لڑکی کے جہیز کا لازمی حصہ سانپ کا منکا

سید بابر علی  اتوار 6 اپريل 2014
 لڑکیوں کو جہیز میں کچھ دیں یا نہ دیں لیکن ’گیدڑ سنگھی‘ اور سانپ کا ’منکا‘ ضرور دیتے ہیں، ۔ فوٹو : فائل

لڑکیوں کو جہیز میں کچھ دیں یا نہ دیں لیکن ’گیدڑ سنگھی‘ اور سانپ کا ’منکا‘ ضرور دیتے ہیں، ۔ فوٹو : فائل

 کبھی آپ کا گزر کسی کچی بستی سے ہوا ہے؟ یقیناً آپ نے سیکڑوں کچی بستیاں دیکھی ہوں گی۔ اور آپ اپنے تخیل کی مدد سے اپنے ذہن میں وہاں کے مختلف مناظر تازہ بھی کرسکتے ہیں۔

آپ کے دماغ کی اسکرین پر اُبھرتی تصویروں میں جھونپڑیاں، ان کے باہر رکھی چارپائیاں، ذرا فاصلے پر بیٹھ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی ہوئی عورتیں، ننگے پاؤں اور بعض ننگے بدن بھی، پھٹے ہوئے اور گندے کپڑے پہنے کھیل کُود میں مگن بچے نظر آرہے ہوں گے۔ کہیں چائے پیتے اور حلقۂ یاراں میں سستے سگریٹ کا دھواں اڑاتے بوڑھوں کے ساتھ چند بے فکرے جوانوں کی اپنے ہم خیالوں سے سنگت کا عکس بھی نمایاں ہُوا ہو گا۔ اس کے ساتھ آپ بے ترتیب گلیوں، اونچے نیچے راستوں پر گندے پانی اور غلاظت کے ساتھ بے شمار مکھیاں، اور کتے، بلیاں بھی دیکھ رہے ہوں گے، جن کے آوارہ اور پالتو ہونے میں تمیز مشکل ہوتی ہے۔ آپ کا یہ تصور یقیناً درست ہے، لیکن اس میں ’سانپ‘ کو بھی شامل کر لیجیے کہ آج ہم سپیروں کی ایک بستی کی کہانی لے کر حاضر ہوئے ہیں۔

سپیروں یا جوگیوں کا کردار ہمیشہ ہی سے پُراسرار رہا ہے، ان جوگیوں کی روزی روٹی کا دارومدار ہی سانپوں کو پکڑنے اور گلی محلوں میں تماشا دکھانے پر ہوتا ہے۔ زہریلے سانپوں کے ساتھ شب و روز بسر کرنے والے یہ جوگی سانپ کے زہر کا تریاق کسی دوائی یا جڑی بوٹی سے نہیں بلکہ ’’سانپ کے منکے‘‘ سے کرتے ہیں۔ کچھ جوگی زہریلے سانپوں کا زہر نکالنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

عموماً کسی بھی سانپ کو قابو میں کرنے کے لیے بین استعمال کی جاتی ہے، جس کو بجانا بھی ایک فن سمجھا جاتا ہے، بین کی سْریلی آواز سے سانپ بے اختیار ہوکر جھومنے لگتا ہے اور سپیرا اس موقع کا فائدہ اْٹھا کر اْس کو پکڑ لیتا ہے۔ بعض سپیرے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھا کر روزی کماتے ہیں۔ خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والے یہ سپیرے ہماری ثقافت اور تہذیب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

’’عام بچوں کی طرح کھلونوں سے تعارف بہت بعد میں ہوا، کیوں کہ ہوش سنبھالا تو سب سے پہلے زہریلے سانپ دیکھے۔ ان کے ساتھ کھیلنا شروع کیا اور یہی میرے دوست بھی تھے۔ چار سال کی عمر میں ابا نے ’پوربی دھن‘ سکھانا شروع کردی تھی۔ تھر میں آنکھ کھولی تھی۔ وہاں کی ریت پر جُھلسا دینے والی گرمی میں سارا، سارا دن بین بجاتا پھرتا تھا۔ بچپن میں دو ہی شوق تھے، سانپ اور پوربی دھن۔ مجھ پر سانپوں کے پیچھے بھاگنے کا جنون اور پوربی دھن سیکھنے کی لگن سوار رہتی تھی۔ سات سال کی عمر میں مجھے جوگی کا اعزاز دے دیا گیا۔

یوں سمجھ لیں کہ چار سال کی عمر میں ’بین‘ کو ہاتھ میں لیا تھا اور اب تک یہ میرے ساتھ ہے۔ اسی بین کے ساتھ بچپن اور اپنی جوانی تھر کے ریگستان کی چلچلاتی دھوپ میں سانپوں کی تلاش میں بِتا دی۔ 2010 میں سیلاب آیا اور ہماری زندگی اجاڑ دی۔ بچے کھچے مال مویشیوں اور سامان کے ساتھ کراچی آگئے۔ برادری نے مجھے پنچایت کا سربراہ مقرر کردیا۔ اس شہر میں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہاں ایک خالی پلاٹ پر بیٹھ گئے۔ اس کا مالک اچھا آدمی ہے، وہ ہم سے کوئی پائی پیسہ نہیں لیتا اور اِس طرح اُس کی زمین کی چوکی داری بھی ہورہی ہے۔‘‘ یہ کہانی ہے سپر ہائی وے پر واقع سپیروں کی بستی کے سربراہ ستار کی۔ وہ 44 سال کے ہیں۔ کہتے ہیں سانپوں سے دوستی اُن کے بڑوں نے کی تھی اور انہیں بھی اسی کی تربیت دی۔ وہ پشتوں سے یہی کرتے آرہے ہیں اور اسی پیشے سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔

ہمارے پاس نہ پینے کے لیے صاف پانی ہے اور نہ رہنے کے لیے گھر۔

حکومت اگر ہمیں بنیادی سہولتیں فراہم کرے تو سانپوں کی دنیا کے باشندے بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔

’’ہمارے لیے سانپ بچوں کی طرح ہیں، بچے کو دودھ پلانے سے پہلے ہم سانپ کو دودھ پلاتے ہیں۔‘‘ ستار کا کہنا ہے کہ اگر کوئی لڑکا اس کام کو ترک کردے تو اسے برادری سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہماری نسل اسی پیشے سے وابستہ ہے۔ بچوں کی شادی بیاہ کی رسومات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ برادری سے باہر شادی نہیں کی جاتی۔

ہر سپیرا اپنی مذہبی رسومات کے مطابق بچوں کی شادی کرتا ہے۔ لڑکی کو جہیز میں ’گیڈر سنھگی‘،’سانپ کا منکا‘اور’ہتھ جوڑی‘ دی جاتی ہے۔‘‘ پاکستان میں موجود جوگیوں کی تعداد کا پوچھا تو ستار نے بتایا کہ پورے پاکستان میں جوگیوں کے پچاس ہزار گھرانے ہیں اور عمر کوٹ میں ’’جوگی کالونی‘‘ کے نام سے ایک دیہہ بھی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ جوگیوں کے لیے بلوچستان اور تھر سانپوں کی جنت ہے۔ بلوچستان میں ’’پدم پہاڑی‘‘ اور تھر کے ریگستان میں ’’کوبرا‘‘ سانپ کی بہتات ہے۔ سانپ خصوصاً کوبرا کا زہر نکالنے کے بارے انہوں نے بتایا کہ جوگیوں کی اکثریت سانپ کا زہر نکالنے کی مخالف ہے اور گلی محلوں میں گھوم پھر کر روزی کمانے والے جوگیوں کے پاس بھی زہریلے سانپ ہی ہوتے ہیں، لیکن وہ لوگوں کا ڈر دور کرنے کے لیے یہی کہتے ہیں کہ اِس سانپ کا زہر نکال دیا گیا ہے۔ ’’زہر نکالنے سے سانپ کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ ہم اپنی اولاد سے زیادہ عزیز سانپ کی طویل عمر کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ سپیرا ہندو ہو یا مسلمان وہ ہر چھے ماہ بعد غوث پاک کے نام کی نیاز دیتا ہے۔ نیاز میں سانپ کو دودھ پلایا اور بکرے کا گوشت کھلایا جاتا ہے۔ ایک بالغ کوبرا سانپ دن بھر میں ایک پاؤ دودھ اور تقریباً ایک پاؤ بکرے کا گوشت کھا جاتا ہے، لیکن عام دنوں میں اسے صرف دودھ ہی پلایا جاتا ہے۔‘‘

سانپ کے زہر کا تریاق کرنے کے لیے کسی مخصوص دوا یا جڑی بوٹی کے استعمال کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ستار کا کہنا تھا:’’ہم جوگی سانپ کا زہر ختم کرنے کے لیے کسی بوٹی کا استعمال نہیں کرتے، اگر کسی کو سانپ کاٹ لے تو ہم ’منکا‘ زخم پر رکھ دیتے ہیں جو سارا زہر چوس لیتا ہے۔‘‘

ہر سانپ تقریباً چار مہینے ریت اور مٹی میں رہتا ہے اور اِس کا زہر سر کے اوپر جمع ہوتا رہتا ہے جہاں ایک سخت گٹھلی سی بن جاتی ہے، جسے منکا کہتے ہیں۔ ایسے سانپ کو پکڑ کر مخصوص جڑی بوٹیوں سے بنا مشروب پلاتے ہیں، جسے پیتے ہی سانپ قے میں اپنا منکا باہر نکال دیتا ہے۔ سانپ کا یہ منکا ہر جوگی کی زندگی کی ضمانت ہے۔

سانپ کی پوجا سے متعلق ستار نے بتایاکہ صرف کالے سانپ کی پوجا کی جاتی ہے جو شنکر (ہندو دیوتا) کے گلے میں ہوتا ہے۔

بین کی آواز سے سانپ کے مدہوش ہونے کے بارے میں اُن کا کہنا ہے: ’’سپیرا بننے کے لیے ’’پوربی دھن‘‘ کو مکمل طور پر سیکھنا لازمی ہے، کیوں کہ خطرناک سے خطرناک سانپ بھی اس دھن کی آواز سُن کر بے خود ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو چار سال کی عمر میں ہی ’’پوربی دھن‘‘ سکھانا شروع کردیتے ہیں، بعض بچے دو، تین سال میں سیکھ جاتے ہیں تو بعض دس سال میں بھی نہیں سیکھ پاتے۔ جب تک کوئی یہ دھن نہ سیکھ لے، اُسے جوگی نہیں تسلیم کیا جاتا۔

بین بازار سے نہیں خریدتے بل کہ ہر سپیرا کڑوے کدو اور آک کی لکڑی سے اپنی بین خود بناتا ہے اور خود سے زیادہ بین کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

برادری میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ (میٹرک پاس) اور جُزوی نابینا 59 سالہ جوگی کا نام ’توگو‘ ہے۔ اُن سے بات ہوئی تو جوگیوں کی زندگی سے متعلق چند دل چسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ ’’ہم کسی بھی جھگڑے یا مسئلے کی صورت میں تھانہ، کچہری کے چکر میں نہیں پڑتے۔ گھریلو مسائل، شادی بیاہ اور دوسرے لڑائی جھگڑوں کا حل پنچایت کا سربراہ ہی نکالتا ہے۔ یہی سربراہ ہماری برادری کا کرتا دھرتا بھی ہوتا ہے۔ برادری کے سربراہ کا انتخاب سوجھ بوجھ اور ہوش یاری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس کا عمر سے تعلق نہیں ہوتا۔ ہر سربراہ کو گیروے رنگ کی پگڑی پہنائی جاتی ہے۔‘‘ توگو نے مزید بتایا ’’میں نے میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ اس کی وجہ میرے ابا تھے، جن کا کہنا تھا کہ ’پڑھنے کے بعد بھی تجھے جوگی ہی بننا ہے تو پھر وقت ضایع کیوں کرتا ہے۔‘ اس دن کے بعد سے کاغذ قلم کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلائی۔ ہمارے گاؤں (عمرکوٹ) میں بعض لوگوں نے اپنی اولاد کو بی اے تک تعلیم دلائی، لیکن وہ اتنا پڑھنے کے بعد بھی سانپ کو ہی بین پر نچا رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے کا کوئی دکھ نہیں ہوتا۔‘‘

گیدڑ سنگھی کا نام تو آپ نے بھی سنا ہو گا۔ اس سے منسوب باتیں آپ کے لیے بھی حیران کُن ہوں گی۔ توگو سے اس بابت پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئے: ’’یہ بات حقیقت ہے کہ جس کے پاس گیدڑ سنگھی ہوتی ہے، بھگوان کی کرپا سے اُس کا ہر کام بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہم لڑکیوں کو جہیز میں کچھ دیں یا نہ دیں، لیکن ’گیدڑ سنگھی‘ اور سانپ کا ’منکا‘ ضرور دیتے ہیں۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ گیدڑ سنگھی کو گیدڑ کے جسم سے نکالا جاتا ہے اور اس میں نر اور مادہ دونوں ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی توگو کی ایک اور بات ہمیں حیرت زدہ کر گئی۔ وہ یہ تھی کہ پورے پاکستان میں جوگیوں کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تنگ نہیں کیا جاتا۔ توگو کا کہنا تھا کہ انہیں اب تک ایسا جوگی نہیں ملا جس سے کسی پولیس والے نے پیسے لیے ہوں۔ ’’پولیس والے ہم جوگیوں کو بہت عزت دیتے ہیں اور کبھی تنگ نہیں کرتے، لیکن ہم اُن سے دور ہی رہتے ہیں۔‘‘

اس برادری کا کوئی فرد اگر سانپ سے ڈرے اور اسے ہاتھ میں نہ لے تو یہ اس سے تعلق ہی ختم کردیتے ہیں۔ سپیروں کے لیے سانپ ان کی اولاد کی طرح ہے اور اس سے نفرت کرنے والا انہیں ناپسند ہوتا ہے۔ یہاں عورتیں اور بچے بھی ان خطرناک سانپوں کو ہاتھ میں تھامے، گلے میں ڈالے دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ سب ان کے لیے معمولی بات ہے۔

گلی گلی گھوم پھر کر سانپ کا تماشا دکھانے اور لوگوں کو تفریح کا موقع فراہم کرنے والے یہ سپیرے غربت اور بدحالی کا شکار ہیں۔ تعلیم سے دوری اور بے ہنری کو یہ اپنے لیے مسئلہ نہیں سمجھتے اور اپنے پیشے سے وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ان کا یہی طرزِ فکر ان کی معاشی اور سماجی حالت سدھارنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کچی بستیوں کے مکینوں میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت کا شعور اجاگر کیا جائے اور حکومت اور دیگر ادارے ان کے بچوں کو مختلف ہنر سکھانے کا انتظام کریں تاکہ دیگر ذریعۂ روزگار اپنا کر یہ بھی اپنے کنبے کی کفالت کا سامان کرسکیں۔

سانپوں سے متعلق اساطیر اور چند حقائق
سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر اس خطّے میں نمایاں ہے۔ سانپوں سے جڑی اساطیر کی اثر انگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔

ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریعُ الاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں اپنے شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارو مدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔

ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔ اکثر ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بُو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔

سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔

زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سے جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

سانپ کے زہر کی اثرپذیری
مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہو جاتا ہے۔
کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

سانپوں سے بچنے کا طریقہ
ایک جوگی ذوالفقار نے بتایا کہ جس جگہ سانپ کی موجودگی کے امکانات ہوں، وہاں زمین پر اپنا پاؤں زور سے رکھتے ہوئے چلنا چاہیے، کیوں کہ سانپ معمولی ترین ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارتعاش محسوس کرکے ہی وہ اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس سانپ پکڑنے والے ایسی جگہوں پر بہت آہستگی سے اپنے قدم زمین پر رکھتے ہیں۔ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ایک ہی نسل کے سانپ کا زہر اور ڈسنے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔ اِس کا انحصار اُن کی خوراک اور ماحول پر ہوتا ہے۔

ریگستانی یا پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے سانپوں میں زہر کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ سانپوں کے بادشاہ کو بلیک کوبرا کہا جاتا ہے، جس کی عمر سو سال ہوجانے کے بعد وہ نہ صرف اپنا رنگ بلکہ حلیہ بھی تبدیل کرسکتا ہے اور یہ بہت مشہور بات ہے۔ توگو کا کہنا ہے کہ سانپوں کے جبڑوں کے قریب ان کے کان واقع ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ کسی کی موجودگی سے باخبر رہتا ہے۔ کافی عرصے پہلے کی بات ہے کہ سانپ کا زہر چوس کر جسم سے نکالا جاتا تھا، لیکن اب دور جدید کے معالجین اس طریقے کونہیں مانتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔