آزادی کا ہیرو۔بھگت سنگھ

جمیل مرغز  ہفتہ 1 اپريل 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

23مارچ 1931کو پھانسی پانے والے انقلابی‘ بھگت سنگھ کی موت کو 92سال ہوگئے لیکن وہ ابھی تک دلوں میں زندہ ہے۔جس طرح مفاد پرست عناصر نے مسلمانوں کی تاریخ کو جھوٹ کی ملاوٹ سے بھر دیا ہے‘ اسی طرح بر صغیر میں انگریزی سامراج سے آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کردیا گیا ہے۔

ہماری تاریخ بہت سادہ بنا دی گئی ہے‘بس ہندوؤں کے لیڈر گاندھی اور نہرو تھے اور مسلمانوں کے لیڈر قائد اعظم ‘لیاقت علی خان‘ نواب بہادر یار جنگ اور ان کے ساتھی تھے ‘انھوں نے انگریز کو بھگایا اورپاکستان اور ہندوستان بن گئے ‘حالا نکہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے لے کر 1857ء کی جنگ آزادی اور اس کے بعد برصغیر کی آزادی تک اس جنگ میں ملک کے ہر طبقے اور ہر قوم نے قربانیاں دی تھیں۔

اس دوران ان ہزاروں شہیدوں‘ انقلابی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ جن کی وجہ سے سامراج کو ہندوستان سے بھاگنا پڑا۔ ہندوستان میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ کو حکومت ملی اس لیے آزادی کی تاریخ میں ان کے تراشے ہوئے افسانے اور ان کے لیڈروں کے بہادری کے قصے ہی شامل کر دیے گئے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کی تاریخ سے ان لوگوں کی جدوجہد کو نکال دیا گیا ہے جنھوں نے حقیقی قربانیاں دی تھیں۔ امید تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تاریخ کو صحیح تناظر میں لکھے گی لیکن وہ بھی پانچ سال صرف حکومت ہی کرتے رہے ‘آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں میں کرانتی دل ‘غدر پارٹی ‘خدائی خدمتگار تحریک ‘قبائلی پختون‘کمیونسٹ پارٹی ‘جلیانوالہ باغ کے شہدا ‘مجلس  احرار ‘خاکسار تحریک اوربنگال کے حریت پسندوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے تاریخ آزادی کو مسخ کردیا گیا ہے۔ آج تحریک آزادی میں جان دینے والے ایک عظیم انقلابی رہنماکو یاد کرتے ہیں ۔

23  مارچ کامریڈ بھگت سنگھ کا یوم وفات ہے۔ بھگت سنگھ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک عظیم ہیرو ہے‘ 27ستمبر1907 بھگت سنگھ کا یوم پیدائش اور 23 مارچ 1931 کو انھیں سولی پر لٹکایا گیا ‘ ان دنوں کو باقاعدہ قومی دنوں کے طور پر منایا جانا چاہیے۔

لاکھوں لوگوں کے وہ ہیرو تھے ‘بھگت سنگھ حقیقت میں برصغیر کی تاریخ کی زندہ جاوید سچائی اور حقیقت ہے۔اپنی تنظیم کا نام ’’سوشلسٹ ریپبلک آرمی‘‘رکھنے والا بائیں بازو کا یہ نمایندہ خود کو بھی مزدور کسان جیسے پیداواری طبقوں کے ساتھ جوڑنے والا انسان آنے والی نسلوں کے لیے ترقی پسند تحریک کی تخلیق کرتا رہا۔ بھگت سنگھ کا گاؤں 66گ ب بنگا(جڑانوالہ)ضلع لائل پور‘ جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک وہاں تعلیم حاصل کی‘ اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدر پارٹی سے تھا‘بھگت سنگھ کے دو بھائی کبیر سنگھ‘  کاؤتار سنگھ تھے۔

1929/30 کے لاہور سازش کیس کے مقدمے نے ہمارے ملک کے عوام کو جس طرح متحرک کیا اس کی مثال نہیں ملتی‘ جس دن اسمبلی میں بم پھینکا گیا اس دن سے لے کر بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی تک سارے ملک کی توجہ اس مقدمے کی روداد، اس کے قیدیوں، ان کی جدوجہد اور ان کے سیاسی نظریوں پر جمی رہی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی سارے ملک کے ہیرو بن گئے۔

ان کے متعلق بے شمار واقعات اور افسانے مشہور ہوگئے، ملک کے گوشہ گوشہ میں ان کی جانبازی اور حب الوطنی کے چرچے ہونے لگے ‘ہر طرف ان کے متعلق نظمیں لکھی جانے لگیں‘ ساری فضا انقلابی نعروں اور انقلابی گیتوں سے گونجنے لگی۔بھگت سنگھ پنجاب میں انقلابی تحریک کے روح و رواں تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘قائم کی تھی‘ یہ انقلابی نوجوانوں کی جماعت تھی ‘وہ تشدد کے ذریعے انگریری سامراج سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔

نومبر 1928 میںلاہور کےASPسانڈرس کو جس نے لاہور میں مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھیاں چلوائی تھیں‘ پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے قتل کردیا گیا‘اس حملے اور اس انگریز افسر کی موت سے سارے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اس حملے سے عوام کو متحرک کرنے کا موقعہ ملا‘ ایک دن جب مرکزی اسمبلی میں مزدور سبھاؤں کے متعلق  ایک بل کے پاس ہونے کے بعد جیسے ہی بم پھٹا‘ بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھدیو وہیں گرفتار کر لیے گئے۔

جیل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شدید تشدد کیا گیا‘پانچ ماہ تک مقدمے کا کھیل کھیلنے کے بعد اس عدالت نے اکتوبر 1930میں اپنا فیصلہ سنا دیا‘ بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی کی سزا دی گئی‘ سات افراد کو عمر قید اور باقی کو لمبی لمبی سزائیں دی گئیں۔

عام طور پر مجرم موت کی سزا کا سن کر خوف کے مارے کمزور ہوجاتے ہیں لیکن عجیب بات یہ تھی کہ بھگت سنگھ کا وزن سزا سننے کے بعد مسلسل بڑھتا گیا ‘پھانسی کے دن حکومت کے خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ ان کی لاشوں سے بھی ڈررہی تھی چنانچہ پولیس کی گاڑی پھانسی کے احاطے میں لائی گئی، بھگت سنگھ ‘راج گرو اور سکھدیو کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بھوسے کی بوریوں میں بھرا گیا۔

ان بوریوں کو فیروز پور لے جاکر چتا میں جلایا گیا یا دریا برد کیا گیا ‘کچھ پتہ نہیں لگا ۔چے گویرا اور بھگت سنگھ دو ایسے انقلابی تھے جن کی لاشوں کا کچھ پتہ نہیں لگا نہ جنازہ اٹھا اور نہ کہیں مزار بنا لیکن ان کے پیدا کیے گئے شعور نے بعد میں بہت سی انقلابی تحریکوں کو جنم دیا۔

اب ایک تاریخی واقعہ جو مجھے محترم پروفیسر سرور صاحب نے سنایا ‘میں کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں پر شادمان کالونی میں پروفیسر صاحب کے ہاں قیام تھا‘ ان کا گھر شادمان کے مرکزی چوک کے سامنے دوسری منزل پر تھا اور یہ چوک ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آرہا تھا۔

پروفیسر صاحب نے بتایا کہ کیمپ جیل اچھرہ سے شادمان تک پھیلا ہوا تھا‘ بعد میں اس جیل کو چھوٹا کرکے یہاں پر شادمان کی بستی تعمیر کی گئی اور نیا کوٹ لکھپت جیل لاہور کے باہر تعمیر کیا گیا‘ پرانے جیل میں پھانسی گھاٹ اسی چوک میں واقع تھا‘ جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو اس وقت قانون کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحریری اجازت اور ان کی موجودگی کے بغیر کسی کو بھی پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔

اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر سوندھی نے پروانہ موت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا‘ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ محمد احمد خان کو تعینات کیا گیا‘بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی نگرانی میں پھانسی دی گئی۔

محمد احمد خان کو بعد میں نواب کا خطاب دے کر آنریری مجسٹریٹ بنا دیا گیا تھا۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس چوک کے کنوئیں میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تھی‘ اسی چوک میں نواب محمد احمد خان کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا‘بھٹو صاحب کو اسی نواب محمد احمد خان کی موت کی سازش کرنے کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلوص ‘جان نثاری اور جرات کو سلام ‘ان کا نصب العین سوشلزم تھا وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچائتی نظام قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو‘دولت پیدا کرنے کے تمام ذرایع زمین‘فیکٹریاں‘ ملیں اوربینک وغیرہ محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت بن جائیں اور ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی اور انفرادی دہشت گردی سے کام نہیں چلتا۔

مہم جو انقلابیوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اکا دکا انگریزوں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کردیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ کر ہندوستان سے بھاگ جائے گا‘حالانکہ افراد کے قتل سے نہ ریاست کی نوعیت بدلتی ہے اور نہ طبقاتی رشتوں میں فرق آتا ہے۔

ایک زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے‘ ایک ASPسانڈرس ہلاک ہوتا ہے تو دوسرا سانڈرس آ موجود ہوتا ہے ‘یہی غلطی آج کل طالبان بھی کر رہے ہیں جو چند دھماکوں اور بے گناہوں کو مارنے کے بعد اسلامی انقلاب کی توقع کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔