پیسہ، لالچ اور دھوکا؛ انسانیت کہاں ہے؟

ڈاکٹر عبید علی  منگل 28 فروری 2023
کمپنی اور سائنسدانوں نے چار دہائی تک زہر کا قصہ عوام سے چھپا کر رکھا۔ (فوٹو: فائل)

کمپنی اور سائنسدانوں نے چار دہائی تک زہر کا قصہ عوام سے چھپا کر رکھا۔ (فوٹو: فائل)

ڈاکٹرز کیا، پوری دنیا جانتی تھی کہ کینسر لاعلاج، جان لیوا اور تکلیف دہ مرض ہے۔ وہ دوا ایجاد کرنے والے اور بنانے والوں سے اچھی طرح سے واقف تھے کہ دوا میں زہر کی آلودگی ہے۔ یہ آلودگی کینسر کی وجہ بن سکتی ہے۔ ہوا میں نمی دوا کے اس زہر کو بڑھاتی ہے۔ درجہ حرارت پاکر زہر کا بننا بے قابو ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ خوب آگاہ تھے کہ معدے میں تیزابیت ہے۔ گوشت اور سبزی میں لگائے گئے کیمیکل پیٹ میں دوا کے ساتھ ری ایکشن کرکے زہر بناتے ہیں۔ اس زہر کا مستقل رہنا کینسر پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔ چوہوں میں یہ بات اچھی طرح ثابت شدہ تھی۔ سائنسدان کینسر پر تحقیق کےلیے اسی زہر سے کینسر پیدا کیا کرتے تھے۔

80 کی دہائی میں یہ برطانیہ کی بڑی ابھرنے والی ادویہ ساز کمپنی گلیکسو ہے، جسے اس وقت گلیکسو یونیورسٹی کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ السر اور سینے کی جلن کےلیے استعمال ہونے والی ایک مشہور دوا ٹیگامیٹ (سیماٹیڈین) کی نقل کا خاکہ بنانے میں مشغول گلیکسو کے سائنسدان 1978 میں ایک نیا مالیکیول رینیٹیڈین تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نارتھ کیرولینا میں بڑی کمپنی بنائی جاتی ہے۔ امریکی ایف ڈی اے جائزہ لیتی ہے۔ سوال اور خدشات کا اظہار کرتی ہے۔ جہالت اور نظراندازی کو تسلیم کرتی ہے۔ دوا منظور ہوجاتی ہے۔ پھر کیا، دنیا بھر میں ہر لمحے یہ دوا کثرت سے استعمال ہونا شروع۔ سر کا خطاب ہو یا عالمی پرائز، سب ان کے نام ہے۔ تاریخ کے بڑے سے بڑے تمغے سجائے دولت کے انبار پر کھڑی کمپنی بھی سازش کرنے میں پیچھے نہیں تھی۔ اس گھناؤنی کہانی میں گلیکسو سے شروع ہونے والا جھوٹ یا مجرمانہ غفلت نے گلیکسو اسمتھ کلائن، فائزر، صنوفی، روش کو بھی اس جرم یا غفلت میں اپنا حصہ دار بنالیا۔ امریکی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ آگے آگے دیکھیے کیا کیا عیاں ہوتا ہے اور کیا کیا گرہیں کھلتی ہیں۔

موسم گرما اور 80 کی دہائی میں طلوع ہونے والی تحقیق، تیزابیت دور کرنے کی دوا زینٹیک کو بازار میں لانے کےلیے گلیکسو تگ و دو کررہی ہے۔ سب کچھ منصوبے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ شہرت کی بلندی اور کمپنی کےلیے ایک خوش قسمت دوا بازار میں اڑان بھرنے کےلیے پھڑپھڑا رہی تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر کے نسخے پر فروخت ہونے والی اس دوا نے وقت کی سب ادویہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کمپنی کی نصف کمائی صرف اس ایک دوا سے حاصل ہوتی رہی۔ دوا بازار میں راج کرتی رہی، دنیا کا کون سا گھر ایسا ہے جو اس دوا سے واقف نہیں۔ کمپنی اور سائنسدانوں نے چار دہائی تک زہر کا قصہ عوام سے چھپا کر اور دبا کر رکھا۔ مگر کیا ؎

خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ

موسم بہار اور چوتھی دہائی کا اختتام دوا کے متوقع مضر اثرات کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایف ڈی آئی نے 2020 میں اسے بازار میں استعمال کےلیے مکمل بند کردیا۔ ایف ڈی اے کہتی ہے کہ این ڈی ایم اے نامی کارسنجن کی معمولی مقدار نقصان دہ نہیں۔ لیکن دوا رینٹائڈائن میں NDMA کی ضرورت سے زیادہ مقدار ظاہر ہورہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس سے بھی زیادہ پیدا کرنے کی صلاحیت۔ بلاشبہ گلیکسو نے ایک ایسی دوا فروخت کی جو لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔ عدالتی دستاویزات بتاتے ہیں کہ اس کمپنی نے زہر کے ثبوت کو کم کرنے کی کوشش کی، مریض کو لاعلم رکھا گیا اور کبھی بھی کسی کو معمولی وارننگ بھی نہیں دی گئی۔

خیر یہ ایک لمبی داستان ہے، جو امریکی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لالچ نے زیر زمین کیا کیا گل کھلائے ہیں یہ ایک کے بعد ایک ابھر رہا ہے۔ ایک دہائی قبل 75 بلین ڈالر کے لگ بھگ کی کمپنی جی ایس کے 3 بلین ڈالر کا سمجھوتہ کرچکی۔ جرم کے بدلے جرمانہ دے چکی۔ یاد رکھنے اور افسردگی کی بات یہ ہے کہ علمی دھوکا دہی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ فکری سالمیت کےلیے بڑا خطرہ ہے۔ یاد رکھیں! فکری سالمیت پر ہی علم کا ارتقا قائم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی ایک معروف فارماسسٹ ہیں جو اس میدان میں 25 سال کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔