکڑے داخل ہوئے ،اس یقین کے ساتھ کہ ہم ہی اس نئے ملک کے مالک ہونگے اور خو شحالی ، ترقی ، کامیابی ، آزادی وہاں بے تابی کے ساتھ ہمارا انتظار کررہی ہونگی ہمیں بس وہاں پہنچنا ہوگا کہ یہ ساری چیزیں یک دم ہم سے آکر لپٹ جائیں گی اور ہم سے اس طرح چمٹیں گی کہ پھر آخری دم تک ہم سے جدا نہ ہونگی لیکن نئے ملک میںکچھ ہی عرصے بعد ہمار ا سارا غرور ، ساری اکٹر، سارے خواب اس وقت خاک میں ملنا شروع ہوگئے جب خوشحالی ، ترقی ، کامیابی، آزادی، اختیار ، سکون ان کے حصوں میں آنا شروع ہوگئیں جو سارے سفر میں شریک ہی نہ تھے جو کسی قسم کی قربانیوں اور جدو جہد کا حصہ ہی نہ تھے اور ہمارے حصے میں غربت، ذلت، دھتکار ، گالیاں ، لعنت ملامت، بیماریاں، جہالت آنا شروع ہوگئیں ۔ شروع شروع میں تو ہم یہ سمجھے کہ شاید ہم غلطی سے کسی دشمن ملک میں آن پہنچے ہیں لیکن جب ہماری یہ سو چ بھی غلط ثابت ہوگئی تو پھر ہم ایک دوسرے سے نظریں ملانے تک کے قابل نہیں رہے ۔ ہمارے خواب ہمارے بھوت بن گئے جو ہمیں دن رات ڈارتے رہتے ہیں اب ہمارے خواب ، خواہشیں ہی ہماری سزا ہیں روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں۔

ہائنے نے یورپ کے کوڑھیوں کی حالت کا بڑا درد ناک نقشہ کھینچا ہے وہ لکھتا ہے’’ یورپ میں پانچ ،چھ صدی پہلے کوڑھ ایک منحوس مرض سمجھا جاتاتھا اور جو بد نصیب اس بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے انھیں انسانوں کی آبادی سے خارج کردیا جاتا تھا سماج ان کا بائیکاٹ کر دیتا تھا اور وہ آبادی سے دو ر جنگل میں کسی غار کے اندر پڑے رہتے تھے جب کبھی انھیں کھانے پینے کا سامان لینے کی ضرورت ہوتی تھی وہ سر سے پاؤں تک ایک غلاف میں لپٹے ہوئے نکلتے تھے ہاتھ میں ایک گھنٹی ہوتی تھی جسے بجاکر وہ اپنے آنے کا اعلان کرتے ہوئے گذرتے تھے تاکہ آدمی ان سے بچ کر ایک طرف ہوجائیں ۔

ان کوڑھیوں میں بعض اعلیٰ فنکار بھی ہوتے تھے جن کے شاہکاروں اور گیتوں کی ہر طرف دھوم مچی رہتی تھی لیکن خود فنکار جنگل کے کسی کونے میں پڑا رہتا تھا اور کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوتا تھا میںاب بھی خواب میں کبھی کبھی ان غریبوں کی حالت دیکھتا ہوں کہ گویا وہ سر سے پاؤں تک ایک چادر میں لپٹے ہوئے آبادی میں سے گذر رہے ہیں۔

نقاب میں سے ان کی آنکھیں بے کسی اور بے بسی کے انداز میں ادھر ادھر دیکھتی ہیں اور کسی کو اپنا غم خوار نہیں پاتیں پھراچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے مگران کی گھنٹی کی آواز دیر تک میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے‘‘

اب آپ ہی اپنے دل پرہاتھ رکھ کر بتادیجئے کہ ہماری حالت کیا یورپ کے ان کوڑھیوں سے مختلف ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمیں بھی کوڑھیوں کا درجہ دے دیا گیا ہم سب بھی سماج کے ایک کونے میں پڑے گل اور سٹر رہے ہیں اور ہم سے ملک کے طاقتور ، با اختیار، خوشحال ملنا تو دور کی بات کوئی دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا ۔

کیا آپ کو ہمارے گلے میں بند ھی گھنٹی کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے ہم اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم میں اور عہد و حشت کے لوگوں میں ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے طاقتور ، بااختیار اور امیرو کبیر کے اندر دردندے بیٹھے ہوئے ہیں وہ درندے جو اپنے چین و سکون ، آرام اور عیش و عشرت کی خاطر اپنے ہی جیسے انسانوں کو برباد اور ذلیل کر رہے ہیں، جیسا کہ عہدو حشت میں ہوتا تھا ۔

آج بھی وہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت اور جینے کا حق دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں ۔ علم اور تعلیمات انسان کو تبدیل نہیں کرسکیں ۔ورنہ انسان اپنی عیاشیوں ، اشیاؤں ، عہدوں اور مرتبوں کی خاطر درندے اور بھیڑئیے کیوں بنتے ۔ لگتا ہے ساری تہذیب و تمدن ، تعلیم ، علم ، سائنس ، فلسفہ بے فائدہ رہے غارت گئے۔

ان گنت انسانوں کی قربانیاں رائیگا ں چلی گئیں ۔ ورنہ طاقتور، حکمران ، بااختیار اور امیرو کبیر انسانوں کے اندر بیٹھے درندوں اور بھیڑیوں کو موت نہ آگئی ہوتی اور ان کی جگہ انسانیت ، شرافت،قناعت اور بزرگی نہ لے لی ہوتی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔