غیر متنازعہ انتخابات

شکیل فاروقی  منگل 28 مارچ 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتے ہی بجلی اورگیس کا بحران بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ایک پرانی روایت ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے رمضان کے دوران گیس کی سپلائی کے لیے ایک ٹائم ٹیبل وضع کیا گیا ہے لیکن جس ملک میں ٹریفک اور قیمتیں بے لگام ہوں وہاں کس کس چیزکا شکوہ کیا جائے۔

ایک زمانہ تھا کہ جب کسی ادارے کے متعلق اخبارات میں کوئی شکایت شایع ہوتی تھی تو اُس ادارے میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی تھی کیونکہ اِس سے ادارے کی بدنامی ہوتی تھی۔

ادارے کے حکام کو جوابدہی کے خوف سے اِس کوتاہی کے مرتکب کو سزا دینا پڑتی تھی لیکن اب تو آوے کا آوہ ہی بگڑ چکا ہے اور سیاست نے ریاست کا حشر کردیا ہے۔ نہ کوئی ذمے داری قبول کرتا ہے اور نہ کوئی اپنی کوتاہی پر شرمندہ ہوتا ہے۔

حالت یہ ہے کہ بقولِ شاعر :

زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اورکوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ اداروں کی حالت دگر گوں ہے اور حکومت کی رِٹ کی جگہ رَٹ نے لے لی ہے۔ ہر کوئی اپنے منہ میاں مٹھو بنا ہوا ہے۔ عوام پریشان ہیں اور نقار خانہ میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔

حکمرانوں کی کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اقتدار کو برقرار رکھیں جب کہ حکومت کے مخالفین کی تمام تر توجہ مسلسل جلسہ جلوس نکال کر برسرِ اقتدار حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے پر مرکوز ہے۔ وطنِ عزیز کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ بقولِ غالب۔

کوئی امید بَر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

مثبت رجحان کا فقدان ہے اور ہر کسی کا ہدف اپنی پوزیشن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے اور جائز اور ناجائز کی تمیز مٹ چکی ہے۔

کوئی چاہتا ہے کہ صورتحال جوں کی توں بنی رہے اور کسی کا مطالبہ ہے کہ عام انتخابات اور صوبائی انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں اور کسی کو اِس سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔ ایک حلقہ وہ بھی ہے جس کا خیال ہے کہ انتخابات محض ایک مشقِ لاحاصل ہے کیونکہ:

یہ چمن یونہی رہے گا،اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جائیں گے۔ماضی کا تلخ تجربہ اِس خیال کی تائید کرتا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ الیکشن سے متعلق بہت سی خامیاں منسوب ہیں۔ اول یہ ملک میں درست رائے شماری نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ آیندہ ہونے کی کوئی ضمانت ہے۔

اِس بنیادی کام کے پسِ پُشت ہمیشہ بدنیتی موجود رہی ہے۔ اب بھی اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ کام درست طریقہ سے انجام دیا جاسکے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انتخابات کا موجودہ انجام متنازعہ ہے جس کی وجہ سے دھاندلی کی گنجائش باقی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہ کام اگر مشکل نہیں تو انتہائی دشوار ضرور ہے۔ صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد محض ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے لیے دیانتدار اور غیر جانبدار ہونے کی لازمی شرائط پورا ہونا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔

ایسا کوئی فرشتہ صفت ابھی تک نہیں آسکا کہ جو قطعی غیر متنازعہ رہا ہو ، لہٰذا سب سے ضروری یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص تلاش کیا جائے جو سب کی نظر میں غیر جانبدار اور معتبر ہو ، تاہم اگر ایسا کوئی شخص تلاش کر بھی لیا جائے تو اُسے یہ اندیشہ لاحق رہے گا کہ کہیں اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی چلی جائے۔

دوسرا مسئلہ الیکشن کمیشن کے ممبران اور کارگزاروں کی ایمانداری اور دیانتداری کا ہے۔ اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وطنِ عزیز میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور موجود ہوگا جو اِس معیار پر پورا اُترے۔ عدلیہ اور معاشرے میں خوفِ خدا رکھنے والے ایسے باکردار افراد ضرور موجود ہوں گے لیکن اصل مسئلہ اُن کی تلاش اور رضامندی کا ہے۔

اگر کسی طور یہ مرحلہ طے پاسکے تو مشکل آسان ہوسکے گی۔ عام انتخابات سے متعلق دوسرا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ انتخاب میں ووٹنگ کی گنتی کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے تاکہ ہارنے والے فریق کو کوئی شکایت نہ ہوسکے۔جہاں تک الیکٹرک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا تعلق ہے تو اِس اِیشو پر فریقین کے درمیان ایک خلیج حائل ہے جس کو پاٹنا آسان نہیں ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح درمیان کی راہ اختیار کی جائے۔ ہمارے خیال میں اِس کا ایک راستہ یہ ہے کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل افراد کا ایک ایسا پینل ترتیب دیا جائے جس کی غیر جانبداری ہر قسم کے شکوک و شُبہات سے قطعی بالاتر ہو اور اُس کے زیرِ نگرانی ہونے والے الیکشن کے نتائج پر کوئی اعتراض قابلِ قبول نہ ہو۔فرض کیجیے کہ یہ مرحلہ بھی کسی طور طے ہوجائے تو پھر ایک اور مرحلہ درپیش ہے۔ بقولِ منیر نیازی:

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

دوسرا اور انتہائی کٹھن مسئلہ یہ ہے کہ ایک فریق کا تقاضہ یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی شہریوں کو بھی ووٹنگ میں حصہ لینے دیا جائے۔

اِس فریق کا استدلال یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا بھلا کیا قصور ہے کہ اِنہیں الیکشن میں حصہ لینے سے محروم کر دیا جائے۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ آئین کی نظر میں یہ شہری بھی برابر کے حقدار ہیں اور انھیں شرکت نہ کرنے دینا آئین کی روح کی خلاف ورزی ہوگی۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہ شہری دوسروں کے مقابل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے کماؤ پوت ہیں جو بیرونی ممالک سے اپنی خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت قیمتی زرِ مبادلہ کی صورت میں وطنِ عزیز بھیجتے ہیں اور ایسی صورتحال میں جب کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پرکھڑا ہوا ہے ، بیرونی ممالک میں مقیم اِن پاکستانی شہریوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے محروم رکھنا سراسر بے انصافی اور زیادتی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔