’مرکزی سلطنت‘ کا نیا جنم

غلام محی الدین  ہفتہ 27 مئ 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

جس ملک کو آج دنیا چین کے نام سے جانتی ہے صدیوں پہلے اسے ’چُنگ واہ‘ (Zhongguo) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ چینی زبان میں چنگ واہ کے معنی ہیں مرکزی سلطنت۔ اس نام سے ایک تصور وجود میں آیا جسے چینی قوم اپنے لیے قابل فخر اور اس کے حریف اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

مغربی دنیا اس لفظ کے لیے Middle Kingdom کی اصطلاح کا استعمال کرتی ہے۔ چینی نکتہ نظر سے دیکھیں تو چینی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے وسط میں واقع ہے لہٰذا اس کی معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی حیثیت بھی ایسی ہونی چاہیے جیسے مرکز میں موجود علم و ہنر کا منبع اپنے ارد گرد موجود ریاستوں کے لیے قابل تقلید مثال ہو اور اس کی روشنی سے گرد و پیش مستفید ہو۔

یقیناً اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی ریاست کو فیصلہ کُن معاشی برتری اور ناقابل شکست فوجی قوت کی ضرورت ہو گی۔ دوسری جانب امریکا کی قیادت میں مغربی دنیا اسی اصطلاح کو عالمی امن کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرتی ہے۔

مغربی دانشور اور عالمی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ چین توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے مرکزی ریاست کے تصور کو ایک قومی محرک کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ساری دنیا پر حکمرانی کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے۔

یہ الگ بات کہ اس وقت عالمی افق پر خود امریکا کو کم و بیش ایسی ہی حیثیت حاصل ہے کہ کوئی بھی اس سے کُھلا ٹکراؤ مول لینے کا تصور نہیں کر سکتا اور امریکا ہر جگہ من مانی کرتا ہے۔ چین کے ’مرکزی ریاست‘ کے تصور میں امریکا کو جو اصل خطرہ نظر آتا ہے اس کی وجہ عالمی امن نہیں، بلکہ دنیا میں اپنی موجودہ برتر حیثیت کے چھن جانے کا اندیشہ ہے۔

گزشتہ دو ہزار سالوں میں جو شاہی خاندان قدیم چینی سلطنت پر حکمران رہے انہوں نے جب اسے دنیا کی مرکزی ریاست کہا تو اس کا مطلب محض چین کی جغرافیائی حیثیت کو نمایاں کرنا نہیں تھا بلکہ وہ چین کو عالمی سیاست کا سب سے موثر کھلاڑی دیکھنا چاہتے تھے اور دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہر بڑی طاقت اپنی برتری کو منوانے کے لیے کوئی نہ کوئی حکمت عملی بناتی رہی ہے۔

یہی وہ تصور ہے جس سے طاقت پا کر چین تیزی سے عالمی معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا جا رہا ہے اور مغربی بلاک اسے دنیا پر حاکمیت قائم کرنے کی چینی منصوبہ بندی کے طور پر دیکھتا ہے۔ چین میں شہنشاہیت کے زوال کے بعد  1800ء سے لے کر 1900ء کی ابتدائی دہائیوں میں، تقریباً ایک صدی تک ’مرکزی سلطنت‘ کا چینی تصور کہیں پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔

لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے زندہ قومیں اپنے ادرشوں کو تیاگ نہیں دیا کرتیں۔ جس طرح ترکیہ‘ ایک طویل خاموشی کے باوجود سلطنت عثمانیہ کے عہد کو فراموش نہیں کر پایا اسی طرح چین بھی اس دور ابتلاء کے بعد جب بحال ہوا تو مرکزی سلطنت کی حیثیت حاصل کرنے کی جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چین کے بادشاہ ہوں، چین کی کیمونسٹ پارٹی ہو جس نے شہنشاہیت کے خلاف عوامی حاکمیت کے لیے جد وجہد کی، یا پھر جمہوریہ چین کے پہلے صدر ڈاکٹر سن یت سین ہوں جو ماؤ کے عوامی جمہوریہ چین کے مقابل ایک متوازی ریاست کے سربراہ رہے، ہر ایک نے چین کی دنیا میں مرکزی حیثیت کے تصور سے رو گردانی نہیں کی۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مغربی بلاک کے لیے چین سب سے بڑے خطرے کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے اور اب دنیا کی سیاست اور سفارتکاری اسی ایک معاملے کے گرد گھوم رہی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ پاکستان میں سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا جو کھیل جاری ہے اس کے پیچھے بھی بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے ہی کا عمل دخل ہو۔

چین کے عالمی سطح پر تیزی سے اُبھرنے کی اہم ترین علامت یہ ہے کہ چین نے ان عالمی اداروں کو چیلنج کر دیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کے لیے قائم کئے تھے۔ ان اداروں میں دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جبکہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر اقوام متحدہ ہے۔

چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ کے بعد سب سے طاقتور چینی رہنما شی جن پنگ بہت پہلے اعلان کر چکے ہیں کہ عالمی امور کو چلانے کے نظام میں اصلاحات کے لیے چین کو قائدانہ کردارادا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین ان معاملات میں جن سے وہ اتفاق کرتا ہے‘ عالمی اداروں میں متحرک کردار ادا کرتا ہے لیکن جن باتوں سے وہ متفق نہیں ان کے لیے متبادل اداروں کے قیام اور نئے طریقہ کار کو متعارف کرانے کی راہ پر گامزن ہے۔

چین عالمی امور کے لیے موجود نظام میں جو اصلاحات چاہتا ہے اس کے لیے اس نے چار شعبوں کا انتخاب کیا ہے جن میں عالمی صحت‘ انٹرنیٹ پر غلبہ‘ موسمی تغیرات اور ڈویلپمنٹ فنانس(ترقیاتی سرمایہ) شامل ہیں۔ عالمی صحت کے حوالے سے چین نے اپنی اہمیت کو حالیہ کورونا کی عالمی وباء میں پوری طرح سے منوا لیا ہے۔

اس بحران میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر اداروں کے ساتھ چین کا تعاون مثالی رہا ہے اور اس کے ساتھ غریب ملکوں کو سب سے زیادہ امداد بھی چین نے فراہم کی۔ مشرقی افریقہ میں ملیریاکے خاتمے میں سب سے اہم کردار چین ادا کر رہا ہے۔ مغربی افریقہ میں ’ایبولہ وائرس‘ کی وبا میں چین نے تاریخ کی سب سے بڑی مہم چلائی جس کے لیے 123 ملین ڈالر فراہم کیے گئے۔

انٹرنیٹ کی دنیا میں چین نے ’ Cyber Sovereignty ‘ کا تصور متعارف کرایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کو اپنی حدود کے اندر انٹرنیٹ پر مکمل کنٹرول حاصل ہونا چاہیے۔

اس تصور کے پیچھے انٹرنیٹ کے ذریعے مغربی بلاک کی جانب سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی اجارہ داری کے آگے بند باندھنا ہے۔ چین کے اس تصور کو دنیا میں پذیرائی ملنا یقینی ہے اور اس صلاحیت کے لیے دیگر ممالک چین ہی سے رجوع کریں گے۔ صدر شی‘ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ چین کو سائبر سپر پاور‘ بننا ہے۔ چین کی کمپنیاں 5G ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہیں۔

منفی موسمی تغیرات کے حوالے سے چین پہلے دنیا کی فکر مندی میں شریک نہیں تھا لیکن گزشتہ دہائی میں اس نے اپنی پالیسی بدل لی ہے اور اب وہ اس حوالے سے متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ چین کو اندیشہ تھا کہ عالمی سطح پر آلودگی کے خلاف اقدامات سے چین کی ترقی کی رفتار سست ہو جائے گی۔ اب چین رکازی ایندھن کے استعمال میں غیر معمولی کمی لا رہا ہے۔ چین اس وقت قابل تجدید توانائی میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔

ترقیاتی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا منصوبہ BRI بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ ہے جس کے ذریعے افریقہ‘ ایشیائ‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ ایک تجارتی لڑی میں پروئے جائیں گے۔ پاکستان کو اس منصوبے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین اس پوزیشن میں آ جائے گا کہ وہ عالمی سطح پر امداد‘ بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور رسل و رسائل کے قواعد و ضوابط کو اپنی مرضی سے تشکیل دے سکے۔ اس منصوبے کی مالیت 460 ارب ڈالر ہے اور یہ عالمی مالیاتی اداروں کی نگرانی اور معاونت سے مبرا ہے۔ چین پہلے ہی 2015 میں ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک کے نام سے ایک متبادل مالیاتی ادارہ بھی قائم کر چکا ہے۔

تاریخ عالم کی بہت سے مثالوں کے برعکس چین نے دنیا میں برتر حیثیت پانے کے لیے غیر عسکری راستہ اختیار کیا ہے۔ دوسری طرف مغربی ممالک ابھی چین کو روکنے کے لیے امریکی حکمت عملی پر متفق نہیں ہو پائے۔ اب اگر چین کی غیر عسکری پیش قدمی کو عسکری ذرائع سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک بڑی جنگ کو ٹالنا ممکن نہیں رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔