یہ تو ریکارڈ ہے

وجاہت علی عباسی  اتوار 20 اپريل 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں جو ہوتا ہے عموماً عجیب ہوتا ہے، محمد موسیٰ کو ہی لے لیں نو ماہ کا بچہ جس پر نہ صرف اقدام قتل کا الزام تھا بلکہ کورٹ میں بھی فنگر پرنٹنگ اور بیان کے لیے بلایا گیا تھا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ موسیٰ پر سے الزامات ہٹا دیے گئے ہیں، کیونکہ پاکستانی قانون کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچے پر ویسے ہی الزامات عاید نہیں کیے جاسکتے، لیکن نو ماہ کے موسیٰ پر یہ الزامات لگائے بھی گئے تھے اور دنیا بھر میں ان کی شہرت بھی ہوئی۔

اسی طرح کی عجیب و غریب ہونے والی باتوں میں کچھ ٹیکس دہندگان کے ساتھ بھی ہونے والا ہے، نہیں نہیں فکر مت کریں۔ ٹیکس آپ کو اب بھی نہیں دینا ہوگا، بس خبر یہ ہے کہ ٹیکس اتھارٹیز بہت جلد ہم سب کو مشہور کرنے والی ہیں۔

پاکستان کے کئی بڑے مسائل میں سے ایک پاکستانیوں کا ٹیکس نہ دینا ہے۔ دو سو میں سے صرف ایک پاکستانی ایسا ہوتا ہے جو ٹیکس بھرتا ہے۔ اور جو ٹیکس بھرتے ہیں وہ بھی ٹیکس کی چوری کرتے ہیں، باقی لوگ ٹیکس بھرنے کو اپنا فرض سمجھنا تو دور ٹیکس فارم اٹھاکر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

2002 میں ’’نائیک‘‘ نامی ایک انڈین فلم آئی تھی جس میں انیل کپور ایک دن کے لیے مہاراشٹر کے چیف منسٹر بنادیے جاتے ہیں اور آرڈر کرتے ہیں کہ جو اپنا ڈیو ٹیکس چوبیس گھنٹے میں نہیں بھرے گا اسے جیل ہوجائے گی۔

ہماری ٹیکس اتھارٹیز میں سے کسی نے حال ہی میں یہ فلم دیکھی اور اسی طرح کی لسٹ جاری کرنے کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی آزاد ملک میں کئی ایسے قوانین ہوتے ہیں جو عام شہری کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھتے ہیں، میڈیکل ریکارڈز، پرسنل بائیوڈیٹا اور فنانشل تفصیلات دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کی عام نہیں کرتا۔

ٹیکس اتھارٹیز کے حساب سے کیوں کہ کئی قانون سازی کرنے والے اور وزرا بھی ٹیکس نہیں بھرتے اسی لیے ٹیکس کو لے کر قانون کو سخت نہیں کیا جاتا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے شاہد اسد کہتے ہیں کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ڈائریکٹری عام ہوجائے اور لوگ ایک دوسرے کو ان کا نام اس میں شامل ہونے کا طعنہ دیں۔

یہ نہ صرف ایک عام شہری کے بنیادی حقوق کی پامالی بلکہ ایک دوسرے کو ذاتی فنانشل سچویشن کی وجہ سے ایک دوسرے کی تفریق کرنے کی صلاح بھی دی جا رہی ہے، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ستر فیصد قانون ساز افراد خود ٹیکس نہیں بھرتے۔

اس لسٹ پر سے اپنے نام کو ہٹوانے کی آخری تاریخ پندرہ مئی 2014 ہے۔

بیشتر ملک بشمول امریکا میں اگر آپ ٹیکس نہ بھریں تو اس کی سزا جیل ہے لیکن حیران کن طور پر پچھلے پچیس سال میں پاکستان میں کسی بھی شخص کو ٹیکس چوری پر سزا نہیں ہوئی ہے۔

دنیا میں پاکستان کے علاوہ صرف تین ایسے ممالک ہیں جہاں اس طرح کی فہرست جاری کی جاتی ہے، سوئیڈن، فن لینڈ اور ناروے لیکن وہاں ٹیکس نہ بھرنے کا مسئلہ بہت کم ہے، جہاں ان تین ملکوں میں صرف چند سو لوگ نظر آتے ہیں وہیں ہمارے یہاں پاکستان میں صرف کچھ سو لوگ ہیں جو لسٹ پر نہیں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ لسٹ صرف ان لوگوں کی شایع کی جاتی جو ٹیکس بھرتے ہیں۔ وہ لسٹ جو میٹرک کے رزلٹ کی طرح اخبارات کے دو تین صفحوں میں آرام سے آجاتی۔ لسٹ بنانے والے ادارے میں اگر 200 لوگ کام کرتے ہیں تو اعداد و شمار کے حساب سے ایک آدھ ہی شخص ٹیکس بھرتا ہوگا، اسی لیے اس لسٹ کا درست ہونا اور اس کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئی اثر ہونا خود میں ایک ریکارڈ ہوگا۔

ہاں ریکارڈ سے یاد آیا کہ کچھ دن پہلے ہونے والے پنجاب یوتھ فیسٹیول میں ہم نے کمال کردیا۔ ایک دو نہیں بلکہ بتیس (32) ورلڈ ریکارڈز بنائے، پاکستان کو ریکارڈز بناتے دیکھنے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی طرف سے دو گورے بھی آئے تھے جنھوں نے کنفرم کیا تھا کہ اس یوتھ فیسٹیول میں ہم نے دو درجن سے زیادہ ورلڈ ریکارڈ بنائے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس موقع پر ریکارڈز بنانے والوں کو مبارکباد بھی دی اور پاکستان کے لیے اس کو ایک بہتر اور خوشگوار قدم قرار دیا لیکن پھر گنیز ریکارڈ والوں نے ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

گنیز بک ورلڈ ریکارڈز والوں نے اپنی ویب سائٹ پر یہ اعلان جاری کردیا کہ پاکستان کے بتیس (32) ریکارڈز غلط ہیں اور جو گورے انگلینڈ اور اسپین گنیز کے نمایندے بن کر آئے تھے ان کا کوئی تعلق گنیز سے ہے ہی نہیں۔

گنیز بک ورلڈ ریکارڈز والوں کے مطابق پاکستان جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے جب کہ ہم نے کوئی بھی ریکارڈ اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا ہے۔

ہمارا گنیز سے سوال ہے کہ اگر ہمیں جھوٹ ہی بولنا ہوتا تو اتنی پبلسٹی کیوں کرتے؟ ہم نے ریکارڈ تو بنائے ہیں اب اگر کوئی گورا ہم سے جھوٹ بول کر گنیز کا نمایندہ بن کر آبیٹھا تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہر ریکارڈ کی ویڈیو، ٹائمنگ اور اعداد و شمار موجود ہیں، وہ ان کو دیکھ کر خود فیصلہ کرلیں کہ ہم ریکارڈ بنا پائے ہیں یا نہیں۔

پیپلز پارٹی کی نمایندہ پنجاب اسمبلی کی ممبر فائزہ ملک کے مطابق پاکستانی حکومت نے پانچ سو ملین روپے دیے تھے تاکہ گنیز کے نمایندے فیسٹیول میں آکر ہماری کارکردگی دیکھ سکیں لیکن اس بیان پر گنیز والوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا، ہاں ان کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز مس وٹنی نے ٹائمز آف انڈیا کی ایک ای میل کے جواب میں یہ کہا کہ پاکستان پنجاب بورڈ نے کبھی ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہماری ان سے کوئی خط و کتابت ہوئی۔ جن نمایندوں کا پاکستان نام لے رہا ہے ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔

گنیز ہم پر غلط الزام لگا رہا ہے، پانچ سو ملین کی چھوٹی سی رقم کے لیے ہم جھوٹ تو نہیں بولیں گے، اس سے کہیں زیادہ تو ہم صرف ایک ہفتے میں ٹیکس سے بچا لیتے ہیں۔ ہم گنیز سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے بنائے ریکارڈز کو اس طرح رد نہ کریں ان پر دوبارہ غور کریں اور جب دوبارہ غور کر ہی رہے ہیں تو بتیس (32) کے ساتھ ایک اور ریکارڈ جوڑ لیں۔ ریکارڈ اس قوم کا جو دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتی ہے۔ اس نئے ریکارڈ کے لیے انھیں کسی جھوٹے یا سچے نمایندے کو بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے ڈائریکٹری حاضر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔