ایک نئی نویلی اطلاع

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 17 دسمبر 2022
barq@email.com

[email protected]

لگتا ہے خود کرینہ سیف کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ اس کے روزانہ ایک جیسے بیانات گو اب لوگ مزاحیہ آئٹم کے طورپر لینے لگے ہیںکیوں کہ امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف نے تو اس کا نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا ہے کہ روزانہ ایک ہی بیان کون پڑھے جس میں کرکٹ، خاندان سیف علی خان اور شرمیلی ٹیگوری کی تعریف کے سوا اورکچھ بھی نہ ہو۔

دراصل کترینہ کیف یعنی امپورٹڈ اداکارہ بڑی ہوشیار نکلی، اسے پتہ چل گیا کہ کرینہ سیف کے فضول بیانات کا سب سے بہتر جواب ’’خاموشی‘‘ کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتا۔پتہ نہیں اس نے فارسی کی یہ کہاوت کس سے سنی ہے کہ جواب جاہلاں باشد خموشی ، ویسے بھی کرینہ سیف کے بیانات آج کل اخبارات کے لیے بھی ’’ٹوکیو میں زلزلہ کے جھٹکے ‘‘ جیسے ہوگئے۔

گزشتہ زمانے میں جب اخبار کی کاپی چھپنے کے لیے تیار کی جاتی تھی اورکاپی جوڑنے والا ایڈیٹر سے کہتا کہ اتنی جگہ بچ رہی ہے تو ایڈیٹر کہتا، ٹوکیو میں زلزلہ کے جھٹکے لگا دو اورکسی پرانی کاپی سے زلزلہ کے جھٹکے نکال کر لگادیتا تھا۔

آج کل شاید یہ طریقہ کرینہ سیف کے بیانات کے ساتھ بھی ہوتاہے، صرف سرخی بدل دی جاتی ہے، باقی تو سب کچھ وہی ۔امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کی برائی اورکرکٹ خاندان کی تعریفیں ہی ہوتی ہیں یا یہ کہ سیف علی خان سونامی لانے والاہے اور امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کی ایسی کی تیسی۔

ایک واقعہ دم ہلارہاہے ، ایک اسکول کے استاد کو جب مسلسل ایک شاگرد کے گھر سے ’’ساگ‘‘ آنے لگا تو اس نے کھانا لانے والے بچے سے کہا کہ بیٹا اپنے باپ سے کہنا کہ یہ روزانہ تکلیف اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں، مجھے صر ف ساگ کاکھیت دکھا دے اور تھوڑا سا نمک بھجوا دے ،میں خود ہی نمک چھڑک کر ’’چر ‘‘ لیا کروں گا ۔

یہ احساس ہونے پر کرینہ سیف نے بھی ایک ہی کھیت میں ایک ہی ساگ چرنے کے بجائے تھوڑی سی تبدیلی کرلی جیسے اس کے ممدوح سیف علی خان نے اپنی اداکاری میں کرلی ہے کہ پہلے وہ مرد بن کر زنانہ اداکاری کرتا تھا اوراب زنانہ بن کر مردانہ اداکاری کر رہاہے اور’’واؤو ‘‘کی جگہ … ویاؤ کہتا ہے۔

چنانچہ اب اس نے پہلی بار ایک ایسی ’’اطلاع‘‘ دی ہے جس میں کچھ کچھ اطلاع بھی ہے،  اطلاع یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور پولیس دونوں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے ’’چوکس‘‘ ہوگئے ہیں اورپہلے کی طرح ’’چوکس‘‘ رہیں گے ۔

ہمارے لیے تو اس ایک اطلاع میں اور بھی بہت ساری اطلاعات ہیں ،ایک ظاہر و باہر اطلاع تو اس سے یہ ٹپک رہی ہے کہ دونوں صوبائی حکومت اور پولیس اب تک الگ الگ ہی امن وامان برقرار رکھ رہی تھیں لیکن اب دونوں ایک ساتھ یہ ’’کاروبار‘‘کریں گے۔

شاید اس طرح یہ پولیس ’’پکڑے گی‘‘ اورصوبائی حکومت ’’چھوڑے‘‘ گی اورامن وامان ویسے ہی برقرار نہ رہے گا جسے اب برقرارہے یا اس سے پہلے برقرار تھا اور یا اب برقرار رہے گا۔

ایک اور اطلاع اس اطلاع میں یہ ہے کہ دونوں ساجھے دار اب ایک ساتھ ’’چوکس‘‘ رہیں گے کیوں کہ اس سے پہلے جب ایک چوکس ہوتا تھا تو دوسرا،سہ کس، دوکس یا بے کس ہوجاتاتھا ،ویسے آپ سے کیا پردہ ہم ’’چوکس‘‘ کے لفظی معنی تو جانتے ہیں لیکن سیاسی، سرکاری اوراطلاعاتی معنی نہیں جانتے ، شاید دوہاتھوں اوردوپیروں کو باندھنے کا نام ’’چوکس‘‘ ہو اوریہ پکڑنے والے بھی ہوسکتے ہیں۔

چھوڑنے چھڑانے والے بھی اور جس کاکوئی والی وارث یاحامی و ناصر نہ ہو وہ ’’ملزم‘‘ بھی ہوسکتے ہیں ،ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ دونوں ساجھے دار الگ الگ نہیں بلکہ اکٹھے ’’چوکس‘‘ رہیں گے۔اب رہ گیا ’’امن و امان‘‘ تو وہ ہروقت قائم ہی رہتاہے کیوں کہ ہمارے ہاں کے لوگ مثبت سوچ رکھتے ہیں، اگر کسی گھر کے دس لوگوں میں سے نو مرجائیں اور ایک بچ جائے تو بھی کہتے ہیں ،شکر ہے اللہ نے خیر کی اور ایک تو بچ گیا۔

بلکہ خواتین تو اور بھی زیادہ مثبت سوچتی ہیں اگر کوئی ماتھے یا ٹھیک آنکھ کے اوپر ’’بھوں‘‘ میں گولی لگنے سے مرجائے تو بھی وہ یہی کہتی ہے شکر ہے، بہن آنکھ تو بچ گئی۔ شاید ان کے خیال میں اگر وہ ’’کانا‘‘ بن کر جنت میں جاتا تو حوروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

اب یہ دیکھیے نوشہرہ اوراس سے پہلے اوربھی کئی مقامات پر ایسے کئی واقعات ہوئے کہ کچھ لوگ تو بچ جاتے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ اب دونوں ساجھے دار پولیس اورصوبائی حکومت دونوں ’’چوکس‘‘ ہیں اور اگر سارے بھی مرجاتے ہیں تو گاڑی تو بچ جاتی ہے کیوں کہ امن وامان برقرار ہے ۔

خیر ہمیں اس سے کیا،ہمارے لیے تو یہ اطلاع بہت بڑی اطلاع ہے کہ کرینہ سیف نے اپنی خداداد اور حکومت داد صلاحیتوں سے کام لے کر اپنے بیانات میں کچھ نیا پن ڈال دیاہے، اب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کے خلاف بیانات سے ہمیں الٹیاں آنے لگی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔