کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے ۔۔۔۔۔ !

مولانا سیّد شہنشاہ حسین نقوی  جمعـء 20 جنوری 2023
بچوں کے ساتھ بچہ بن کر رہنے ہی میں گویا لطفِ حیات ہے، اُن کے ساتھ کھیلیں، کُودیں، اُنہیں اعتماد دِیں ۔ فوٹو : فائل

بچوں کے ساتھ بچہ بن کر رہنے ہی میں گویا لطفِ حیات ہے، اُن کے ساتھ کھیلیں، کُودیں، اُنہیں اعتماد دِیں ۔ فوٹو : فائل

تمام تر حمد و ستائش ﷲ رحمن و رحیم کے لیے۔ تمام تر دُرود و سلام حضرات محمدؐ و آلِ محمد ﷺ پر۔ محترم و معزز قارئین کرام ! آج ہمارا موضوع قدرے منفرد اور دل خوش کُن ہے۔

پیارے نبی کریم شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، راحت العاشقین، مراد المشتاقین رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:

’’جس شخص کا چھوٹا بچہ ہے، وہ اُس کے ساتھ خود بھی بچہ بن کر رہے۔‘‘

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے، تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ معصوم بچوں میں ﷲ تعالیٰ کی رحمت و قدرت کی شان نظر آتی ہے۔

کرشمہ ٔخداوندی، عجائباتِ خداوندی اور اَسرار و رموزِ خدا وندی کا شاہ کار معصوم ننھے منّے پھولوں اور کلیوں کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی چھوٹے اور معصوم ساتھی، پیارے پیارے بچے فی الواقعہ ہماری زندگی کو صحیح معنوں میں زندگی بنا دیتے ہیں۔

خالی خولی زندگی میں بھرپور، پُرمسرّت زندگی کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ نبی مکرّم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے مذکورہ فرمانِ مُبارکہ کی وضاحت یا تشریح کرنے کی تو ضرورت نہیں، اِس لیے کہ بات بالکل سامنے کی اور واضح و آشکار ہے لیکن اِس حدیثِ مُبارکہ پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

بڑوں کا ادب و احترام اور بچوں پہ شفقت و مہربانی بالخصوص چھوٹے بچوں سے خصوصی لگاؤ، پیار و محبت یوں بھی کسی بھی مہذّب معاشرے میں، اِنسانی اَخلاقی اقدار میں سرِفہرست ہیں۔ چھوٹے بچے کے ساتھ خود بھی بچہ بن کر رہنے سے مراد یہی ہے کہ اُس کے ساتھ ہمارا برتاؤ، رویّہ، طرزِ عمل انتہائی رحمت و رافت اور حُسنِ سُلوک پہ مبنی ہونا چاہیے۔

ظاہر ہے اُس کا دل نرم ہوتا ہے۔ عاطفت اور نرم مزاجی ہر باپ کے لیے یقیناً ناگزیر ہے۔ ذرا سا کبھی سخت رویّہ ہو، تو فوراً ہونٹ ہلنے لگتے ہیں اور بچہ رونے لگتا ہے۔

جب کہ اِس کے برعکس اگر اُسے پیار بھری نظروں سے دیکھ کر محبت بھرا انداز اپنایا جائے، تھوڑا سا مسکرائیں، دِھیرے سے خوش مزاجی کا انداز اپناتے ہوئے اُسی کی طرح اُس سے کچھ بات کریں، تو بچہ عموماً اپنائیت بھرا رویّہ محسوس کرتا ہے اور ہمک کر گود میں آکر مسکرا کر دیکھنے لگتا ہے۔

دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ بچّہ بھی محبت اور خلوص کو پہچانتا ہے۔ بچّے کا ظاہر اور باطن بھی کیوں کہ ایک ہوتا ہے، وہ چوں کہ معصوم ہوتا ہے، لہٰذا کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بچپن کی یہی معصومیت اِنسان میں عمر کے آخری لمحات تک کسی حد تک رہنا ضروری ہے۔ یہ اِنسانیت ہی کی اِک ضیاء ہے، جس کی روشنی کبھی بھی ماند نہیں پڑنی چاہیے۔

بات ہورہی ہے چھوٹے معصوم بچے کی، تو بات کو اِس طرح آگے بڑھایا جائے کہ اگر چھوٹے بچے کو اُس کی ماں بھی کبھی غصیلی نظروں سے دیکھے، تو بچہ فوراً محسوس کرلیتا ہے اور پھر بعض اوقات ایسے میں ماں کے گود میں لینے کے باوجود اُس کے پاس بھی نہیں جاتا، لیکن اگر کوئی اور فرد، خواہ وہ اجنبی ہی کیوں نہ ہو، سراپا پیار و محبت بن کر بچے کو مسکرا کر دیکھے اور بچوں کے سے لہجے میں، بچوں کے سے انداز میں بولے، تو وہی بچہ جو کہنی مار کر ماں کے پاس جانے سے انکاری تھا، یک بارگی اُس کے پاس چلا جاتا ہے۔

بلکہ اُس سے مانوس ہونے لگتا ہے۔ بچوں کی فطرت میں کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے پیار و محبت کا جذبہ ودیعت کر رکھا ہے۔

لہٰذا بچوں کے اِسی نفسیاتی تقاضے کو مدّنظر رکھتے ہوئے سرکارِ دو عالم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ حدیثِ عالی شان اِرشاد فرمائی ہے، جس پر عمل کرنے میں حسبِ دستور ہم سب کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

کروڑوں دُرود، اَن گنت سلام پیارے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہر اِرشادِ گرامی پر… آپؐ  کی لسانِ صدق و صفا پہ ہم سب قربان۔ ہمیں چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ رہ کر اکثر و بیش تر محسوس ہوتا ہے کہ فی الوقعہ ایسا ہی ہے ، جیسے سرکار ﷺ نے فرمایا ہے۔

بچّوں کی نفسیات کے عِلم میں ایک بات یہ بھی بہت اہم ہے کہ وہ محبت اور نظراندازی دونوں رویّوں کو محسوس کرتے ہیں۔ اُن کے محسوسات یقیناً اچھے اور بُرے، مثبت اور منفی کی تمیز رکھتے ہیں۔ جدید ترین سائنسی تحقیق کے مطابق ماں کے شکم میں سب سے پہلے جنین کا جو عضو کام کرنا شروع کرتا ہے، وہ کان ہیں، قوّتِ سماعت۔ حد یہ ہے کہ اِنسان کے مرنے کے بعد بھی سُننے کی صلاحیت کئی گھنٹے تک قائم رہتی ہے۔

یہ بات بھی جدید ترین تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے۔ پس بچوں کے ساتھ بچہ بن کر رہنے ہی میں گویا لطفِ حیات ہے۔ اُن کے ساتھ کھیلیں، کُودیں، اُنہیں اعتماد دِیں۔ انہیں اپنے ساتھ مسجد لے کر جائیے، مصلّے پر ساتھ کھڑا کیجیے۔

یہ بچے مسجد و امام بارگاہ کی رونق ہیں۔ مجلسوں اور محافل میں لے کر جایا کریں۔ یہ نہ بھولیں کہ کوئی ہمیں بھی لے کر آتا تھا، بحمدﷲ! تب ہی ہم اب تک نماز اور دیگر عبادات کے لیے بہ صد شوق، والہانہ آرہے ہیں۔ اُن کی بہترین زندگی کے لیے آپ کی یہ محنت و مشقت نہایت ضروری ہے۔

یہ بھی زندگی کی ایک دِل چسپ اور خوش کُن صداقت ہے کہ جب ہم سارے دن کے بعد رات کو تھکے ماندے گھر آتے ہیں، تو معصوم بچوں کی قُلقاریاں، پیاری پیاری آوازیں، قہقہے، پیار بھرے انداز، محبت سے بھرپور رویّے ہمیں پھر سے تازہ دم کردیتے ہیں… جیسے ہم گویا نہا دھو کر ایک دم تازہ دم ہوجاتے ہیں، یا ہوائی جہاز یا جدید ٹرین کا سفر ہمیں مسرور کردیتا ہے، اِسی طرح چھوٹے معصوم بچّے بھی ہمیں گاڑی کی سروس کی مانند ایک دم چاک و چوبند کردیتے ہیں۔

بچوں سے بالخصوص ننھے مُنّے ساتھیوں سے جو وعدہ کریں، اُسے ضرور پورا کرنا چاہیے، کیوں کہ ایک اور حدیثِ نبویؐ کے مفہوم کے مطابق معصوم بچے والدین یا سرپرستوں کو اپنے کھانے پینے کا اہتمام کرنے والا اور انہیں ساری ضروریات فراہم کرنے والا خیال کرتے ہیں۔ رازقِ حقیقی اِس عمل سے یقیناً خوش ہوتا ہے، اس لیے کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔

بعض معصوم بچے جن کی وِلادت دن کو ہُوئی ہوتی ہے، وہ رات کو ماشاء ﷲ ایسے تر و تازہ نظر آتے ہیں، جیسے اُن کا دن اب شروع ہوا ہو۔ بچے یقیناً جنّت کے پُھول ہیں، ہم سب کو اِن جنّتی مہکتے پُھولوں کی صحیح معنوں میں عمدہ تعلیم و تربیت کا اہتمام اور اِن کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ نعمت خداوند کریم کی جانب سے خُوش نصیب ترین لوگوں کو عطا کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔