مثالی والد کیسے بنیں۔۔۔۔۔

’’یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔‘‘


فوٹو : فائل

انسانی معاشرہ مختلف گھرانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر گھرانہ شوہر اور بیوی کے رشتے سے وجود میں آتا ہے۔

ان دونوں کے رشتے کے امتزاج سے اﷲ تعالیٰ انہیں صاحبِ اولاد بناتا ہے۔ اس طرح ایک گھرانے کی تکمیل ہوتی ہے۔ چوں کہ معاشرہ گھرانوں سے وجود میں آتا ہے اس لیے بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے بہترین گھرانوں کی بنیاد رکھنا ضروری ہے۔

اس لیے والدین کی یہ ِذمے داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں تاکہ ان کے تربیت یافتہ گھرانے سعادت مند معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی صحت اور غذا کا خیال رکھنا ایک ماں کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک باپ اپنے گھر والوں کے لیے اچھی زندگی کا انتظام کرتا ہے۔ وہ اپنی طاقت کے مطابق انہیں وہ تمام وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں بچوں کی تربیت کے متعلق عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری ماں کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچے سارا دن ماں کے ساتھ گھر پر رہتے ہیں اس لیے وہی ان کی تربیت کی واحد ذمہ دار ہے۔ اس کے برعکس چوں کہ باپ اپنی معاشی مصروفیت کی بنا پر اکثر گھر سے باہر رہتا ہے اس لیے وہ خود کو اس ذمہ داری سے آزاد سمجھتا ہے۔

یاد رکھیں! یہ تصور درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں باپ دونوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔

دونوں جب اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں تو تعلیم و تربیت کا عمل اعتدال کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن و سنت میں کیا تعلیمات موجود ہیں جن پر غور و فکر کرکے ہم بہ حیثیت والد اپنے کردار کو نکھار سکتے ہیں۔

یوں تو قرآن کریم میں مختلف انبیاء کے واقعات کے ذریعے اس موضوع سے متعلق ہماری راہ نمائی کی گئی ہے۔ لیکن سیدنا یعقوبؑ کی زندگی سے ہمیں اس متعلق خوب راہ نمائی ملتی ہے۔ اگر آپ سورہ یوسف کا مطالعہ کریں تو اس کی ابتدا میں ہی اﷲ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ کے خواب کا ذکر کیا ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ''جب یوسف نے اپنے والد سے کہا تھا: ابا جان! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔'' (یوسف)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یعقوبؑ جو کہ والد تھے انہوں نے اپنے بیٹے سیدنا یوسفؑ کو کتنا اعتماد دیا ہوا تھا کہ وہ ان کے سامنے اپنے دل کا حال رکھتے ہیں اور انہیں اپنا خواب سنا تے ہیں۔ ایک والد سے اپنی اولاد کے لیے اسی طرح کی شفقت اور محبت مطلوب ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط رکھے کہ بچے اس کے گھر آنے پر خوشی محسوس کریں۔

وہ اپنے والد کو دیکھ کر پریشان نہ ہوں اور نہ ہی اپنے والد سے بات کرتے وقت وہ کوئی خوف محسوس کریں۔ بل کہ وہ جب چاہیں آسانی کے ساتھ اپنے دل کی ہر بات اپنے والد کو بتا سکیں۔

اب جب سیدنا یعقوبؑ نے اپنے لخت جگر کا خواب پوری توجہ سے سنا تو نہایت حکمت سے اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، مفہوم: ''میرے پیارے بیٹے! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہارے لیے بُری تدبیریں سوچنے لگیں گے کیوں کہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔'' (یوسف)

ایک والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں کو جمع کرکے رکھے۔ ان کے درمیان محبت پروان چڑھائے اور دوریوں کو ختم کرے۔

یہاں پر سیدنا یعقوبؑ نے یہی کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو جوڑنے کی بات کی۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ بیٹا یوسف! تم یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت سنانا میں تمہیں اس لیے روک رہا ہوں کیوں کہ تمہارے بھائی تمہارے دشمن ہیں۔

وہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ تم سے جلتے ہیں۔ کیوں کہ وہ تمہارے سوتیلے بھائی ہیں۔ نہیں، بل کہ انہوں سیدنا یوسفؑ سے کہا کہ بیٹا! یہ خواب اپنے بھائیوں کو اس لیے مت سنانا کیوں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، وہ تمہارے بھائیوں کے دل میں بُرے وسوسے ڈال کر انہیں اس بات کر آمادہ کرے گا کہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں اور تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔

یہ فطری بات ہے کہ گھر میں چھوٹے بچوں سے زیادہ محبت کی جاتی ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب ان سے لاڈ کرتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ سیدنا یوسفؑ ایک تو سیدنا یعقوبؑ کے چھوٹے بیٹے تھے۔ دوسرا بچپن میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

اس لیے سیدنا یعقوبؑ اس فطری جذبے کی وجہ سے انہیں اضافی توجہ دیتے تھے۔ مگر سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دیگر بیٹے اس فطری جذبے کو سمجھنے اور سیدنا یوسفؑ پر رحم کھانے کی بہ جائے اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ہمارے ابا جان ہمارے مقابلے میں یوسفؑ سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔

ان کی یہ منفی سوچ حسد کے جذبے میں تبدیل ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ کسی بھی طرح سیدنا یوسفؑ کو راستے سے ہٹا دیا جائے تاکہ والد گرامی کی تمام تر توجہ اور محبت ان کی طرف مبذول ہوجائے۔ بالآخر سیدنا یعقوبؑ کے بیٹوں نے سیدنا یوسفؑ کو ٹھکانے لگانے کا ایک منصوبہ تیار کرلیا۔ وہ اپنے والد کے پاس آکر اصرار کرنے لگے کہ ابا جان! ہم سیر کے لیے جا رہے ہیں آپ ہمیں یوسفؑ کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دیں، ہمارا یہ چھوٹا بھائی وہاں جاکر ہمارے ساتھ کھیلے گا اور خوش ہوگا۔

سیدنا یعقوبؑ نے پہلے پہل تو انہیں ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ مسلسل اصرار کرنے لگے تو انہوں نے ان کو اس شرط پر یوسفؑ کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی کہ وہ اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے، کیوں کہ جنگل میں اگر بھیڑیے نے اسے اکیلے دیکھ لیا تو وہ اسے کھا جائے گا۔

سیدنا یعقوبؑ کے بیٹوں نے اپنے والد کو مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ابا جان! آپ فکر نہ کریں ہم دس افراد مضبوط جسامت کے مالک ہیں، بھیڑیے کی کیا جرأت جو ہمارے ہوتے ہوئے یوسف کو نقصان پہنچائے۔

پھر ہُوا یوں کہ وہ یوسفؑ کو اپنے ساتھ لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا۔ اس کی قمیص لی اس پر خون لگا کر رات کے وقت اپنے والد کے پاس جاکر جھوٹے آنسو بہانے لگے۔ کہنے لگے کہ اباجان! یوسف کو بھیڑیا کھاگیا، ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے، دیکھیں! یہ اس کی قمیص ہے جو اس کے خون سے لتھڑی ہوئی ہے۔ سیدنا یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کی بات سنی مگر ان پر یقین نہیں کیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ میرے بچے چال بازی کررہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ ویسے بھی جرم کرنے والا شخص اپنے جرم کے کچھ ایسے نشانات ضرور چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جرم پکڑا جاتا ہے۔

سیدنا یعقوب علیہ السلام ان بچوں کے باپ تھے اور باپ اپنے بچوں کو خوب سمجھتا ہے کیوں کہ اس نے ان بچوں کی پرورش کی ہوتی ہے۔ اسے اپنے بچوں کے تمام رویوں کا خوب علم ہوتا ہے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنا معاملہ اﷲ کے سپر د کیا اور کہنے لگے، مفہوم: ''تم لوگوں نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اﷲ ہی سے مدد کی طلب ہے۔''

یہاں پر ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ والدین کو اولاد کے معاملے میں مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو ایسی کسی بھی آزمائش پر انتہائی حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور صبر جمیل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ دل کا سکون ہوتا ہے۔ اگر اولاد نافرمان بھی ہوجائے یا ان سے کوئی غلطی بھی ہوجائے تو بھی کوئی والد یہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی نقصان پہنچے۔ آپ سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال لیں۔ وہ کافر تھا پھر بھی سیدنا نوحؑ اﷲ سے اس کے لیے دعا کرتے ہیں کیوں کہ وہ ان کا بیٹا ان کا لخت جگر تھا۔ سیدنا نوحؑ چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح اسے ڈوبنے سے بچالیں۔

اس لیے وہ انہیں آخر تک منتیں کرتے رہے کہ بیٹا! آؤ ہماری کشتی میں بیٹھ جاؤ۔ جب وہ نہیں مانا اور کہنے لگا کہ میں تو کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر اپنے آپ کو بچالوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ ڈوب کر مرگیا۔ اس وقت دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیدنا نوح علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے اس کے لیے سفارش کی کہ اے اﷲ! وہ میرا بیٹا تھا اسے معاف فرما۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ اے نوح! اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں تم دوبارہ مجھ سے اس کی سفارش مت کرنا۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا صبر دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اے ابراہیم! تم اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردو۔ سیدنا ابراہیمؑ اپنے رب کے حکم کو بجا لائے اور اپنے بیٹے کی گردن پر چُھری چلانے لگے۔

اندازہ لگائیں کہ یہ ان کے لیے کتنی بڑی آزمائش تھی جس پر انہیں صبر کرنا پڑا۔ اگرچہ اس آزمائش پر پورا اترنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کے بیٹے سیدنا اسمٰعیلؑ کو بچالیا اور بہ طور فدیہ ایک مینڈھا بھیجا جس کو سیدنا ابراہیمؑ ذبح کیا۔ (صافات)

ہماری اولاد ہمارے لیے آزمائش ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ''یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔'' (الانفال) کیوں کہ آزمائش پر پورا اترنے کے لیے صبر کرنا لازم ہے اس لیے ایک والد کے منصب کے ساتھ صبر جڑا رہتا ہے۔

اس کے بغیر کوئی شخص اچھا والد نہیں بن سکتا ہے۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب سیدنا یوسفؑ اپنی تمام آزمائشوں سے گزر کر مصر میں وزیر بن چکے تھے۔ اس وقت جہاں بہت سارے علاقوں میں قحط پڑ چکا تھا وہیں پر سیدنا یعقوبؑ کا علاقہ بھی قحط سالی سے دوچار تھا۔

چناں چہ ان کے بیٹے جب غلہ لینے دوسری دفعہ مصر روانہ ہوتے ہیں تو اپنے والد گرامی سے کہتے ہیں ابا جان! بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں اس طرح ہمیں ایک حصہ غلہ زیادہ مل جائے گا۔ جب وہ بنیامین کو لے کر مصر جانے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوبؑ ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو! میں تمہیں بنیامین کو ساتھ لے جانے کی اجازت تو دے رہا ہوں مگر اب کی دفعہ امانت میں خیانت نہ کرنا کیوں کہ تم پہلے بھی ایک وعدہ توڑ چکے ہو۔

پھر جب ان کے بیٹے مصر کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوبؑ انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم: ''اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے (مصر میں) داخل مت ہونا بل کہ مختلف دروازوں میں سے داخل ہونا، میں اﷲ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا، حکم صرف اﷲ ہی کا چلتا ہے، میرا کامل توکل اسی پر ہے اور ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے۔''

سیدنا یعقوبؑ کا انداز تربیت دیکھیں کہ وہ بار بار اپنے بچوں کو اﷲ کے ساتھ جوڑ تے ہیں۔ انہیں توحید کا درس دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ اﷲ کے پاس ہی سارے اختیارات ہیں۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔

سیدنا لقمان بھی جب اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں توحید کی تلقین کرتے ہیں، مفہوم: ''دیکھو بیٹا! اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیوں کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'' (لقمان) بچوں کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ جب بچہ جان لے گا کہ وہ اﷲ بصیر ہے، علیم ہے تو پھر وہ گناہ نہیں کرے گا۔ جب کسی بچے کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو پھر اس کا تعلق اس کے والدین کے ساتھ بھی بہتر ہوتا ہے۔ تب وہ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنا شروع کرتا ہے۔

جب سیدنا یعقوبؑ کے بیٹے مصر پہنچتے ہیں اور سیدنا یوسفؑ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیتے ہیں تو ان کے بیٹے کنعان واپس آکر اپنے والد کو ان کا قصہ بتاتے ہیں کہ ابا جان بنیامین کے تھیلے میں سے بادشاہ کا پیالہ نکلا تھا جس کی وجہ سے انہیں مصر میں روک دیا گیا ہے۔ اس موقع پر سیدنا یعقوبؑ نے اپنے بچوں کو دوبارہ مصر روانہ کیا اور کہا، مفہوم: ''میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور بنیامین کے متعلق جاننے کی کوشش کرو اور ناامید نہ ہونا کیوں کہ ناامیدی کافر قوم کی علامت ہے۔'' (یوسف)

اس طرح ایک دفعہ پھر سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو اﷲ کی رحمت کے متعلق بتاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ اﷲ کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بالآخر یہ بچے مصر پہنچتے ہیں تو یہ اپنے بھائی یوسفؑ کو پہچان لیتے ہیں اور وہ سب کو اپنے پاس بلاکر مصر میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

کچھ عرصے بعد جب سیدنا یعقوبؑ کے انتقال کا وقت قریب آتا ہے تب وہ اپنی تمام آل اولاد کو جمع کرتے ہیں اور ان سے سوال پوچھتے ہیں، مفہوم: ''(بتاؤ) میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ، اسمعیل اور اسحق کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار رہیں گے ۔'' (البقرۃ)

یہ ہے سیدنا یعقوبؑ کی زندگی میں سے اولاد کی تربیت کرنے کے چند نمونے کہ اس دنیا سے جاتے جاتے بھی انہیں اپنے بچوں کی فکر لاحق ہے کہ میرے مرنے کے بعد ان کی عبادت کا کیا ہوگا ؟ کہیں وہ اﷲ کو بھول تو نہیں جائیں گے ؟ اس لیے وہ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں کہ بچو! جو سبق ساری زندگی تمہیں پڑھایا ہے ذرا میرے مرنے سے پہلے اسے میرے سامنے دہراؤ تاکہ میں مطمئن ہوجاؤں۔

ایک والد اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں اتنا حساس اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ وہ جواب دہ ہے اس نے اﷲ تعالیٰ کو اپنی ذمے داری کا جواب دینا ہوگا۔

مقبول خبریں