پاک افغان سرحد پر کشیدگی، وجوہات اور حل

ضیا الرحمٰن ضیا  منگل 20 دسمبر 2022
افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاکستان کے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاکستان کے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

افغان طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عوام یہ سمجھنے لگے کہ شاید اب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آجائے گی۔ عوام یہ سمجھتے تھے کہ افغان طالبان پاکستان کے دوست ہیں اور پاکستانی طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس لیے یہ سمجھا جاتا تھا کہ شاید افغان طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو عوام کی مشکلات کم ہوجائیں گی اور افغان طالبان پاکستانی عوام اور حکومت کے ساتھ مل کر بہتری کےلیے کام کریں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات مثالی ہوجائیں گے اور پاکستان کی مغربی سرحد جو افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے وہ محفوظ ہوجائے گی، وہاں سے دہشتگردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔

مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جب افغان طالبان برسراقتدار آئے تو انہیں بہت سے مشکلات اور مسائل کا سامنا تھا۔ افغان طالبان برسراقتدار آئے تو افغانستان کے حالات نہایت دگرگوں تھے۔ افغانستان میں سیکیورٹی کے حالات نہایت ابتر تھے اور اسی طرح معاشی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی جس کی وجہ سے افغان طالبان دیگر کسی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دے سکے اور سب سے پہلے سیکیورٹی کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی اور افغانستان سے دہشت گردوں اور دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔

افغانستان صنعتی ملک بھی نہیں اور نہ ہی وہاں پر کوئی ایسی خاص پیداوار ہے جو افغانستانوں کی کمائی کا ذریعہ بن سکے، اس کےلیے ضروری تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت ہو لیکن دنیا کے کسی ملک نے بھی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک کسی ملک کے ساتھ کھل کر تجارت کرنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ابھی تک افغانستان کے معاشی حالات پر قابو نہیں پاسکے۔ انہوں نے اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ بھی کردیا لیکن شاید انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالا ہی نہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ تحریک طالبان پاکستان کئی حوالوں سے افغان طالبان کے دست و بازو بھی رہے اور امریکا کے خلاف جنگ میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے رہے، یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی اور وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

پاکستانی حکومت نے کئی بار افغان حکومت سے رابطہ بھی کیا کہ وہ ان نام نہاد طالبان کے خلاف کارروائی کرے، انہیں پاکستان کے حوالے کرے اور بارڈر پر ان کی آمدورفت کو روکنے کےلیے اپنی طرف سے اقدامات کرے۔ لیکن افغان طالبان نے کیونکہ دہشت گردوں کی فہرست میں انہیں شامل ہی نہیں کیا اس لیے انہوں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے اندر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات بھی ان ہی کی وجہ سے انتہائی خراب ہیں۔ اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر بھی افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ افغان فورسز وہاں سے بلا اشتعال فائرنگ کررہی ہیں، جس سے پاکستان کے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں اور کئی زخمی ہیں۔ پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔

افغان سیکیورٹی فورسز کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے روکے لیکن شاید وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس کی وجہ سے حملوں کا یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ پاکستانی حکومت نے افغان قیادت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انہوں نے (بقول پاکستانی وزرا کے) معذرت کی اور یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا لیکن ہر چند دن بعد وہی واقعہ پھر پیش آجاتا ہے۔ اب یا تو طالبان خود اس کو روکنا نہیں چاہ رہے یا اسے روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن جب انہوں نے ملک کے اندر سے دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرکے ان کی کمر توڑ ڈالی ہے تو پھر بارڈر پر کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو ان پر حاوی ہیں۔ پھر پہلی بات ہی درست ہوسکتی ہے کہ افغان طالبان پاکستان سے ناراضی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو گرانے میں امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ امریکا کو پاکستان سے راستہ فراہم کیا تھا جس کے ذریعے امریکا افغانستان تک پہنچا اور افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کردیا۔ اس وجہ سے افغان عوام بھی پاکستان سے ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ پاکستان میں آتے ہیں، یہاں کھاتے پیتے ہیں، رہتے ہیں اور اچھی خاصی کمائی بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود پاکستان سے ناراض بھی رہتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے اس کے بعد افغانستان کی بہت مدد بھی کی، بالخصوص طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے ان کےلیے اجلاس بھی بلائے، ان کے حق میں دنیا میں آواز بھی بلند کی، اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ اگر وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کرنے اور تعلقات قائم کرنے کےلیے تیار ہیں جس کا مرکزی کردار تھا تو پاکستان نے تو اس کے مقابلے میں کچھ کیا ہی نہیں۔ پھر پاکستان کے ساتھ ایسا سوتیلا پن کیوں روا رکھا جا رہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے اپنے بھی اس کے اپنے نہیں۔ اسے چاروں طرف سے مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی کوئی سرحد محفوظ نہیں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے جو پاکستان کا روایتی دشمن ہے، جہاں سے خیر کی کوئی توقع ہی نہیں لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو دونوں اسلامی ممالک ہیں افغانستان اور ایران، لیکن ان دونوں کی طرف سے بھی پاکستان کو کبھی کوئی خیر کی خبر نہیں ملی۔ افغانستان سے بھی ہمیشہ دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہے اور ایران کی طرف سے بھی دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ جسے ایران حکومت نے روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اب یہ پاکستانی حکومت کی ذمئ داری ہے کہ وہ ’’امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ کا نعرہ ترک کرکے سرحد پار سے کیے جانے والے تمام حملوں کا مؤثر جواب دے۔ اگر افغانستان کی طرف سے حملے ہورہے ہیں تو ان کا بھی موثر جواب دینا چاہیے بلکہ ان کے علاقے میں بھی جانا پڑے تو جاکر وہاں سے ان دہشت گردوں کو اکھاڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ افغان فورسز ہوں یا دہشت گرد، جو پاکستان پر حملہ کر رہے ہیں انہیں کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہیے۔

پاکستانی اور افغان حکام کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کسی طرح معاملہ افہام و تفہیم سے رفع دفع ہوجائے اور افغانستان طالبان کے دلوں میں اگر پاکستان کے بارے میں کوئی غبار ہے بھی تو اسے مل بیٹھ کر صاف کرلینا چاہیے تاکہ ان دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کسی قسم کی جنگ کی صورتحال پیدا نہ ہو، کیونکہ دونوں طرف مسلمان ہیں۔ اس لیے آپس میں جنگ سے احتراز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں آپس میں مل بیٹھ کر تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس کا کوئی حل نکالنا چاہیے اور سرحد سے دہشت گردی کی بلااشتعال کوششوں کو ناکام بنانے اور ان کا سلسلہ ختم کرنے کےلیے مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ اگر اس کے بعد بھی افغانستان کی طرف سے بلااشتعال دہشتگردی ہوتی ہے تو پھر اس کا موثر جواب دینے کےلیے پاکستان کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اور اس کا جواب بھی دینا چاہیے تاکہ کوئی اسے ہماری کمزوری نہ سمجھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔