جب لُو چلتی تھی

شکیل فاروقی  جمعـء 26 مئ 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا

بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا

ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا

بچپن میں پڑھی ہوئی مولانا اسماعیل میرٹھی کی نظم کے یہ اشعار رہ رہ کر یاد آرہے ہیں۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب بجلی کی دستیابی تو کیا تصور بھی محُال تھا۔ صبح کے نو دس بجتے ہی پارہ چڑھنا شروع ہو جایا کرتا تھا۔ گرمی کی شدت کے مارے ہر کوئی بُری طرح نڈھال ہوجاتا تھا۔ چیل انڈا چھوڑتی تھی۔ پیاس کے مارے بُرا حال ہوا کرتا تھا۔

بجلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے برف بھی ناپید تھی۔ لوگ مٹکوں اور صراحی کا ٹھنڈا پانی پی کر گزارا کیا کرتے تھے۔ دن بھر شدید لُو چلا کرتی تھی۔ قدرت کا انتظام بڑا عجیب تھا۔ لُو جتنی شدید ہوتی تھی مٹکے اور صراحی کا پانی بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہوتا تھا۔لوگ ستو اور شربت پی کر اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے۔

دوپہر ہوتے ہی لوگ کمروں کے اندرگھس جایا کرتے تھے، عام آدمی ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کر گرمی سے نجات حاصل کرتے تھے۔اُمراء خس کی ٹٹی استعمال کرتے تھے۔ گرمی کی شدت سے بچنے کا اہتمام کرتے تھے۔

خس خاص قسم کے تنکوں پر مشتمل ہوتی تھی جس پر پانی ڈال کر ایک پتلی سی دیوار بنائی جاتی تھی۔ جب لُو چلتی تھی اور اِس دیوار سے ٹکراتی تھی تو گرمی ٹھنڈک میں تبدیل ہوجاتی تھی۔اِس اہتمام کے لیے باقاعدہ ملازم رکھے جاتے تھے، اگر کسی کو لُو لگ جاتی تھی تو اُس کے لیے ایک خاص قسم کا شربت مریض کو وقفہ وقفہ سے پلایا جاتا تھا۔

یہ شربت آم کی کیری کو نیم گرم راکھ میں بجھا کر تیار کیا جاتا تھا۔ لُو سے بچنے کا ایک آزمودہ ٹوٹکہ یہ تھا کہ پیاز کا ہار گلے میں پہنایا جاتا تھا۔گرمیوں کی راتیں بھی بڑی تکلیف دہ ہوا کرتی تھیں،کیونکہ ہوا نہ چلنے کی وجہ سے پسینے سے بُرا حال ہوا کرتا تھا گویا نہ دن کو چین نہ رات کو آرام۔اُس زمانہ میں انگریزوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی جو گورے کہلاتے تھے اور اُن کی عورتیں میم صاحب کہلاتی تھیں، کیونکہ گرمی اُن سے برداشت نہیں ہوتی تھی، اسی لیے گرمی کا پورا موسم وہ پہاڑی علاقوں میں جا کر گزارتے تھے اور اُن کے دفاتر بھی اُنہی علاقوں میں منتقل ہوجاتے تھے۔

بجلی کی ایجاد سائنس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ دعا دیجیے اُن سائنسدانوں کو جنھوں نے بجلی ایجاد کرکے انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے۔آج بجلی کی بدولت گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے پنکھے، اے سی ، فریج اور واٹر کولر جیسی سہولیات دستیاب ہیں اور زندگی آسان ہوگئی ہے۔ زندگی میں آرام اور چین میسر ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اُن ممالک میں جہاں کا نظام بہترین ہے عوام الناس کو گرمیوں کی شدت جھیلنا نہیں پڑتی، کیونکہ ہر چیز کا انتظام بہترین ہے۔ مثال کے طور پر خلیجی ریاستوں کو لے لیجیے، وہاں شدید ترین گرمی ہونے کے باوجود بہترین نظام ہونے کی وجہ سے اے سی اور فریج سمیت دیگر مطلوبہ آسانیاں موجود ہونے کی وجہ سے گرمی محسوس ہی نہیں ہوتی۔بدقسمتی سے ہم اچھے حکومتی نظام سے محروم ہیں۔

اس لیے جب بھی گرمیوں کا موسم آتا ہے تو امیروں، وزیروں اور مُشیروں کے علاوہ عام آدمی کو جہنم سے بھی بدتر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ گرمی کے موسم میں لوڈ شیڈنگ کے نام پر بجلی گھنٹوں تک دستیاب نہیں ہوتی۔

سب سے بُرا حال بزرگ شہریوں، بیماروں اور بچوں کا ہوتا ہے جو گرمی کی شدت سے بُری طرح تڑپتے ہیں۔ کرپشن نے بجلی کے ادارے سمیت ہر ادارے کو تباہ و برباد کردیا ہے اور زندگی اجیرن کردی ہے۔ اِس تباہی کے سب سے بڑے ذمے دار ہمارے سیاستدان ہیں جن کی سیاست گردی نے دہشت گردی کو بھی مات کردیا ہے۔

ملک تباہی کے آخری کنارے تک پہنچ چکا ہے اور اُس کا وجود بھی خطرے میں پڑا ہوا ہے لیکن اُن کی ہوِس اقتدار ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ عوام کی حالت دن بہ دن بد سے بدتر ہو رہی ہے اور سیاست گرد ہیں کہ اُن کے ضمیر جاگنے کا نام نہیں لے رہے۔

ظلم وستم کی یہ سیاہ رات معلوم نہیں کب ختم ہوگی اور امید کا سورج کب طلوع ہوگا ؟نام کوئی بھی ہو تھیلی کے یہ چٹّے بٹّے ایک ہی ہیں۔ عوام کا حوصلہ اور صبر دم توڑ رہا ہے اور ہمارے سیاست دانوں کو احساس تک نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔