برکس کا روشن مستقبل (دوسرا اور آخری حصہ)

جمیل مرغز  پير 2 اکتوبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

عالمی جنگوں خاص کر دوسری جنگ عظیم (1939-1945) کی ہولناک تباہ کاریوں سے سبق سیکھتے ہوئے اقوام عالم معیشت اور تجارت کی ترقی کے لیے باہمی تعاون کی طرف توجہ مبذول ہوئی‘ اس کی نمایاں مثال یورپی یونین ہے ‘جس کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد رکھی گئی تھی۔

باہمی تعاون کے اس فریم ورک کی بنیاد جرمنی اور فرانس نے رکھی ‘جو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔

1957 میں معاہدہ روم کے تحت جب ان دو ملکوں کے ہمراہ چار دیگر مغربی یورپی ممالک یعنی بلجیم‘ لکسمبرگ‘ نیدر لینڈ اور اٹلی نے یورپی کامن مارکیٹ کی بنیاد رکھی تو کوئی نہیںکہہ سکتا تھاکہ یہ تنظیم تقریباً تمام یورپی ممالک پر مشتمل نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک کی شکل اختیار کرلے گی ‘بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ا بھرے گی۔

جس زمانے میں یورپین مارکیٹ نے علاقائی تعاون کے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کے منازل طے کیے ‘دنیا پر امریکا کا غلبہ تھا ‘ دنیا کی دوتہائی سے زیادہ آبادی ان ممالک میںر ہتی تھی ‘جنھیں غربت‘افلاس اور پسماندگی کی وجہ سے کبھی تیسری دنیا ‘ترقی پذیر ‘پسماندہ اور جنوبی ممالک کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔

ترقی پذیر ملک ترقی کیوں نہیں کرتے ؟اس کا جواب بہت آسان ہے ‘جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے اور ہزاروںلوگوں کو مار دینے کے بعد اب آپس میں شیر وشکر ہیں اور معاشی طور پر پارٹنر ہیں‘آپس میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں لیکن ہندوستان اور پاکستان پچھلے 75سال سے حالت جنگ میں ہیں۔

برکس کے حالیہ سربراہی اجلاس جو ‘جنوبی افریقہ کے شہرجوہنسبرگ میں منعقد ہوا‘نتائج کے لحاظ سے بہت کامیاب رہی ‘دنیا میں بہت سی سیاسی اور معاشی تنظیمیں موجود ہیں‘یہ سب تنظیمیں عام طور پر مخصوص علاقوں میں کام کرتی ہیںلیکن برکس ایک ایسی تنظیم ہے جس کی ممبر شپ میںایشیاء ‘افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک شامل ہیں‘اس طرح موجودہ اجلاس میں چالیس سے زیادہ ممالک نے ممبر شپ کی درخواست کی لیکن فی الحال صرف چھ ممالک کو رکنیت دی گئی‘ یہ اس تنظیم کی ارتقاء کی ایک مثال ہے۔

سعودی عرب‘ ایران‘متحدہ عرب امارات‘ارجنٹائن ‘ایتھوپیا اور مصر کو ممبر شپ دی گئی ہے ‘کسی تنظیم کی ممبر شپ میں یہ ایک بڑی توسیع ہے ‘اگلے سال جنوری سے یہ ممالک باقاعدہ رکن کی حیثیت سے برکس میں شامل ہو جائیںگے‘ رکنیت میں اس توسیع کے بعدبرکس کا دنیا کی کل GDP میں حصہ26فی صد سے بڑھ کر 29فی صد ہو جائے گااور ساز و سامان کی عالمی تجارت میں اس کا حصہ 18 سے بڑھ کر 21فی صد تک پہنچ جائے گا۔

پچھلے سال برکس کے بانی پانچ رکن ممالک برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ کی مجموعی  26-GDP ‘ٹریلین ڈالر تھی‘جو امریکا کی مجموعی پیداوار سے زیادہ تھی ‘چھ مزید ملکوں کی شمولیت کے بعد برکس کے رکن ممالک کی مجموعی GDPمیں مزید اضافہ ہوگا‘برکس میں شامل بعض ممالک مثلاً جنوبی افریقہ‘روس اور برازیل وسیع قدرتی اور معدنی ذخائرکے مالک ہیں اور چین کی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد سے ان وسائل سے استفادہ کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے۔

اسی لیے اس میں شمولیت کے لیے دنیا بھرکے ممالک کی لائن لگی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ فرانس جو‘ ناٹو اور یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے کے صدر ایمانویل میکرون نے جون میں برکس کی حالیہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ‘برکس کی جس تصور پر بنیاد رکھی گئی تھی وہ بہت پرانا ہے‘مگر امیر اور ترقی یافتہ کا عالمی معیشت ‘مارکیٹ اور قدرتی وسائل پر غلبہ ہونے کی وجہ سے ‘انٹر کانٹی نینٹل علاقائی تعاون کی یہ کوشش کافی عرصے تک نمایاں پوزیشن حاصل نہ کرسکی‘ مگر 2008 میں امریکا میں شروع ہونے والے مالی بحران جس نے بعد میں پورے یورپ اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا چین کو ایک مضبوط معیشت کی حیثیت سے ظہور اور مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے لیے اس کا چیلنج اور کوویڈ19کے بین الاقوامی معیشت پر منفی اثرات نے امیر ملکوں کی معیشت کو ایسے جھٹکے پہنچائے ‘کہ وہ ابھی تک سنبھل نہ سکی ۔

اور ان کی سالانہ جی ڈی پی میں افزائش کی شرح بہت نیچے چلی گئی ہے ‘اس کے مقابلے میں چین‘بھارت‘سنگاپور‘انڈونیشیا اور دیگر ممالک نے ایشیاء میں اور جنوبی افریقہ اور برازیل نے بالترتیب براعظم افریقہ اور لاطینی امریکا میں جی ڈی پی کی افزائش میں حیران کن حد تک اضافہ کرنے میں کامیابی حاصل کیں۔

ایشیاء ‘افریقہ‘ لاطینی امریکا کے یہ ممالک جنھیں ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی کہا جاتا ہے‘ اب عالمی سطح پر معیشت اور تجارت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘اس عمل سے جیو اکنامکس میں اس تبدیلی کا جیو پولیٹکل اسٹرکچر ‘جوکہ برٹن ووڈذ میں1945میں کھڑا کیا گیا تھا‘میں تبدیلی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن امریکا اور اس کے یورپی اتحادی‘ جاپان‘آسٹریلیا جنھیں ’’گلوبل نارتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس ناگزیر تبدیلی کا راستہ روک رہے ہیں‘ مگر وہ زیادہ دیر تک اس تبدیلی کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ‘کیونکہ گلوبل ساؤتھ‘ جسے کبھی تیسری دنیا‘ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کہا جاتا تھا، میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور نوآبادیاتی غلامی سے آزاد ہونے والے ‘ان ممالک کو خود امریکا اور اس کے اتحادی امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اپنی بین الاقوامی معاشی پالیسیو ں کو زیادہ سے زیادہ پروٹیکشنزم انفرااسٹرکچر کے تابع کردیا ہے۔

چین کی معاشی ترقی اور بین الاقوامی تجارت میں افزائش کے لیے بین البر اعظمی انفرااسٹرکچرکی تعمیر نے ان ابھرتی ہو ئی معیشتوں کو نہ صرف اپنی قومی معیشتوں کی ترقی کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے بلکہ مستقبل میں اسے مزید تیز کرنے کی امید فراہم کی ہے۔برکس کے عالمی پروفائل میں اضافے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کی اس کی طرف رجوع کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔

سامراجی ممالک نے1945میں اپنے معاشی تحفظ اور تیسری دنیا کے وسائل لوٹنے کے لیے(Bretton Woods System)کے تحت جونظام قائم کیا تھا‘ اس میں اب بھی ورلڈ بینک‘IMFپر مشتمل عالمی معاشی نظام میں ان سامراجی ممالک کا کنٹرول ہے ‘مثلاً برکس کے موجودہ پانچ رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کاعالمی معاشی نظام میں امریکا سے زیادہ حصہ ہے لیکن IMF کے ووٹنگ سسٹم میں امریکا کا کوٹہ ان ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

دنیا کی اہم معیشتوں کی طرف سے پرانے سسٹم کی مخالفت کا علم ان طاقتوں کو بھی ہے ‘حالیہ G-20 ممالک کی کانفرنس جو انڈیا میں منعقد ہوئی میںاپنے ابتدائی خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے واضح اعلان کیا کہ دنیا میں اب برٹن ووڈز کا سسٹم نہیں چل سکتا ‘اس لیے اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق برکس کی رکنیت میں چھ ممالک کا اضافہ چین کے اصرار پر کیا گیا ہے اور ابھی اس میں گلوبل ساؤتھ کے مزید ممالک کی شمولیت کا امکان ہے ‘اگر یہ بات درست ہے تو اپریل میں سعودی عرب اور ایران کی مصالحت کے بعد چین کی اس خطے میں یہ دوسری بڑی سفارتی اور سیاسی کامیابی ہے کیونکہ شمولیت اختیار کرنے والے ممالک میں مصر اور ایتھوپیا بھی شامل ہیں‘ جن کو ان کی اھم جغرافیائی لوکیشن کی بنا پر برکس میں شامل کیا گیاہے۔

مصر‘جس کو اس کی جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے بعض تجزیہ نگار دنیا میں سب سے اہم ملک قرار دیتے ہیں‘اس کی برکس میں شمولیت سے بحیرہ روم اور شمال مغربی افریقہ تک رسائی مل جائے گی۔ان ممالک پر مشتمل بحیرہ روم کی مشرقی پٹی نے یورپ کے دفاع اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ‘ایتھوپیا نہ صرف آبادی کے لحاظ سے افریقہ کا دوسرا سب بڑا ملک ‘بلکہ شمال مشرقی افریقہ ‘جسے (Horn of Africa)بھی کہا جاتا ہے کے ساتھ ملنے والے بحیرہ احمر (Red Sea)کی ساحلی پٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے برکس کو بحر ہند کی دفاع اور سیکیورٹی کی حکمت عملی میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر کا مقام حاصل ہو جائے گا۔

سعودی عرب اور UAEکی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ تیل کی آمدنی سے مالامال ممالک اب اپنے فاضل سرمائے کو امریکا اور مغربی یورپ کی منڈیو ںکے بجائے ‘جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ممالک میں انویسٹ کریں گے جہاں قدرتی اور معدنی وسائل بے شمار ہیںمگر سرمائے کی کمی کی وجہ سے ان سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔

امریکا کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ایران کی برکس میں شمولیت ہے ‘جسے دنیا میں الگ تھلگ کرنے کے لیے امریکا برسوں سے کوشاں ہے ‘پابندیوں کے حوالے سے امریکا کو ایران کے علاوہ روس کے محاذ پر بھی یوکرین کے مسئلے پر ہزیمت کا سامنا ہے ‘یوکرین کے مسئلے پر امریکا نے روس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں لگا کر اس کی معیشت کو تباہ کرنے کو کوشش کی‘لیکن یہ دونوں ممالک اب دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ساتھ ترقی کرنے والی تنظیم برکس میں موجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔