زلمے خلیل زاد کے بیانات

مزمل سہروردی  جمعرات 23 مارچ 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل کئی امریکیوں کے دل میں تحریک انصاف کے لیے محبت نظر آرہی ہے۔ زلمے خلیل زاد اور دیگر امریکیوں کے بیانات نے پاکستان میں بہت اہمیت حاصل کی ہے۔

زلمے خلیل زاد نے دوبارہ بیان بھی دیا ہے۔ ان کے بیانات میں تحریک انصاف کی کھلی حمایت نظر آرہی ہے۔ وہ تحریک انصاف کی حمایت میں حکومت پاکستان کو ہدایات دے رہے ہیں۔ ایک امریکی کانگریس رکن ڈاکٹر آصف کا بیان بھی آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند بیانات آئے ہیں۔

عمران خان نے چند ماہ قبل ہی امریکا سے دوبارہ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے سائفر بیانیہ سے دوری اختیار کرنے کی بھی کوشش کی۔ انھوں نے خود بھی امریکی عہدیداروں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی امریکا میں تنظیم نے امریکا میں ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں جس کا مقصد تحریک انصاف کے لیے امریکا میں لابنگ کرنا تھا۔

عمران خان کی بہن علیمہ خان کی بھی امریکی عہدیداروں سے ملاقاتوں کی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔ اس لیے سائفر اور امریکا مخالف بیانیہ کے بعد غلطی کا احساس کرتے ہوئے امریکا سے دوبارہ اچھے تعلقات کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر کام کیا ہے۔ جس کے کچھ نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر تحریک انصاف کے حق میں امریکا سے آوازیں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ جب عمران خان خود وزیر اعظم تھے تو وہ اپوزیشن جماعتوں کے ایسے رابطوں کے سخت خلاف تھے۔ وہ برملا کہتے تھے کہ پاکستان میں موجود غیر ممالک کے سفیروں کو صرف حکومت سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ان کا کیا کام کہ وہ اپوزیشن کے رہنماؤں اور پارلیمان کے نمایندوں سے ملاقاتیں کریں۔ وہ ایسی ملاقاتوں کو پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت قرار دیتے تھے۔

ان کے مطابق پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں بیرونی دنیا کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ امریکی سفارتخانہ میں سیاسی ملاقاتوں کے بھی سخت خلاف تھے۔ لیکن جس طرح عمران خان اپنے باقی فرمودات سے یوٹرن لے لیتے ہیں۔ ویسے ہی انھوں نے اپنے اس موقف سے بھی یوٹرن لے لیا ہے۔

آج پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں امریکی مداخلت پر وہ خوشی کے جشن منا رہے ہیں۔ کیونکہ آج یہ مداخلت ان کے حق میں ہے۔ آج اس مداخلت کو بطور تمغہ جمہوریت پیش کیا جا رہا ہے۔ جب کہ کل یہ جمہوریت دشمنی تھی۔

آج اس پر سکھ کا سانس لیا جا رہا ہے۔ کل اس پر دکھ کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ تحرک انصاف کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے اسلام آباد میں یورپی سفارتکاروں کے ساتھ ناشتہ کیا ہے۔ کل تک تحریک انصاف کو اپنی اپوزیشن کی ایسی ملاقاتوں اور ناشتوں پر اعتراض تھا۔ آج وہ خود کر رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اس ناشتہ کا اہتمام آسٹریلیا کے سفیر نے کیا تھا۔ جہاں دیگر ممالک کے سفیر بھی موجود تھے۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے اس ناشتہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ اس کو اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار نہیں دیا ہے۔ غیر ملکی سفیروں کو ملاقاتوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ جیسے پاکستانی سفیروں کو دیگر ممالک میں ملاقاتوں کی اجازت ہونی چاہیے۔

عمران خان کا تب اعتراض غلط تھا۔ وہ سفارتی آداب کے خلاف تھا۔ سفیر صحافیوں سے بھی ملتے ہیں اور سب سے ملتے ہیں۔ یہی ان کی سفارتکاری ہے۔ اگر پاکستا ن میں سفیروں کی نقل و حرکت بند کریں گے وہ اپنے ممالک میں ہمارے سفیروں کی نقل و حرکت بند کر دیں گے۔

بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے امریکا میں اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے  ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس لیے انھیں یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کے بعد انھیں کیا مل رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس وقت امریکا میں ایک بے روزگار سیاستدان ہیں۔ جن کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے۔ جو لوگ امریکا کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ تو اس بات کو آسانی سے سمجھتے ہونگے ۔

امریکا میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے جب کہ زلمے خلیل زاد ری پبلکن ہیں۔ اس لیے ان کی حیثیت امریکا میں وہی ہے جو پاکستان میں عمران خان کی ہے۔ عمران خان بھی پاکستان میں حکومت سے باہر ہیں۔ زلمے خلیل زاد اور ان کی جماعت بھی اس وقت امریکا میں حکومت سے باہر ہے۔

اس لیے وہاں جو سیاستدان حکومت کا حصہ نہیں ہوتے اور وہ کانگریس اور سینیٹ کے رکن بھی نہیں ہوتے تو وہ بے روزگار سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سیاسی کام نہیں ہوتا۔ وہ سیاسی نوکریوں کی تلاش میں ہی ہوتے ہیں۔ امریکا میں لابنگ فرم سے پیسے لینے کی اجازت ہے۔ لابنگ فرمیں حمایت کے لیے فنڈنگ بھی کرتی ہیں۔اور اس فنڈنگ کو امریکا میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔

اس لیے اگر زلمے خلیل زاد سے ان بیانات کے لیے عمران خان کی لابنگ فرم نے کوئی مالی معاہدہ بھی کیا ہوگا تو امریکا میں اس کی اجازت ہے یہ وہاں کوئی غیر قانونی کام نہیں۔ امریکا میں دنیا بھر کے ممالک بھی امریکا میں اپنی حمایت بڑھانے کے لیے لابنگ فرم کی ہی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر لابنگ فرم کے ذریعے ہی لین دین ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ زلمے خلیل زاد ایسے ہی یہ بیانات دے رہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد ایک جانا پہچانا نام ہے۔ ابھی ان کی امریکا میں کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بھی طے نہیں کہ اگر کل ری پبلکن کی حکومت آتی بھی ہے توان کا کوئی کردار ہو گا بھی کہ نہیں۔ کیونکہ افغانستان کی جو ڈیل زلمے خیل زاد نے کروائی اس کو امریکا میں کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔

امریکی فوجوں کا جیسے انخلاء ہوا ہے اسے امریکا میں کسی نے بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے۔ اسی لیے اب امریکا افغانستان کی طالبان حکومت سے ڈیل کرنے کے لیے زلمے خلیل زاد کو استعمال نہیں کر رہا۔ انھیں مکمل سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد امریکی مفادا ت کا ویسے تحفظ نہیں کر سکے جیسی ان سے توقع تھی۔

اس لیے طالبان کے فوری کنٹرول لینے اور امریکی فوجوں کے بے ہنگم انخلاء نے زلمے خلیل زاد کو امریکا میں مکمل بے روزگار کر دیا ہے۔ اب افغانستان کے بارے میں بھی امریکا میں کوئی ان سے بات کرنے مشورہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب امریکی نظام میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ ان کو نکال دیا گیا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کا اشرف غنی اور صالح گروپ بھی انھیں غدار سمجھتا ہے۔

اور طالبان بھی انھیں دوست نہیں سمجھتے۔ اس لیے ان کے پاس افغانستان میں کوئی کردار نہیں جسے وہ امریکا میں کیش کروا سکیں۔ انھوں نے افغان نژاد ہونے کا جتنا فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا۔

اب اس کی مزید کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے پاکستان میں زلمے خلییل زاد کے بیانات کو زیادہ سنجیدہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ایک بے روزگار سیاستدان کا بیان ہی سمجھا جائے۔ جس کا مستقبل میں بھی کسی اہم رول میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔

لابنگ فرم کا کمال تو تب بنتا تھا کہ امریکی موجودہ عہدیدار ایسے بیانات دیتے۔ وہ ڈیوڈ لو اور تحریک انصاف کی صلح کروا دیتے اور ڈیوڈ لو تحریک انصاف کے حق میں بیان دے دیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔