تصادم کا خطرہ

مزمل سہروردی  بدھ 22 مارچ 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

حکمران جماعت کے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوا ہے۔ حکمران اتحاد کے اس اعلیٰ سطح اجلاس کی غیر معمولی اہمیت بیان کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے فیصلے کیے گئے ہیں۔ اسی اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا گیا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ کچھ قانون سازی کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن سب قیاس آرائیاں ہیں،کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں ہے کہ حکمران اتحاد کیا کرنے جا رہا ہے لہٰذا اس پر سب اندازے ہی لگا رہے ہیں اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔

حکمران اتحاد کے اجلاس کے بعد عسکری قیادت کے ساتھ اجلاس کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں،ان اجلاسوں میں کیا فیصلے ہوئے یا مشاورت کی گئی‘ اس کے بارے میںکسی کو کچھ پتہ نہیں ہے‘ وقت کے ساتھ پردے اٹھتے جائیں گے۔

تحریک انصاف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے جیسے ان کی پارٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا پاکستان کے موجودہ حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

عمران خان اعلان کے باوجود تحریک لبیک پر پابندی نہیں لگا سکے تھے۔ اس لیے موجودہ اتحادی حکومت تحریک انصاف پر پابندی نہیں لگا سکتی، یہ ممکن ہی نہیں، یہ بات سیاسی بیانیہ تو ہو سکتی ہے، آپ جلسوں میں اور پریس کانفرنس میں تو کہہ سکتے ہیں لیکن عملاً ایسا کرنا ممکن نہیں، تحریک انصاف بھی شاید سیاسی بیانیہ ہی بنا رہی ہے کہ ہم پر پابندی لگ رہی ہے تا کہ لوگوں کو متحرک رکھا جا سکے۔

حکمران جماعت کے اعلامیہ میں عدلیہ کے فیصلوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ میری رائے میں عدلیہ کو حکمران جماعتوں کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے تدارک پر غور کرنا چاہیے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آج تو حکمران اتحاد کے اجلاس کے اعلامیہ میں عدلیہ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

اگرایسے ہی تحفظات کا اظہار پارلیمان کی کسی قرارداد میں ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ ججز کے کنڈکٹ پر بات ہو گئی تو کیا ہوگا؟ یہ کوئی اچھا نہیں ہوگا؟ پارلیمان اگر جارحانہ انداز اپناتی ہے تو عدلیہ کیسے جواب دے گی ؟ ایسے میں کیا ہوگا؟ یہ سوالات سب کے ذہن میں ہیں، ان کے جواب سب جاننے کی کوشش میں ہیں، ہر روز کا منظر نامہ بحران کو بڑھا رہا ہے۔

میرے نزدیک تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا کام ہے ، ایک دوسرے سے لڑ کر اپنا راستہ بنانا۔سیاسی جماعتیں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود کہیں نہ کہیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے پی ڈی ایم بنی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت بھی اتحادیوں کے دم قدم سے قائم رہی‘اس لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی زیادہ خطرناک نہیں ہوتی لیکن اداروں کے درمیان اختیارات اوردائرہ کار کو لے کر لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ گزشتہ ماہ بھی چیف جسٹس کے ایک ریمارکس پر سینیٹ میں تقریریں ہوئیں جس کی بعد میں وضاحت بھی آئی، لیکن کیا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اب دوبارہ پھر تقاریر ہوںگی؟

سوشل میڈیا پر محمد خان بھٹی کی ایک مبینہ وڈیو کی بھی بہت دھوم ہے۔ میں اس وڈیو کے درست ہونے کا یقین نہیں کرتا لیکن وڈیو سچی ہے یا جھوٹی ہے یا دباؤ کے تحت ریکارڈ ہوئی ہے‘اس پر حکمران اتحادی جماعتیں تو بولیں گی اورپوائنٹ اسکور کریں گی۔

اس مبینہ وڈیو نے سیاسی صورتحال کو مزید خطرناک کر دیا ہے،حکمران اتحادکہے گا کہ اس سے بنچ فکسنگ کے دعوے کو تقویت ملی ہے۔ اس لیے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ صورتحال کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یکساں انصاف کے سنہری اصول کو سختی سے کاربند کرنے کی ضرورت ہے ورنہ صورتحال خراب ہوگی۔

تحریک انصاف نے بیرون ملک جو مظاہرے کیے ہیں، انھوں نے بھی ملک میں حالات کو خراب کیا ہے۔ ان مظاہروں میں لگنے والے نعروں نے پاکستان میں پہلے سے کشیدہ سیاسی صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔

سیاسی ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو ایسی سرگرمیوں سے خود کو الگ کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر پاکستان کا آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا‘اس لیے وہ بیرون ملک پاکستان اور اس کے اداروں کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے میں آزاد ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست زدہ یہ اوور سیز پاکستانی پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں‘یہاں اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں لیکن ان کے حقیقی مفادات بیرون ملک ہی ہوتے ہیں۔

اسی لیے میں ان کے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کے خلاف ہوں، میں ان کو ووٹ کا حق دینے کے خلاف ہوں، جب ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں تو ان کی سیاست قانون کے دائرے سے باہر چلی جاتی ہے، وہ سیاست بھی قانون سے باہر کرتے ہیں،اس لیے اس کا ملک اور قومی سیاست کو نقصان ہے۔

اب بھی ملک کی سیاسی صورتحال کو بیرون ملک ہونے والے مظاہروں نے خراب کیا ہے۔ ایک رائے بن رہی کہ عمران خان اور تحریک انصاف جو بات پاکستان میں نہیں کر سکتے وہ وہ بیرون ملک اپنے مظاہروںمیں کروا رہے ہیں۔ انھوں نے وہاں سے ایک محاذ کھولا ہے۔ اس لیے اداروں میں تصادم کا منظر نامہ بن رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اداروں کے درمیان لڑائی ہوگئی تو سب کا نقصان ہے۔

اس لیے کہیں نہ کہیں ریڈ لائن ہے، جس کو قائم رکھنا ضروری ہے، میری سمجھ میں وہ ریڈ لائن ٹوٹ رہی ہے جو نظام کے لیے خطرناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔