صدر ممنون حسین کا او آئی سی بزنس کانفرنس سے خطاب

حکومتوں نے کبھی اقتصادی معاملات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل نہیں دیں جسکی وجہ سے ملک معاشی طور پر مستحکم نہ ہوسکا


Editorial April 13, 2014
حکومتوں نے کبھی اقتصادی معاملات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل نہیں دیں جسکی وجہ سے ملک معاشی طور پر مستحکم نہ ہوسکا. فوٹو:پی آئی ڈی/فائل

صدر مملکت ممنون حسین نے او آئی سی کے زیر اہتمام دوسری بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک کو سرمایہ کاری کے لیے مکمل طور پر محفوظ بنانا چاہتے ہیں، پاک چین اکنامک کاریڈور خطے میں معاشی ترقی کا ایک نیا باب ثابت ہو گا، پاکستان او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی چاہتا ہے، حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسی سے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، حکومت کاروباری برادری کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔

معیشت کے فروغ کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ وقت کی اہم ضرورت ہے، پاکستان تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پاکستان کو اہم فیصلے کرنے ہیں، حکومت ورثے میں ملنے والے حالات کو بہتر بنانے اور مسائل حل کرنے کے لیے دن رات اقدامات کر رہی ہے، دہشتگردی اور بجلی بحران کا خاتمہ اور قیام امن حکومت کی اولین ترجیح ہے، غیرملکی سرمایہ کار اور تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پر اعتماد ہیں، جی ڈی پی 3 سے بڑھاکر6 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں، اسلامی ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے۔

صدر ممنون حسین نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ بالکل درست ہے لیکن یہ مسائل تب تک حل نہیں ہوں گے جب تک حکومت اپنی پالیسیوں کا رخ معاشی سمت نہیں موڑے گی۔ دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی ہے ان کی پالیسیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں اقتصادی ترجیحات اور مفادات کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دیں' سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تشکیل دی گئی پالیسیوں کا بنیادی مقصد بھی معاشی استحکام اور خوشحالی تھا۔ لیکن جب پاکستان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ پریشان کن امر سامنے آتا ہے کہ ہماری تمام داخلی اور خارجہ پالیسیاں اقتصادی مفادات کے بجائے سیاسی مفادات کے گرد گھومتی رہیں۔

حکومتوں نے کبھی اقتصادی معاملات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل نہیں دیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان معاشی طور پر استحکام حاصل نہیں کر سکا اور آج انھی مسائل میں گھرا چلا آ رہا ہے جن کی نشاندہی صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب میں کی ہے۔ آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ اقتصادی فوائد سمیٹنے کے لیے مختلف ممالک نے مشترکہ اقتصادی بلاک تشکیل دے رکھے ہیں حتیٰ کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک نے بھی جی ایٹ کے نام سے تنظیم بنا رکھی ہے۔ اسی طرح قدرے ترقی یافتہ ممالک نے بھی اقتصادی اور تجارتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے جی 20 کے نام سے تنظیم بنا رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کے اقتصادی معاملات کو طے کرنے میں جی ایٹ اور جی 20 موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔

ایک تجزیے کے مطابق مسلم ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے جب کہ ان ممالک کی اکثریت تیل اور دوسرے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر سائنسی شعبے میں مناسب ترقی نہ ہونے اور باہمی اقتصادی روابط کمزور ہونے کے باعث ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتا۔ مسلم ممالک نے باہمی رابطے کے لیے او آئی سی کے نام سے تنظیم تو بنا رکھی ہے مگر یہ تنظیم رکن ممالک کے درمیان اقتصادی اور معاشی خوشحالی کے لیے سرگرم کردار ادا نہیں کر رہی۔ بعض ماہرین کے مطابق او آئی سی' اقوام متحدہ کے بعد دوسرا بڑا پلیٹ فارم ہے اگر یہ باہمی طور پر بہتر اقتصادی پالیسیاں تشکیل دے تو یہ ایک بہت بڑی معاشی قوت بن کر ابھر سکتا ہے۔

مشرقی ایشیائی ممالک نے زیادہ سے زیادہ تجارتی تعلقات مضبوط بنانے کے لیے آسیان کے نام سے تنظیم بنا رکھی ہے، اسی طرح شنگھائی کے نام سے مختلف ممالک کی ایک بڑی تنظیم موجود ہے۔ چین اپنے اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے شنگھائی تنظیم سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح خلیج تعاون کونسل نے بھی اپنی پالیسیاں سیاسی مفادات کے بجائے تجارتی بنیادوں پر استوار کر رکھی ہیں۔ ان ممالک نے اپنے ہاں آزادانہ معاشی پالیسیوں کے نمو کے لیے کوئی ویزا سسٹم نہیں رکھا اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی ہنرمندوں اور سرمایہ کاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک انتہائی تیزی سے معاشی میدان میں ترقی کر رہے ہیں، دوسرا ان ممالک نے اپنے ہاں ذرایع نقل و حمل کو بہتر بنانے کے علاوہ امن و امان کی صورتحال کو مثالی بنایا ہے جس کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار کے لیے یہ ممالک جنت سے کم نہیں۔

اسی طرح لاطینی امریکا اور افریقی ممالک نے بھی تجارتی روابط مضبوط بنانے کے لیے علاقائی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی سارک ممالک کی تنظیم موجود ہے مگر علاقائی ممالک کے درمیان موجود مختلف مسائل اور اختلافات کے باعث یہ تنظیم موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔ ان ممالک میں موجود نسلی' مذہبی اور ثقافتی اختلافات باہمی مضبوط معاشی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان اپنی سیاسی پالیسیوں کے باعث اپنے ارد گرد موجود علاقائی اقتصادی تنظیموں سے بھرپور فوائد حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان اپنے کمزور معاشی میکنزم اور انفراسٹرکچر کے سبب ایشیائی ممالک چین' جاپان' کوریا' سنگاپور' ملائیشیا اور دیگر ممالک میں ہونے والی سائنسی اور اقتصادی میدان میں ترقی سے بھی بھرپور انداز میں مستفید نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں دہشت گردی' بجلی کے بحران اور بدامنی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہے۔

موجودہ حکومت ملک کو سرمایہ کاری کے فروغ کی خاطر پرکشش بنانے کے لیے توانائی بحران کے خاتمے اور قیام امن پر بھرپور توجہ تو دے رہی ہے لیکن ابھی تک اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ حکومتی پالیسیوں کو نتیجہ خیز ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے' ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان علاقائی ممالک کے لیے وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک بہترین تجارتی گزر گاہ ہے۔ پاکستان ان ممالک کو محفوظ تجارتی راہداری فراہم کر کے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے مگر بدامنی اور خراب صورت حال اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں تب تک ساز گار کاروباری ماحول پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیاں سیاسی مفادات کے بجائے تجارتی اور اقتصادی مفادات کے پیش نظر تشکیل نہیں دیتا۔ بہتر سرمایہ کار پالیسیاں ہی ملکی معیشت کی نمو کو تیز کر سکتی ہیں۔

مقبول خبریں