وفاقی ترقیاتی پروگرام 950 ارب روپے تک بڑھانے کا فیصلہ

شہباز رانا / ارشاد انصاری  ہفتہ 3 جون 2023
1.559 ٹریلین صوبے اپنے ذرائع سے خرچ کرینگے، احسن اقبال (فوٹو فائل)

1.559 ٹریلین صوبے اپنے ذرائع سے خرچ کرینگے، احسن اقبال (فوٹو فائل)

 اسلام آباد: وفاقی حکومت نے عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (PSDP)کی رقم 31 فیصد بڑھا کر 950 ارب روپے کرنے پر اتفاق کیا ہے جب کہ پہلے وفاقی ترقیاتی پروگرام (PSDP) کے لیے رقم 700 ارب روپے رکھی گئی تھی۔

گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) کے اجلاس کے بعد یہ رقم بڑھا کر950 ارب روپے کردی گئی۔ حالانکہ وزارت منصوبہ بندی700 ارب کے ترقیاتی پروگرام کا ورکنگ پیپر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کرچکی تھی۔

وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعظم نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے۔ اس میں سالانہ وفاقی ترقیاتی پروگرام 950 ارب کاہوگا۔

پرائیویٹ سیکٹرکی طرف سے اس مد میں خرچ کیے جانے والے 150ارب روپے اس کے علاوہ ہونگے۔بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کیلیے مختص 2.5 ٹریلین روپے کی رقم رواں مالی سال کی رقم سے 90 ارب روپے زیادہ ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں ای او بی آئی کی پنشن بڑھنے کا امکان

وزیراعظم کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) نے اگلے مالی سال کیلئے  جی ڈی پی نموکا ہدف 3.5 فیصد مقررکیا ہے جس میں شعبہ زراعت کی نمو کا ہدف 3.5فیصد،صنعتی ترقی کا ہدف 3.4 فیصد اور سروسز سیکٹر کا ہدف3.6 فیصد رکھا گیاہے۔اگلے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 21 فیصدتک لانے کا ہدف مقررکیا گیاہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ سالانہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں صوبوں کیلئے موقع ہے کہ وہ محدود وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کریں۔

ترقیاتی منصوبوں کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا بجٹ میں مختص رقم برآمدی شعبے،ایکویٹی،امپاورمنٹ ،ماحولیات اور انرجی  فریم ورک کے علاوہ سی پیک منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔اس کے علاوہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی بحالی کے منصوبوں کیلئے بھی رقم رکھی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مختلف وزارتوں نے بھی 2035 منصوبوں کیلئے 2.6 ٹریلین روپے کی مانگ کی ہے۔آئی ایم ایف نے ان تمام منصوبوں پراخراجات کا تخمینہ 12ٹریلین روپے لگا رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف اور معاشی ترقی کو ترجیح دی جائے گی، وزیراعظم

سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) نے چاروں صوبوں کے ترقیاتی پروگراموں کیلئے 1.56 ٹریلین روپے مختص کرنے کی منظوری دی ہے۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کی عبوری حکومتوں نے اکتوبر 2023ء تک چھوٹے چھوٹے منصوبے تجویز کیے تھے۔ مجوزہ منصوبوں کیلئے مختص بجٹ اب اگلے ہفتے قومی اقتصادی کونسل میں منظوری  کیلئے پیش کیا جائے گا۔

قومی اقتصادی کونسل اعلیٰ ترین آئینی اکنامک فورم ہے جس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں۔اگلے مالی سال کے بجٹ میں چاروں صوبوں اپنے ذرائع سے بھی1.559 ٹریلین روپے  ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں گے۔

پنجاب نے صرف چارماہ کیلئے 426 ارب روپے اس مقصد کیلئے تجویز کیے ہیں جو پورے مالی سال کیلئے مختص712 ارب روپے کے تخمینہ  سے کافی حدتک  کم ہیں۔ سندھ نے رواں مالی سال کے 442 ارب کے مقابلے میں40 فیصد اضافہ کے ساتھ  617 ارب روپے مختص کیے ہیں۔خیبرپختونخوا حکومت نے رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ 373 ارب روپے کے مقابلے میں صرف  چار ماہ کے منصوبوں کیلئے 268 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

بلوچستان حکومت نے اگلے مالی سال کیلئے 248 ارب روپے  تجویز کیے ہیں جورواں مالی سال کیلئے مختص رقم کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے رواں مالی سال کے 111ارب روپے کے مقابلے میں90 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین کو ریلیف، آئی ٹی پر ٹیکس ختم کرنے کا امکان

وفاقی منصوبوں کو کم وسائل اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے حکومتی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔

مختلف وزارتوں کیلئے مختص 64 ارب روپے کی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ  لینے کے علاوہ  75 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ بھی رکھی گئی ہے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام سے 12 ارب روپے نکال کر ساتویں مردم شماری کیلئے دے دیئے گئے ہیں۔8 ارب روپے گوادر کے غریب ماہی گیروں کو 2 ہزار انجن فراہم کرنے کیلئے وزارت ماہی گیری کو دیدیئے گئے ہیں۔

وزارت منصوبہ بندی کا کہناہے کہ 294 ارب روپے کی لاگت کے 164 منصوبے اسی مال سال کے دوران ہی مکمل کرلیے جائیں گے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں صوبائی نوعیت کے منصوبوں کا حصہ مزید 31 فیصد بڑھانے سے وفاقی کے محدود وسائل پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔زلزلہ بحالی اتھارٹی (ایرا) کے معاملہ کو حل کیے بغیر ہی چھوڑ دیاگیاہے۔

سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت رواں مالی سال تک سالانہ 180  ارب روپے دیتی رہی ہے لیکن ایرا مقررہ مدت کے دوران اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے 2018ء میں ایرا کو نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی میںضم کرنے کا فیصلہ کیا  تھا لیکن اس پرعملدرآمد نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا 290 روپے ڈالر ریٹ پر بجٹ تیار کرنیکا فیصلہ

سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC)  نے اب اس ضمن میں گائیڈلائنز کی منظوری دیدی ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں سفارش کی گئی ہے کہ آئندہ صرف انہی صوبائی سکیموں کیلئے رقم مہیاکی جائے گی جہاں آدھی رقم خود صوبائی حکومت فراہم کریگی۔

اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کی رقم وزارت منصوبہ بندی کو سال کی پہلی سہ ماہی میں صرف 10 فیصد جاری کرنے کے بجائے پورے سال کے دوران چار قسطوں میں جاری کی جائیگی۔ سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC)  میں یہ سفارش بھی پیش کی گئی کہ ترقیاتی سکیموں کیلئے زرمبادلہ انتہائی ناگزیرحالات میں ہی فراہم کیا جائے گا۔

خریداری پر پابندی جیسے اقدامات کو ترقیاتی اخراجات سے استثنیٰ دیدیا جائے گا۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ وزارت خزانہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ،پاور ڈویژن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو دیئے گئے ترقیاتی قرضوںپر سود وصول نہیں کرے گی۔کمیٹی نے اخراجات جاریہ ترقیاتی فنڈزکے اجراء  پرپابندی کی بھی سفارش کی ہے۔

قبل ازیں جمعہ کے روز وزیراعظم کی  زیر صدارت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے بجٹ تجاویز پر منعقدہ اعلی سطحی اجلاس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آئندہ بجٹ کے  پی ایس ڈی پی میں نوجوانوں کی ترقی کے منصوبوں کیلئے خصوصی طور پر رقم مختص کی جائے۔نوجوانوں کو اعلی تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور باوقار روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں،نوجوانوں کی اعلی تعلیم کیلئے پاکستان اینڈومنٹ فنڈ بھی  قائم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے لیکن ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، وزیر خزانہ

وزیراعظم نے مزید ہدایت کی کہ آئندہ بجٹ میں باصلاحیت اور حسن کارکردگی کے حامل طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کے ہنر سے لیس کرنے کیلئے مفت لیپ ٹاپس کا پروگرام بھی شامل کیا جائے۔ وظائف و تعلیم کیلئے شفافیت اور میرٹ کو کلیدی اہمیت دی جائے۔ بجٹ میں آئی ٹی کے فروغ کیلئے منصوبے بھی شامل کئے جائیں۔

بجٹ میں قابل تجدید توانائی کے منصوبے شامل جبکہ کسان پیکیج کے تحت شروع کئے گئے منصوبے جاری رکھے جائیں۔ پن بجلی کے منصوبوں اور توانائی کے شعبے کی جدت کیلئے بجٹ میں خصوصی رقوم مختص کی جائیں۔ ایسے منصوبے جو سست روی کا شکار ہو کر سالہا سال سے پی ایس ڈی پی میں شامل ہیں اور اپنی اہمیت کھو چکے ہیں انہیں اس کے دائرہ کار سے نکالا جائے۔

بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرتے وقت صوبوں، متعلقہ شعبے کے سٹیک ہولڈرز اور اتحادی جماعتوں کو مکمل اعتماد میں لے کر ان کی  تجاویز کو شامل کیا جائے۔

اجلاس کو پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں پر پیش رفت اور آئندہ مالی سال کیلئے منصوبوں کے حوالے سے تجاویز کے بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال میں وزیرِ اعظم کے کسان پیکیج اور با اختیار نوجوان پروگرام کے ثمرات عوام تک پہنچائے گئے۔

اس حوالے سے 60 ہزار نوجوانوں کی اس وقت مختلف سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں انٹرن شپ فراہم کی جاری ہے جبکہ گندم کی گزشتہ دس سال کی نسبت ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے ۔ وزیرِ اعظم نے بجٹ 24۔ 2023ء کے ترقیاتی منصوبوں میں ملکی درآمدات کا متبادل فراہم کرنے، برآمدات بڑھانے اور مختلف شعبوں کی جدت کے منصوبوں کو ترجیح دینے کی واضح ہدایات جاری کیں۔

مزید پڑھیں: حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مسودہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کردیا

وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کاکہنا تھا کہ آج پھر ہم نے بڑے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، ہم نے پاکستان تو سنگین ترین کلائمیٹ ڈیزاسٹر اور امپورٹ مینجمنٹ کر کے ملک کو  ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے 80 ارب کی غیر ضروری درآمدات کیں، جس کے باعث بڑا تجارتی خسارہ دیکھنا پڑا، پی ٹیآئی نے ریکارڈ قرضے لے کر پاکستان کو معاشی دلدل میں پھنسایا،گزشتہ 4 برسوں کے دوران یہ ملک بغیر کسی میپ کے چلتا رہا،جن حالات میں پاکستان کو چھوڑا گیا اس وقت پیشگوئی تھی کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا،لیکن اب مشکل حالات سے پاکستان کو نکال لیا گیا ہے۔

اس سال برآمدات 28 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ اگلے سال 30 ارب ڈالرز تک برآمدات جا سکتی ہیں، تجارتی خسارہ 1.1 فیصد مثبت ہوا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے تھا جو پی ٹی آئی دور میں 500 ارب روپے رہ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع کو دیگر اضلاع کے برابر لانا ہو گا، ملکی ترقی کے لیے معیشت کو برآمدی بنانا ہوگا، زرعی شعبے کی بہتری سے گرین انقلاب ہماری اوّلین ترجیح ہے، انرجی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔