’’آگیا رکھوالا‘‘

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 27 اپريل 2014
ایک چرواہا، جو بکروں بکریوں کو اپنے بہن بھائی کہتا تھا۔ فوٹو: فائل

ایک چرواہا، جو بکروں بکریوں کو اپنے بہن بھائی کہتا تھا۔ فوٹو: فائل

گھاس پھونس کا ایک چھپر تھا، در نہ دیوار، ایک گھڑا، ایک ٹوٹی پھوٹی سی چار پائی اور ٹین کا ایک بکس اس کی کُل کائنات تھی۔ میلے کچیلے کپڑے اور ہوائی چپل۔ نہ جانے کب سے اس نے بال نہیں کٹوائے تھے۔

سردی ہو یا گرمی وہ گریبان کھولے اپنے کام میں مگن رہتا تھا، اور کام بھی کیا؟ وہ ایک چرواہا تھا۔ صبح سویرے وہ پکارتا ’’آگیا رکھوالا‘‘ اور پھر، بہت ساری بکریاں اور بکرے اس کے آگے ہوتیں اور وہ ایک چھوٹی سی شاخ اور المونیم کی گڑوی پکڑے ان کے پیچھے ہوتا۔ بالکل بے پرواہ تھا وہ … اونچی آواز میں وہ کوئی فلمی گیت گاتا چلا جاتا تھا۔ تھا بہت مزے کا انسان۔ شام کو سورج ڈوبنے سے پہلے وہ ہر گھر پر جاتا اور پکارتا،’’آگیا رکھوالا‘‘ اور بکریاں اس گھر میں داخل ہوجاتیں۔۔۔پھر وہ اپنے چھپر میں جاکر سوجاتا۔

نام تو اس کا مستقیم تھا، لیکن ہم سب اسے ماما کہہ کر پکارتے تھے۔ ہاں اس کے پاس ایک بانسری بھی تھی۔ شروع میں تو وہ بہت غصے سے بولا،’’جائو پڑھو لکھو‘‘ میں نہ مانا اور پھر آخر وہ ہار ہی گیا۔ میں بہت دفعہ اس کے ساتھ جنگل گیا ہوں، بکریاں چرانے۔ جنگل جاکر وہ کسی بھی درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور بکریاں پھیل جاتیں۔ پھر وہ اپنی بانسری نکالتا۔ کیا جادو تھا! میں نے بھی بہت کوشش کی، لیکن اس کی طرح نہیں بجا سکا۔ چاروں سمت سناٹا اور بانسری کی درد بھری دُھن۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ آواز لگاتا ’’ہشیار رہنا ہشیار۔۔۔ ہاں۔‘‘ اس نے ہر بکری کا ایک نام رکھا ہوا تھا: سوہنی، کالی، بھوری … نہ جانے کیا کیا۔ ایک بکری کا نام شمع بھی تھا۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ہر بکری اس کی بولی سمجھتی تھی۔ پتا نہیں کیسے! شام ہوتے ہی وہ آواز لگاتا اور ساری بکریاں جمع ہوجاتیں۔

میں نے اسے اکیلا ہی دیکھا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا تھا،’’ماما! آپ کے امی، ابا کہاں ہیں؟‘‘ تو بہت ہنسا اور کہنے لگا،’’امی ابا تو مر گئے، بہن بھائی یہ رہے۔‘‘ اس نے بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد میں نے کبھی اس سے نہیں پوچھا۔ نہ جانے کہاں سے آیا تھا وہ۔ کون تھا۔ میں بس اتنا جانتا تھا کہ وہ میرا ماما ہے، جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ بکریاں چرانا بھی۔

اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اور میری آوارگی عروج پر تھی۔ ایک دن صبح سویرے میں اس کے چھپر میں جا پہنچا۔ خلافِ معمول وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ میں نے تو اسے ہر دم ہنستے کھیلتے دیکھا تھا۔ ہر دم تازہ دم … زندہ دل۔

’’ماما کیا ہوا؟‘‘ میں نے پکارا۔ میری آواز سن کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ رورہا تھا وہ۔

’’کیا ہوا ہے ماما؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ارے کچھ نہیں ہوا، بس ویسے ہی۔‘‘

’’نہیں مجھے بتانا ہوگا۔‘‘ میں نے اصرار کیا۔

’’کچھ نہیں، بس وہ اپنی سوہنی بیمار ہوگئی ہے۔‘‘

’’سوہنی بیمار ہوگئی ہے تو آپ رو رہے ہیں!‘‘ سوہنی اس کی چہیتی بکری تھی۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما ہمارے محلے کے حکیم دادا کے پاس سوہنی کے لیے دوا لینے آیا تھا اور حکیم دادا نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔ وہ مطب سے جانے لگا۔ تو حکیم دادا کی آواز آئی … بہت شفیق آواز،’’پگلے! میں انسانوں کا معالج ہوں، جانوروں کا نہیں ہوں۔ سیدھا مسعود کے پاس جا۔ وہ ہے جانوروں کا ڈاکٹر۔‘‘ اور ماما ڈاکٹر مسعود کے پاس گیا تھا دوا لینے۔ ماما سے کوئی پیسے نہیں لیتا تھا۔

پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ماما کی سوہنی ٹھیک ہوگئی تھی۔ اور ماما پھر سے گنگنانے اور چہچہانے لگا تھا۔

ایک دن میں نے ماما کو چھیڑا،’’ماما! آخر سوہنی سے اتنی محبت کیوں ہے آپ کو؟‘‘ تو عجیب سی بات کی اس نے،’’چَریے! مجھے تو ان سب سے محبت ہے یہ تو میرے بہن بھائی ہیں، لیکن سوہنی میری بچی ہے۔‘‘

’’وہ کیسے ماما؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’سوہنی کی ماں کو بھی میں چراتا تھا، بہت فرماںبردار تھی۔ سوہنی میرے سامنے پیدا ہوئی تھی اور میں نے بچوں کی طرح اسے پالا پوسا۔ جب سوہنی چھوٹی تھی ناں تو بہت کم زور تھی، اتنی کم زور کہ ماں کا دودھ بھی نہیں پی سکتی تھی۔ میں اسے بوتل سے دودھ پلاتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ بس یہ میری بچی ہے۔ اور دیکھ میں ان کا چرواہا ہی نہیں رکھوالا بھی ہوں۔ میری ذمے داری ہے کہ میں ان کا خیال رکھوں۔ اگر میں نے ان کا خیال نہ رکھا تو اﷲ میاں مجھ سے پوچھے گا، پھر میں کیا جواب دوں گا!‘‘

مجھے اس وقت تو اتنی سمجھ نہیں تھی۔ اب سوچتا ہوں کتنا عظیم انسان تھا وہ۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما کے چھپر کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔ ماما رات کو تو بالکل ٹھیک تھا۔ آرام سے سوگیا تھا اور پھر وہ سوتا ہی رہ گیا۔ کتنے سکون سے چلا گیا وہ۔ پورے محلے میں سوگ تھا اور بہت سے لوگ اشک بار تھے۔ پھر ماما کا جنازہ اٹھا اور انھیں مٹی کے سپرد کردیا گیا۔ میرا معمول رہا بہت عرصے تک کہ شام کو اس کی قبر پر پانی چھڑکتا تھا اور کچھ پھول ڈالتا تھا۔ کیا بات تھی ماما مستقیم کی۔ واہ۔

وہ ایک چرواہا تھا جو اپنی ذمے داری کتنی جاں فشانی اور لگن سے ادا کرتا تھا۔ وہ خود کو ذمے دار سمجھتاتھا۔ بالکل ان پڑھ، کتنی محنت سے کتنی محبت سے، کتنی شفقت سے وہ بکریوں کا خیال رکھتا تھا۔

ایک ہمارے حکم راں ہیں جو بہت لکھے پڑھے ہیں۔ روشن خیال ہیں۔ نہ جانے کیا کیا ہیں اور خلق خدا در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔ بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہی ہے۔ اغوا، ڈکیتی… کون سا عذاب ہے جو ہم پر نہیں اتر رہا! اور حکم راں چین و سکون سے اپنے محلات میں راگ رنگ کی محفلیں سجارہے ہیں۔

تھر اور تھریوں کو دیکھتا ہوں تو ماما مستقیم یاد آتے ہیں ، کاش تھریوں کو کوئی ماما مستقیم مل جاتا جو ان کا رکھوالا ہوتا، ان کا درد محسوس کرتا اور اس درد کی دوا بھی کرتا ، جو خود کو رکھولا سمجھتا اور ان کا ذمے دار۔۔۔۔ نجانے میں کیا کیا سوچ رہا ہوں۔

مجھے بتائیے وہ ان پڑھ چرواہا اچھا تھا۔ یا یہ پڑھے لکھے روشن خیال، بے حس، بے ضمیر، بد قماش …!

بس رخصت دیجیے۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

کہیں چاک جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا، اسے بھول جا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔