ملک فوڈ کی درآمدات اور زراعت

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 25 مارچ 2023

ترقی پذیر غریب پسماندہ ممالک کی معاشی ترقی کا دار و مدار کئی باتوں پر ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کے معاشی عوامل میں سے ایک افرادی قوت کو بھی اہمیت دی جاتی ہے ، اگر افرادی قوت میں ہم اس بات کو مدنظر رکھ لیتے کہ کس خاص قسم کی افرادی قوت کے ہم حامل تھے اس کے علاوہ قدرتی ذرایع انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قدرتی ذرایع میں زمین، پہاڑ، دریا، جنگلات، معدنیات وغیرہ کی انتہائی اہمیت ہے۔

پہاڑوں سے بھرپور استفادہ کرنا، معدنیات نکالنا، جنگلات کے رقبے کا پھیلانا اور زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے جدید تکنیک، مشینریاں اور دیگر باتوں کی زیادہ ذمے داری حکومتی ترجیح اس کی طرف سے زرعی معاشی منصوبہ بندی پر منحصر ہے، لیکن گزشتہ 75 سالوں میں زراعت کو بطور ہتھیار برائے معاشی ترقی کے حصول میں حکومتوں کی طرف سے عدم توجہی کی بنا پر گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان اب زرعی اور خوراک کی درآمدات کا اہم ملک بن چکا ہے۔

جب کہ ہمارے پاس زرخیز زمینوں کی کمی نہیں تھی لیکن اب مختلف بڑے چھوٹے اداروں، بہت سے بڑی چھوٹی غیر آباد سوسائٹیوں نے زرعی اور بھرپور پیداواری زمینوں کو غیر موثر بنا کر رکھ دیا ہے جس سے ملکی خوراک اور وہ زرعی پیداوار جس سے صنعتیں رواں دواں ہوتی ہیں ، ان سے فوائد کے حصول کے مواقع کو گھٹا کر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا پاکستان اب کھربوں روپے کی صرف فوڈ گروپ کی درآمدات پر مجبور ہے۔

ایسے موقع پر جب کہ ملک میں ڈالر کی قلت ہے ہزاروں کنٹینرز بندرگاہوں پر ریلیز کے انتظار میں پڑے ہیں اور دیگر عوامل نے مل کر اب خوراک کی درآمدات کی قیمت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ صرف زرعی پیداوار ہی نہیں ہم دودھ، گوشت کی پیداوار میں دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جس کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے تھے؟ہماری غیر مناسب معاشی منصوبہ بندی نے اس میدان میں پیچھے دھکیل دیا ہے کہ پاکستان کئی عشروں سے ملک کریم، بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا اور دیگر اس قسم کی اشیا کا اہم درآمدی ملک بن چکا ہے۔

تازہ ترین پی بی ایس رپورٹ شایع ہوئی ہے جس کے مطابق جولائی تا فروری 2023 تک ان 8 ماہ میں پاکستان نے 32 ہزار 689 میٹرک ٹن ملک کریم، ملک فوڈ اور دودھ سے بنی بچوں کی غذائی اشیا درآمد کرتے ہوئے 24 ارب 69 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔

اگر اس کا موازنہ گزشتہ مال کے اسی مدت سے کیا جائے تو تقریباً اتنی ہی قریبی مقدار یعنی 32 ہزار 159 میٹرک ٹن کی درآمد پر صرف 18 ارب 50 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ یعنی بحیثیت مقدار صرف1.65 اضافہ ہوا اور بلحاظ مالیت 33.21 فیصد اضافہ ہوا۔ اب بھلا بتائیے وہ غریب مزدور کسان ہاری محنت کش، ملازم پیشہ افراد جو کسی مجبوری کے تحت یا پھر ڈاکٹرز کے نسخے یا ان کے مشورے کے تحت بچوں کے لیے درآمدی دودھ یا دودھ سے بنی غذائی اشیا خریدتے ہیں اب ان کے لیے یہ خریداری کتنی زیادہ مہنگی ہوکر رہ گئی ہے۔

صرف ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا، اس کی وجہ یہ ہے کہ دودھ اور اس سے تیار ہونے والی غذائی صنعت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اگر کہیں کوئی قابل قدر پاکستانی مصنوعات تیار ہوتی ہے تو چونکہ اس پر غیر ملکی ہونے کا لیبل نہیں ہوتا لہٰذا کئی پاکستانی ڈاکٹروں کی نظر میں اس کی اہمیت بھی نہیں ہوتی اور وہ تجویز بھی نہیں کرتے ایسے میں پاکستانی صنعت کو ناکامی سے دوچار ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔

اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرح کی کئی درآمدات ہیں جن کا متبادل پاکستان میں تیار ہو سکتا ہے۔ اب اس طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، بعض عالمی معاشی صورت حال اور عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے بارے میں منفی رپورٹ دینے والے ملکوں کی رپورٹوں اور دیگر عوامل کے باعث بیرونی سرمایہ کاری کا حجم محض کروڑوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

ایسے میں صرف ملک کریم فوڈ گروپ کی مصنوعات کی تیاری کے لیے پاکستانی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک تخمینے کے مطابق صرف اس ایک مد کے تحت سالانہ تقریباً 40 سے 42 ارب روپے کے اخراجات برائے درآمدات کی توقع کی جارہی ہے۔پاکستان کے مالی مسائل جوکہ مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ایک طرف درآمدی بل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت ان 8 ماہ کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف فوڈ گروپ کی درآمدات کا بل 15 کھرب 35 ارب 38 کروڑ50 لاکھ روپے تک جا پہنچا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ سالانہ 25 سے 26 کھرب تک پہنچنے والا ہے۔ لہٰذا اب درآمدات کا متبادل جلدازجلد اختیار کیا جائے اور اس میں فوڈ گروپ کی درآمدات کو کم سے کم کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔

کیونکہ اس میں زرعی زمین، پھر یہاں کے محنتی تجربہ کار کسان اور پشت در پشت گائے بھینس بکریاں پالنے والے افراد کا جدی پشتی تجربہ اور مہارت یہ سب باتیں شامل حال ہیں۔ اور پھر ان کی پیداوار کا بہترین اور ملکی ضرورت کے تحت استعمال کی پیش بندی کرنا بھی ضروری ہے۔ کہیں اسمگلنگ ہو رہی ہے، کہیں ذخیرہ اندوزی کہیں ہزاروں بوریاں خراب ہو رہی ہیں یا پھر غائب ہو رہی ہیں ان سب باتوں کی موجودگی میں نہ ہی مہنگائی کنٹرول ہوگی اور مصنوعی قلت پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ملکی معاشی ترقی کے لیے پاکستان کو اپنے زمینی وسائل اور زبردست افرادی تجربہ جوکہ ملک بھر کو ہاری، کسان، گائے، بھینس پالنے والے ماہر تجربہ کار افراد بکرے پالنے والے بکروال کی موجودگی میں شعبہ زراعت کا ملکی پیداوار میں حصہ باآسانی بڑھایا جاسکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی زرعی زمینوں کو مختلف شکلیں دے کر جن میں سوسائٹی یا چھوٹے بڑے اداروں کی طرف سے زمین گھیر لینا یا دیگر طریقوں سے زرخیز پیداواری زرعی زمینوں کا جس طرح استحصال ہو رہا ہے اس طرح آیندہ چل کر خوراک کی قلت اور درآمدات کے لیے وافر ڈالرز کی عدم موجودگی اور دیگر مالی و زرعی مسائل مل کر پاکستان کو شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار کر سکتے ہیں ، لہٰذا اس سے بچنے کے لیے ابھی سے زرعی معاشی منصوبہ بندی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔