تنگ دلی

عثمان دموہی  جمعـء 31 مارچ 2023
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

جی 20 کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ نریندر مودی حکومت کی جانب سے جو سرد مہری دکھائی گئی ہے وہ نہ صرف جی 20 ممالک کو بری لگی ہے بلکہ اس کو اکثر ملکوں نے ناپسند کیا ہے اور اسے سفارتی آداب کے خلاف قرار دیا ہے۔

اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اور بھی ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ بھارت آئے تھے مگر ان کا ایئرپورٹ سے لے کر کانفرنس حال تک پورے سفارتی آداب کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ تو جرمن وزیر خارجہ نے ایسی کیا غلطی کر دی تھی جس کی وجہ سے ان کے ساتھ نہایت اہانت آمیز عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان سے واقعی ایک بہت ہی بڑی غلطی ہوگئی تھی جوکہ بھارتی حکومت کے لیے کسی طرح بھی قابل معافی نہیں تھی۔

انھوں نے چند ماہ قبل کشمیریوں کی آزادی کی بات کی تھی۔ انھوں نے بھارتی حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور ساتھ ہی کشمیر میں جاری حکومتی ظلم و ستم کو روکنے کے سلسلے میں بیان دیا تھا۔ بھارتی حکومتوں کا شروع سے یہی دستور رہا ہے کہ جو ملک ان کی کشمیر پالیسی کی حمایت کرے یا پھر اس سلسلے میں اپنی زبان بند رکھے وہ ان کا دوست کہلاتا ہے اور جو بھی کشمیریوں کی آزادی یا سلامتی کونسل کی کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں پاس کی گئی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی بات کرے وہ بھارت کا دشمن ٹھہرایا جاتا ہے۔

ترکیہ اور ملائیشیا کو بھارت اپنا دشمن قرار دیتا ہے اس لیے کہ ان کے سربراہوں نے اپنی پریس کانفرنسوں میں اور اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بہ بانگ دہل بھارت کو کشمیریوں کو آزادی دینے کی بات کی تھی۔ ان دونوں ممالک سے زیادہ چین بھارت کا بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے تو یو این تک میں بھارتی کشمیر پالیسی کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو سال قبل سلامتی کونسل کے عارضی اور مستقل ممبران کا اجلاس منعقد کرایا تھا۔ بھارت کی پاکستان سے دشمنی کی بھی بس یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل بھارتی حکومت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیتا رہتا ہے۔

اسی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت پاکستان پر تین مرتبہ فوج کشی کر چکا ہے، وہ اب بھی چین سے نہیں بیٹھا ہے آئے دن پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانا اس کا روز کا معمول بن چکا ہے۔ خواہ ممبئی حملہ ہو یا پلواما کا ڈرامہ یہ سب پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرکے اس کے حربے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو روکنے کے لیے اس نے کیا جتن نہیں کیے مگر وہ اس میں مکمل طور پر ناکام و نامراد رہا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک اب بھی پورے شباب پر ہے۔

روز ہی بھارتی فوجی مجاہدین کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں مگر ان خبروں پر مکمل سنسر نافذ ہے۔ البتہ پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد بھیجنے کے نام نہاد الزامات لگانا اس کا وتیرہ بن چکا ہے۔ حالانکہ کشمیری اپنی آزادی کے لیے خود ہی اپنی تحریک چلا رہے ہیں اور قربانیاں بھی دے رہے ہیں مگر بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں بھارت سرکار کو کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرنے اور انھیں آزادی دینے کی تلقین کرتی رہتی ہیں مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتی ہے۔ گزشتہ کانگریس حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ بی جے پی حکومت کشمیریوں کے لیے زیادہ سخت ثابت ہوئی ہے، وہ مقبوضہ کشمیر کو تو اپنا حصہ کہتی ہی ہے ساتھ میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے۔

چند سال قبل اس نے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لیے پورا انتظام کر لیا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے مطابق گلگت بلتستان پر پاکستانی قبضے کی وجہ سے بھارت کی مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ممالک تک رسائی رک گئی ہے چنانچہ وہ وہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے گلگت بلتستان کو ہر قیمت پر ہتھیانا چاہتے ہیں۔

چار سال قبل وہ اس خطے پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ چین نے اپنی فوجیں لداخ میں اپنے علاقے میں پہنچا دی تھیں جس سے ڈر کر بھارتی حکمران گلگت بلتستان کو چھوڑ کر اپنے ہی علاقے چین سے محفوظ بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ چین کے بقول بھارت نے لداخ میں اس کے علاقوں کو ہتھیا لیا ہے چین اب انھیں بھارت سے چھڑانے کے لیے اپنی کارروائیاں کر رہا ہے اور یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک اروناچل پردیش سمیت تمام علاقے بھارت خالی نہیں کرتا۔ حالیہ جی 20 کے اجلاس میں چین نے شرکت کرنے سے صاف انکار کیا۔ یہ اجلاس اس دفعہ بھارت میں منعقد ہونے پر بھی چین کو اعتراض تھا۔ اس اجلاس کو پہلے بھارت مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرنے کا پروگرام بنا رہا تھا مگر اس کی اس خواہش کو بڑی طاقتوں نے پور نہ ہونے دیا کیونکہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جہاں کے عوام بھارت کے بجائے پاکستان میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔

اس وقت بھارتی حکومت سکھوں سے بہت پریشان ہے وہ بھی ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا سمیت کئی یورپی ممالک میں خالصتان کے لیے ریفرنڈم منعقد ہو چکا ہے۔ یہ تمام ریفرنڈم انتہائی کامیاب رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سکھوں نے لندن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر لگے ہوئے بھارتی قومی پرچم کو نیچے اتار کر جلا دیا۔

بھارت سرکار کو اس واقعے سے سبق لے کر آزادی کے وقت سکھوں سے ایک علیحدہ وطن بنانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اب پورا کر دینا چاہیے مگر اس کے بجائے اس نے بھارتی پنجاب میں چل رہی خالصتان کی تحریک کے رہنما امرت پال سنگھ اور اس کے درجنوں ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ تاہم حکومت امرت پال سنگھ کی گرفتاری کو چھپا رہی ہے۔

سکھوں کے اس اشتعال کا بدلہ بھارتی حکومت نے برطانوی سفیر سے لیا ہے۔ دہلی میں اس کی سیکیورٹی پر مامور آدھے اہلکاروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ بھارت سرکار نے برطانیہ سے اس کے قومی پرچم کی بے حرمتی پر بھی احتجاج کیا تھا مگر برطانوی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بھارتی حکومت ہمیشہ سے ہی تنگ نظر ہے۔

سکھوں کو ان کا حق دینے کے بجائے ان کی آواز کو دبانا اور پکڑ دھکڑ کرنا سراسر زیادتی ہے پھر برطانوی سفارت خانے کی سیکیورٹی کم کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ خالصتان کے سلسلے میں کینیڈا کی حکومت نے بھارت کے مطالبے پر جب سکھوں پر پابندی نہیں لگائی تو بھارتی حکومت نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ جب کینیڈا کے وزیر اعظم مسٹر ٹروڈو بھارت کے دورے پر چند سال قبل آئے تو ان سے انتہائی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا گیا۔

اس طرح بھارتی حکمرانوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ انتہائی تنگ دل ہیں اور اسی تنگ نظری کی وجہ سے بھارت دنیا میں اپنا وہ مقام نہ بنا سکا جو اسے بنانا تھا۔ سب سے پہلے تو اسے اپنے تنگ نظری کے داغ کو مٹانے کے لیے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینا ہوگا اس کے بعد سکھوں سمیت دیگر اقوام جو بھارت سے علیحدگی چاہتی ہیں ان کے مطالبات جو سراسر جائز ہیں انھیں پورا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔