ورلڈکپ کیلیے ٹیم کو بھارت نہ بھیجیں

نجم سیٹھی نے جو نیا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جس کے تحت صرف 4 میچز پاکستان میں ہوں گے یہ بہت مناسب تجویز ہے


Saleem Khaliq May 17, 2023
نجم سیٹھی نے جو نیا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جس کے تحت صرف 4 میچز پاکستان میں ہوں گے یہ بہت مناسب تجویز ہے (فوٹو: ایکسپریس ویب)

نجم سیٹھی نے جو نیا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا جس کے تحت صرف 4 میچز پاکستان میں ہوں گے یہ بہت مناسب تجویز ہے، اب تو ایشیا کپ ہو جانا چاہیے۔

میں نے عالمی کرکٹ معاملات سے مکمل آگاہی رکھنے والی ایک شخصیت سے فون پر یہ بات کہی تو انھوں نے زور کا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ''سیریسلی تم کو کیا ایسا لگتا ہے کہ یہ کرکٹنگ معاملات ہیں،مائی ڈیئر فرینڈ یہ سیاسی مسئلہ ہے، پاکستان کے حالات سب کے سامنے ہیں، ملک ہر شعبے میں جدوجہد کررہا ہے، صرف کرکٹ میں ہی معاملات درست سمت میں گامزن ہیں۔

ٹیم ون ڈے میں نمبر ون بنی، دیگر طرز میں بھی کارکردگی مناسب ہے، بابر اعظم دنیا کا سرفہرست بیٹسمین بن گیا، ملک میں بھارت کے سوا تمام ٹیمیں آ چکیں، تم کیا سمجھتے ہو کہ کیا اس سے بھارت حسد کی آگ میں جل نہیں رہا ہوگا؟ وہاں بورڈ میں بھی انتہا پسند آ چکے، ان کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو کرکٹ میں بھی پیچھے لے جائیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی کس طرح اس صورتحال کو ''ہینڈل'' کرتا ہے''۔

یہ باتیں سن کر میرے ذہن میں یہی سوچ آئی کہ واقعی ایسا ہی ہے، دنیائے کرکٹ میں یہی سوچ ہے کہ اگر بھارتی بورڈ سے دوستی نہ رکھی تو وہ تباہ ہو جائیں گے، آئی پی ایل کے دوران باہمی سیریز ہونے کے باوجود اپنے کھلاڑیوں کو ریلیز کر دیا جاتا ہے، سری لنکا اور بنگلہ دیش کا پاکستان نے ہمیشہ ساتھ دیا لیکن اس بار ایشیا کپ کے معاملے میں دونوں بھارتی کیمپ میں نظر آئے، انھیں مالی طور پر وہاں فائدہ دکھائی دے رہا ہے، البتہ پاکستان ثابت کر چکا کہ کرکٹ میں بقا کیلیے بھارت کا ساتھ ضروری نہیں ہے۔

باہمی ٹیسٹ ہوئے 16سال سے زائد وقت گذر چکا،10 سال ہو چکے پاکستان اور بھارت کی کوئی باہمی ون ڈے سیریز نہیں ہوئی،اس کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ آرام سے جونیئر لیگ جیسے فلاپ پروجیکٹس پر بھی ایک ارب روپے پھونک دیتا ہے، پہلی آئی پی ایل کے بعد پاکستانی کرکٹرز کو نہیں کھلایا گیا، ہم ان کے مقابلے میں اپنی لیگ لے آئے جس میں کرکٹ کی کوالٹی کو سب ہی سراہتے ہیں، ہم دہشت گردی کے زمانے میں بھی آئسولیٹ نہیں ہوئے اور غیرملکی ٹورز کرنے کے ساتھ یو اے ای میں ہوم سیریز کھیلتے رہے، ملک میں برسوں مقابلے نہ ہونے کے باوجود ہماری کرکٹ پھلتی پھولتی رہی، ہمارے اسٹارز دنیا بھر میں چمکتے رہے۔

ہم ٹیسٹ میں نمبر ون بنے، چیمپئنز ٹرافی جیتی، اب ون ڈے میں بھی چند روز کیلیے ہی سہی مگر پہلی پوزیشن حاصل تو کی، اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں، ایک بھارتی سپورٹ کے بغیر بھی آپ ریونیو حاصل کر سکتے ہیں، دوسرا یہ کہ اگر بھارتی ٹیم آپ کے ساتھ نہ کھیلے تو اس سے کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا،بدقسمتی سے ہمارے دیگر ایشیائی ممالک ایسا نہیں سوچتے اور بی سی سی آئی سے ڈرتے ہیں، انھیں بھارتی ٹیم سے دو میچز کھیلنے کو مل جائیں تو خوشی سے اچھلنے لگتے ہیں، دیگر ممالک کے بورڈز بھی خوف کا شکار رہتے ہیں۔

اسی لیے بھارت نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ایشیا کپ اگر پاکستان میں ہو گیا تو چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی میں بھی کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی، یہ بات بھارتی بورڈ جانتا ہے اس لیے راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے، پہلے آنے سے انکار کیا، پھر ہائبرڈ ماڈل بھی مسترد کر دیا، پاکستان اگر اس بار بھی بیک فٹ پر چلا جائے اور نیوٹرل وینیو پر ایونٹ کرا لیا تو کل کو چیمپئنز ٹرافی میں بھی ایسا ہی ہو گا، یوں ہم صرف باہمی کرکٹ کی ہی میزبانی کرتے رہ جائیں گے، عالمی ایونٹس کی میزبانی چھنتی رہے گی۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم بھارت سے آنے والی جعلی ای میل سے گھبرا کر پاکستان سے چلی گئی تھی، اب دو سیریز کھیل چکی، انگلینڈ اور آسٹریلیا سے زیادہ نخرے کس کے ہیں، ان کی ٹیمیں بھی یہاں آ چکیں، اگر بھارتی کرکٹرز بھی آئے تو انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا،آپ نے اکثر دیکھا کہ پاکستان میں میچ کے دوران کوئی شائق کوہلی کیلیے پیغام لیے کھڑاہوتا ہے یا کبھی کوئی لڑکا بائیک پر کوہلی کی شرٹ پہنے گھوم رہا ہوتا ہے، مگر ہم اس پر اعتراض نہیں کرتے، بھارت میں کوئی اگر ایسا سوچے بھی تو اس کا نجانے کیسا حشر کر دیا جائے گا۔

یہی دونوں ممالک میں فرق ہے، یہ ٹھیک ہے کہ ان دنوں ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں لیکن امید ہے جلد صورتحال معمول پر آ جائے گی، ایشیا کپ میں بھی ابھی بہت وقت باقی ہے، درحقیقت بھارت نے تو موجودہ حالات سے کافی پہلے ہی دورہ نہ کرنے کااعلان کر دیا تھا، بھارتی بورڈ جو اپنی دولت پر اکڑتا ہے صرف یہ دیکھ لے کہ عالمی ایونٹس میں پاکستان کے ساتھ میچز سے کتنی آمدنی ہوتی ہے، پورے ورلڈکپ کا ریونیو ایک طرف اور صرف پاک بھارت میچ کا دوسری طرف رکھیں فرق پتا چل جائے گا۔

اسی لیے آئی سی سی یا اے سی سی ایونٹس میں پاکستانی ٹیم کے خلاف کھیلنے میں کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا،یہی منافقت کی سب سے بڑی مثال ہے، اتنی نفرت ہے تو ورلڈکپ میں بھی نہ کھیلیں، اس بار نجم سیٹھی نے بالکل درست قدم اٹھایا اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیا،آج نہیں تو کل یہ مسئلہ حل تو کرنا ہی ہے، انھوں نے عالمی سطح پر پاکستانی کیس اچھے انداز میں پیش کیا مگر بدقسمتی سے پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ اس دوران خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہا، شاید بعض لوگوں کو تنخواہ آدھی ہونے کا رنج ہے ورنہ ماضی میں احسان مانی، وسیم خان اور رمیز راجہ کھانستے بھی تھے تو پریس ریلیز آ جاتی تھی۔

اب مکمل خاموشی ہے اور کریڈٹ نہیں لیا جا رہا،نہ ہی سوشل میڈیا یا روایتی میڈیا کے استعمال سے اپنا کیس دنیا میں پیش کیا جا رہا ہے، خیر اب پی سی بی نے اسٹینڈ لیا ہے تو اس پر قائم بھی رہنا چاہیے، اگر ایشیا کپ پاکستان میں نہیں ہوتا تو پھر ورلڈکپ کیلیے بھی ٹیم کو بھارت نہ بھیجیں، آئی سی سی سے کہیں حکومت اجازت نہیں دے رہی نیوٹرل مقام پر میچ کرائیں شاید اس سے کوئی سبق سیکھے، بصورت دیگر ہماری کرکٹ اب تک تو چل رہی ہے انشااللہ آئندہ بھی پھلتے پھولتے رہے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں