رہے گا نام اللہ کا

سعد اللہ جان برق  پير 29 مئ 2023
barq@email.com

[email protected]

بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک ایسے کردار کاذکر کیاتھا جسے تنخواہ سے شکایت تھی اور اتنی زیادہ تھی کہ تنخواہ اس کے پانچوں حواس کے ساتھ ساتھ اعصاب پر بھی سوار ہوگئی، کوئی کہتا کہ آج گرمی بہت ہے تو فوراً بول پڑتا کیوں نہ ہوگی، بھئی یہ کوئی تنخواہ ہے، کوئی کہتا گرمی کم ہے توبھئی گرمی کم کیوں نہ ہوگی یہ کوئی تنخواہ ہے۔

ایک دوست کی بھینس مرگئی تو بھئی کیوں نہ مرتی یہ کوئی تنخواہ ہے، کسی کوکوئی بیماری ہوتی، کوئی خاندانی جھگڑاہوتا، کوئی روڈ ایکسیڈنٹ ہوتا، کچھ بھی ہوتا، اس کے ڈانڈے وہ تنخواہ سے ملاکر چھوڑتا،اکثر وہ غالب کی پیروڈی کرکے گنگناتا تھا ۔

کاؤ کاؤ سخت جاں ہائے ’’تنخوائی ‘‘نہ پوچھ

’’پہلی‘‘ کرنا تیس کالانا جوئے شیر کا

کچھ دنوں بعد ملا۔ تو تنخواہ کو بھول کر مہنگائی کا ورد زبان پر تھا۔ کسی نے کہا کہ ریڈیوپاکستان میں کچھ لوگوں نے بہت زیادہ قومی نقصان پہنچایاہے تو بولا۔ لوگ پاگل نہیں ہوں گے تو کیاہوگا، اس مہنگائی میں۔ اس کے چھوٹے بچے نے آکر روتے ہوئے کہا ، مجھے ماں نے مارا ہے ،بولا کیوں نہیں مارے گی بیٹا ، ذرا اس مہنگائی کو تو دیکھو۔پھر بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، صبرکرو بیٹا میری طرح ، مہنگائی ہے جو کچھ تھا وہ لیڈروں کی لڑائی مارگئی باقی کچھ بچا تو مہنگائی مارگئی۔

بات کچھ زیادہ یقینی تو نہیں لیکن اس کے دماغی سیاق وسباق سے اندازہ ہوتاہے کہ شاید عبادت میں بھی وہ ’’مہنگائی‘‘ پڑھتے ہوں گے۔ویسے اس کی انٹیرئیر منسٹری سے جو باتیں لیک ہوتی ہیں ،ان میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر میں اس نے تقریباً ہرچیز کا نام مہنگائی رکھا ہواہے ،کھانا تیار ہے یا نہیں، کی جگہ وہ مہنگائی تیارہے کہ نہیں کہتے ہیں۔

ایک گلاس مہنگائی لاؤ کا مطلب ہے پانی لاؤ۔ایک کپ مہنگائی تو ظاہرہے کہ چائے ہوتی ہے، اسی طرح استعمال کی بہت ساری چیزوں کو اس نے مہنگائی قرار دیا ہوا بلکہ اولادوں میں سے کسی کو بلانا ہو تو زبان پر پہلے مہنگائی کا نام تھا ،دیکھو مہنگائی ،میرامطلب ہے ،نصیر بیٹا، ذرا بات سنومہنگائی، میرا مطلب ہے پروین بیٹی۔ بیوی تو ہے ہی مستقل مہنگائی ،گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں سے پوچھتے ہیں،تمہاری مہنگائی کہاں ہے ،میرا مطلب ہے ماں۔

اس دن بازارمیں جارہے تھے ایک دم رک کر بولا ،وہ مہنگائی میرا مطلب ہے، بیوی نے کچھ لانے کو کہاتھا۔ہاں یاد آیا اور پھر سبزی والے کی دکان پر جاکرکھڑا رہا،پھر سبزی کا تھیلہ اٹھائے ہوئے آیا ۔چلو تھوڑی سی مہنگائی خریدنا تھی،حالانکہ تھیلے میں ٹماٹر دکھائی دے رہے تھے ۔

ایک دن بڑے مزے کا واقعہ ہوا، سامنے سے ایک بہت ہی دبلا پتلا آدمی گزرا، تو کسی نے کہا بہت ہی دبلا پتلا آدمی ہے ،فوراً بولا دبلا پتلا نہیں ہوگا ،کتنی مہنگائی ہے، کسی کے دبلے پتلے ہونے کا تعلق تو کسی نہ کسی طرح مہنگائی سے جوڑا جاسکتاہے لیکن تھوڑی دیر بعد اسی راستے سے ایک بہت ہی موٹا تازہ آدمی گزرا۔تو اس پر مہنگائی چسپاں کی۔ ہم نے کہا یہ کیا ؟ دبلا پتلا بھی مہنگائی کی وجہ سے اور موٹا تازہ بھی ۔بولا کیوں نہیں وہ پہلے والا خریدار اوردوسرے والا دکاندار ہوگا ورنہ جاکر پوچھ لو۔

اس کی صحبت میں رہ کر ہمیں بھی مہنگائی لاحق ہوگئی، لاحق تو ساری دنیا کو ہے سوائے لیڈروں، افسروں اور دکانداروں کے ۔لیکن زبان پر لاحق ہوگئی ہے چنانچہ اس وقت ملک میں جو واقعات یا ’’عمرانیات‘‘ ہورہے ہیں، ان سب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے بھی منہ سے اکثر اور بے وقت مہنگائی نکل پڑتی ہے ۔ویسے اگر دیکھا جائے پھرسوچا جائے اور اس کے بعد بولا جائے تو مہنگائی کے لیے ’’عمرانیات‘‘ کا نام بھی اچھا خاصا موزوں ہے کیوں کہ جب سے حضور نے اس وطن کی سیاست کو اپنے قدوم محنت لزوم سے شرف یاب کرنا شروع کیا ہے۔

تب سے ایسا لگتا ہے جیسے اس سے پہلے مہنگائی نابالغ تھی اوراب مکمل طور پر بالغ ہوگئی ہو، اس کی سینگیں بھی نکل آئی ہیں ، ڈریکولا والے دانت بھی، بھیڑئیے والے پنجے بھی ، بچھو والے ڈنک بھی اور سانپ والی دوشاخہ زبان بھی اوروہاں وہاں تک پہنچ گئی ہے جہاں کوئی اس کے نام سے بھی واقف نہ تھا ،کچھ دنوں پہلے ہم نے خود اپنے اس بے گناہ کانوں سے سنا تھا کہ ایک تھانیدار بھی مہنگائی کا نام لے رہا تھا گویا۔

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

علامہ اقبال نے تو شاعروں ،صورت گروں اور افسانہ نویسوں کے اعصاب پر ایک اورمحترمہ کے سوار ہونے کاذکر کیا تھا لیکن موجودہ وقت میں یہ مقام مہنگائی نے حاصل کیا ہواہے اور اس نے شاعروں، صورت گروں اورافسانہ نویسوں کی تخصیص بھی مٹا دی ہے جو بھی ہاتھ آتاہے اس کے اوپر اچک کر سوار ہوجاتی ہے ، رہی تنخواہ تو اس بیچاری کو تو یہ پیدائش کے پہلے دن ہی نگل لیتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔