نون لیگ لندن سے الیکشن لڑے گی؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 20 جنوری 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جب سے نون لیگی صدر ، شہباز شریف، اتحادی حکومت کے وزیر اعظم بنے ہیں، سیاسی شکستیں اور پسپائیاں نون لیگ کا مقدر بن گئی ہیں۔

اِن ناکامیوں اور پہ در پہ شکستوں میں پوری پی ڈی ایم بھی شامل ہے۔ یعنی شہباز شریف کے ساتھ آصف علی زرداری اورمولانا فضل الرحمن بھی پچھلے9مہینوں سے عوام میں مسلسل نامقبول اور نامراد بن رہے ہیں۔ اِن ناکامیوں اور نامرادیوں کا زیادہ تر بوجھ نون لیگی صدر، شہباز شریف، کے کندھوں پر پڑ رہا ہے ۔

وسیع تر معنوں میں یہ مسلسل ناکامیاں در اصل نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی بھی شکستیں اور ندامتیں ہیں۔ اِن سب کے مقابل عمران خان کی مجموعی سیاسی پوزیشن ‘‘وِن وِن‘‘ کی صورت میں سبھی کو نظر آ رہی ہے۔

دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے عمران خان نے جو کہا اور چاہا تھا، پورا بھی کر دیا اور حاصل بھی کر لیا۔ پونے چار سالہ حکومت میں عمران خان کے فیصلوں اور اقدامات کے کارن پی ٹی آئی عوامی غیض و غضب کا ہدف بن چکی تھی ۔

اُس وقت ہر کسی کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا : ’’اگر آج الیکشن ہو جائیں تو وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی منہ کے بَل گر جائیں گے ۔‘‘ اللہ بھلا کرے ’’پی ڈی ایم‘‘ کا جس نے عمران خان کو عین موقع پر ریسکیو کیا اور حکومت سنبھال کر خان صاحب کی گرتی ساکھ بچا لی ۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہباز شریف اور ’’پی ڈی ایم‘‘ کے سبھی شرکا نے اقتدار کے لالچ میںاپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ۔

عمومی اور عوامی تاثر یہ ہے کہ نون لیگ نے اِن 9ماہی وفاقی اقتدار کے دوران اپنے مقدمات ختم کرائے ،اپنے منجمد اثاثے بحال کرائے، اسحق ڈار نے سینیٹ میں اپنی چار سالہ رُکی تنخواہیں وصول کیں، نیب کے دانت نکالے… مگر ان مفادات کے مقابل عوامی مقبولیت کھو ڈالی ہے۔ وزیر اعظم، شہباز شریف، کے اِس 9ماہی اقتدار کے دوران اتحادی حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔

اِس عرصے میں مہنگائی میں جو مزیدکمر توڑ اضافہ ہُوا ہے ( اور آیندہ بھی ہوگا) ، اِن اقدامات نے عوام کو نون لیگ سے دُور بھی کر دیا ہے اور بددل بھی ۔ 11جنوری کو جس طرح پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لیتے ہُوئے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے واضح کامیابی حاصل کی۔

اِس منظر نے نون لیگ کی تو کمر ہی توڑ دی۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ یعنی عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی نے رَل مل کر پنجاب میں نون لیگ کو شکست دی ہے تو اِس شکست نے پنجاب میں نون لیگی قیادت کی جملہ کمزوریوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔

11جنوری کی شب یوں لگ رہا تھا جیسے پنجاب میں نون لیگ کا وجود ہی نہیں ہے۔رانا ثناء اللہ ، ملک احمداور عطاء اللہ تارڑکی بھاگ دوڑ تو نظر آ رہی تھی لیکن اِس بھاگ دوڑمیں نہ شہباز شریف نظر آ رہے تھے اور نہ ہی حمزہ شہباز۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں 11جنوری کی شب نون لیگ ناک کے بَل گر گئی۔

اس شکست پر لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی غصہ ہُوئے اور محترمہ مریم نواز بھی۔ اب حمزہ شہباز کہہ رہے ہیں کہ 11جنوری کو رات کے اندھیرے میں پنجاب اسمبلی میں جھرلو نے کام دکھایا ۔ یہ بیان دیتے ہُوئے اگر وزیر اعظم کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف،حمزہ شہباز، کو9اپریل کی وہ آدھی رات یاد ہوتی جس نصف شب کو وزیر اعظم عمران خان کا اقتدار ختم کیا گیا تو شائد وہ شب گزیدہ سیاست کا شکوہ نہ کرتے۔

اب تو ہمارے ہاں شب گزیدہ سیاست اتنی عام ہو چکی ہے کہ 12جنوری کی رات ہی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو ارسال کی۔عجب اندھیر مچا ہے۔ پہلے غیر سیاسی قوتیں اقتدار پر شبخون مارا کرتی تھیں اور اب سیاسی قوتیں شبخون ماررہی ہیں۔

لندن میں براجمان نون لیگی قائد، نواز شریف، بھی پنجاب کی شکست پر بددل اور پریشان ہیں۔ اُنہیں توقع نہیںتھی کہ پرویز الٰہی ، عمران خان سے کیا گیا وعدہ اِس تیزی سے ایفا کر ڈالیں گے ۔ چوہدری صاحب مگر وفاداری میں بے حد تیز نکلے ۔

اُنہیں اِس وفاداری کی طرف برق رفتاری سے مائل کرنے میں اُن کے صاحبزادے، مونس الٰہی ، نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ دونوں باپ بیٹا نے عمران خان سے کیا گیا عہد اور وعدہ نبھایا ہے۔ اِس پر وہ بجا فخر کررہے ہیں ۔

ایسے پُر شور حالات میں لندن میں براجمان نواز شریف اور نون لیگی نائب صدر و چیف آرگنائزر، محترمہ مریم نواز، کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اب کریں تو کیا کریں؟ نواز شریف اور مریم نواز پنجاب کی نون لیگی قیادت پر ناراضی میں برس رہے ہیں ، رانا ثناء اللہ اپنی ناکامیوں کی رپورٹیں لے کر نواز شریف کے پاس لندن پہنچ گئے ہیں اور عطاء اللہ تارڑ الگ سے لندنی قیادت کو اپنی کارگزاریوں کی داستانیں سنا رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز کو پنجاب میں نون لیگ کی تازہ ناکامیوں پر بر ہم ہونا ہے تو اُنہیں خود پر برہم ہونا چاہیے یا شہباز شریف پر ناراضی جھاڑنی چاہیے یا حمزہ شہباز کی گوشمالی کرنی چاہیے جو اِن سنگین حالات میں بھی لندن سے ہلنے کا نام نہیں لے رہے۔

واقعہ یہ ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کو جو حالیہ شکستیں اور ندامتیں ملی ہیں، اِن کی وجوہ یہ ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز راحت اور سکون سے ( اور پاکستان کی سیاست سے لاپروا ہو کر) لندن میں بیٹھے ہیں ۔ یا تو آپ لندن میں آرام دِہ زندگی گزار لیں یا پھر سیاسی شکستیں قبول کر لیں ۔ دو دو اور چپڑیاں آپ کو نہیں مل سکتیں ۔

نواز شریف اور مریم نواز لندن بیٹھ کر آیت اللہ خمینی نہیں بن سکتے ۔ پاکستانی سیاست میں نون لیگ کو جو ناکامیاں مل رہی ہیں، اِن کا ذمے دار بھی لندنی قیادت کو ٹھہرانا پڑے گا۔ نواز شریف اور مریم نواز کا لندن میں آرام فرمائی کی زندگی کے پس منظر میں تو اب پاکستان میں یہ بھی طنزیہ کہا جانے لگا ہے کہ کیا نون لیگ اب انتخابات لندن سے لڑے گی ؟ حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان نے پنجاب میں بھی نون لیگی سیاست و قیادت کو کارنر کردیا ہے ۔

باقی تینوں صوبوں سے تو نون لیگ ویسے ہی فارغ ہو چکی ہے ۔ اور اِس ’’فراغت‘‘ کی اصل ذمے داری(1) نواز شریف اور مریم نواز پر اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وہ لندن میں آرام سے بیٹھے ہیں (2)جب بھی نون لیگ میں کوئی اہم عہدہ دینے کا وقت آتا ہے۔

قرعہ فال ہمیشہ شریف خاندان کے افراد کے لیے نکلتا ہے (3)نون لیگی سوشل میڈیا کی عدم موجودگی (4)عمران خان کے مقابل شہباز شریف کا کمزور کردار (5) میڈیا میں نون لیگ کا منمناتا لہجہ!! حوصلہ دینے کے لیے اب کہا جارہا ہے کہ مریم نواز صاحبہ 22جنوری کو واپس پاکستان آ رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔