طاقت کا سراب

مقتدا منصور  اتوار 18 مئ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

دیگر منفی تصورات کی طرح ہم پاکستانیوں کے ذہن میں یہ بات بھی بیٹھ گئی ہے کہ ہماری قومی سلامتی اور بقا کے لیے تباہ کن اور انسانیت سوز اسلحہ (Weapons of Mass Destruction) انتہائی ضروری ہے۔ معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ بھارت میں بھی عوام کی اکثریت اسی سوچ کی حامی ہے اور جوہری ہتھیاروں کو اپنی دھرتی کے تحفظ کا ضامن سمجھتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان روایتی اسلحے کے علاوہ جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے دوڑ جاری ہے۔

حالانکہ جدید دنیا کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قومی سلامتی اور بقا حساس اور خوفناک ہتھیاروں کے بجائے معاشی ترقی، اعلیٰ درجہ کی شرح خواندگی اور سیاسی و سماجی استحکام میں مضمر ہوتی ہے۔ مگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ بلکہ مسلسل اس بات پر اصرار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور ان میں اضافہ قومی سلامتی کے لیے اشد ضروری ہے۔یہی وہ Mindset ہے، جس کے نتیجے میں مئی 1998ء میں پہلے بھارت اور پھر پاکستان نے یکے بعد دیگرے کئی جوہری دھماکے کیے۔

ان دھماکوں کے بعد سے یہ سوال برصغیر کے ہر متوشش شہری کے ذہن میں کُلبلا رہا ہے کہ ایسے دو ممالک جہاں عوام کی اکثریت نانِ شبینہ کو ترستی ہو، 40 فیصد کے قریب آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو، جہاں 70 فیصد افراد پینے کے صاف پانی کو ترستے ہوں، جہاں 35 فیصد خواتین اس لیے مر جاتی ہوں کہ انھیں دوران زچگی مناسب ادویات اور غذا تک رسائی نہ ہو، جہاں 30 فیصد بچے مناسب طبی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جوہری ہتھیاروں پر انحصار اور بڑھتا ہوا جنگی جنون کروڑوں مفلوک الحال اور لاچار انسانوں کے ساتھ بھیانک مذاق کے سوا کچھ اور نہیں۔

انسانی تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریاں پہلی مرتبہ 6 اور 9 اگست 1945ء کو اس وقت دنیا کے سامنے آئیں، جب دوسری عالمی جنگ کے اختتامی ایام میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بموں سے حملہ کر کے انھیں تباہ کیا۔ پہلے حملے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد موقع ہی پر ہلاک ہوئے جب کہ اس سے دگنی تعداد میں مفلوج ہوئے۔ اطراف کے علاقوں میں پھیلنے والی تباہی اس کے سوا تھی۔ جہاں لوگ مختلف نوعیت کے جسمانی نقصانات کا اس طرح شکار ہوئے کہ لاکھوں لوگ اپنے اعضا سے محروم ہو گئے۔ ایسے افراد کی تعداد بھی کسی طور لاکھوں سے کم نہیں تھی۔

تین روز بعد دوسرا ایٹم بم صنعتی شہر ناگاساکی پر گرایا گیا۔ وہاں بھی پہلے روز دو سے ڈھائی لاکھ افراد جاں بحق ہوئے اور کم و بیش اتنی ہی تعداد مفلوج ہوئی۔ لیکن اس صورتحال کا دوسرا بھیانک پہلو یہ ہے کہ تقریباً 70 برس ہونے کو آ رہے ہیں، لیکن تابکاری کے اثرات آج بھی ان دونوں شہروں کے اطراف کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسان، چرند، پرند اور نباتا ت میں ان کے اثرات نے مختلف مہلک بیماریوں کو جنم دیا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں انسانیت نواز سائنسدان اور دانشور اس صورتحال پر خاصے مضمحل چلے آ رہے ہیں۔

وہ مسلسل اپنے مضامین، مقالوں اور مختلف مذاکروں میں ہونے والے مباحثوں کے ذریعے دونوں ممالک کے حکمرانوں کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ مہلک جوہری ہتھیاروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ان کے لیے مختص کی جانے والی خطیر رقم تعلیم، صحت اور سماجی بہبود جیسے ترقیاتی منصوبوں پر صرف کی جائے تو پورے خطے میں سیاسی اور تزویراتی استحکام کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں، جو خوشحالی کے ایک نئے دور کی نوید بن سکتی ہے۔

اس کے برعکس جوہری ہتھیاروں پر انحصار مختلف نوعیت کی تباہیوں کے دروازے کھولنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ ہتھیار نہ صرف معاشی بوجھ ہیں، بلکہ ان کا دانستہ یا نادانستہ استعمال پورے خطے کو ایک ایسی ہولناک تباہی سے دوچار کر سکتا ہے، جس کا تصور بھی محال ہے۔ملک کے معروف سائنسدان اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر عبدالحمید نیر نے پاکستان اور بھارت کے چند انتہائی نامور انسانیت نواز سائنسدانوں، سماجی ماہرین اور قلمکاروں کی تحریروں کا انتخاب کر کے ان کا اردو ترجمہ ’’طاقت کا سراب‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔

اس کتاب کے لیے جن سائنسدانوں اور سماجی ماہرین کی تحاریر کا انتخاب کیا گیا ہے، ان میں ڈاکٹر پرویز امیر علی ہود بھائی، ڈاکٹر ضیا میاں، آر راجہ رامن، ایم وی رامنا، سریندر اگاڈیکر، سووات راجو اور میتھیومیکنزی کے علاوہ خود ڈاکٹر نیر کا اپنا مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب کے بارے میں انسانی حقوق کے سرگرم رہنما آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ ’’اس کتاب کی دو بڑی خوبیاں واضح ہیں۔ اول یہ کہ مصنفین نے اپنے نقطہ نظر کی بنیاد علمی تحقیقی کے اعلیٰ ترین معیار پر رکھی ہے۔ ان کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ دوم یہ کہ عوام سے خطاب کے دوران انھوں نے جذبات کے مقابلے میں ٹھوس عقلیات کا سہارا لیا ہے۔‘‘

کتاب میں جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ بھی خاصے فکر انگیز ہیں۔ مثلاً جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ: تباہی کے چند اندازے۔ اس مضمون میں سائنسی حوالوں اور اعداد و شمار کی مدد سے اس تباہی کا تخمینہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو کسی ممکنہ جوہری حملے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ دوسرا مضمون جو آر راجہ رامن کا تحریر کردہ ہے اور جس کا عنوان جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں سے لاحق خطرات ہے۔ اس مضمون میں جوہری جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

ایٹمی حملے کی صورت میں شہری دفاع کے عنوان سے شامل مضمون تین مصنفین کا تحریر کردہ ہے، جس میں آر راجہ رامن، ضیاء میاں اور عبدالحمید نیر شامل ہیں۔ یہ ایک اور فکر انگیز مضمون ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی حملے کی صورت میں شہری دفاع کے محکمے کو کس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھا مضمون جو بھگتنا پڑا ہے: ایٹمی ٹیکنالوجی کے ماحول اور صحت پر مضر اثرات ایم وی رامنا اور سریندراگاڈیکر کا تحریر کردہ ہے۔ اس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ماحولیات اور جانداروں کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پانچواں مضمون میزائل حملوں سے بروقت تنبیہہ: پیشگی خبردار کرنے کے نظام کی محدود افادیت میں میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات کے علاوہ ان کے استعمال کے مضر اثرات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں پر کمانڈر اور کنٹرول کے عنوان سے ضیاء میاں کا مضمون اس ٹیکنالوجی کی مختلف جہتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پرویز ہود بھائی کا مضمون پاکستان کا ایٹمی سفر بہت سے دیدہ اور نادیدہ کہانیاں پیش کرتا ہے۔ ایم وی رامنا سائنسدان اور بھارت کا جوہری بم میں بھارت کے ان سائنسدانوں کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کیا ہے، جو جنگ باز ذہنیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح پرویز ہود بھائی کا مضمون پاکستانی فوج میں دراڑ: کیا ایٹمی اسلحہ محفوظ ہے، کے عنوان سے بہت سے سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اس مضمون میں بہت سے ممکنہ خدشات پر بھی بحث کی گئی ہے۔

ڈاکٹر نیر اور ضیا میاں کا مضمون میدان جنگ میں ایٹمی ہتھیار: ایٹمی ہتھیاروں کی محدود افادیت کے عنوان سے جوہری ہتھیاروں کی محدود افادیت پر انتہائی مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ایٹمی سیاست کی بازی گری: ایٹمی مواد کی پیداوار روکنے کا معاہدہ اور پاکستان کے عنوان سے ڈاکٹر نیر اور ضیاء میں ایک اور مضمون شامل ہے، جس میں عالمی سطح پر ہونے والی ان کوششوں پر گفتگو کی گئی ہے، جن کے نتیجے میں یورینیم کی افزودگی کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا: مستقبل کے بارے میں چند قیاس آرائیاں، امریکا، عالمی غلبہ اور بین الاقوامی ترک اسلحہ کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں بجلی کے مسائل اور ایٹمی توانائی پر مضامین شامل ہیں۔

اس کتاب کے بارے میں معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق رحمان کہتے ہیں کہ ’’یہ کتاب ہم کو وہ سچائیاں کھول کر بتاتی ہے، جو عام آدمی کو بالکل معلوم نہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ہاتھ آ گئے تو بہت محفوظ ہو جائیں گے۔ جب کہ سائنسدان یہ بتاتے ہیں کہ ہم محفوظ نہیں ہوں گے۔ چونکہ ایسے بھی مسئلے ہیں، جن کی ہم کو خبر نہیں۔ میرے خیال میں یہ کتاب سب لوگوں پر پڑھنا لازم ہے، تا کہ ہم جذبات میں بہہ کر غلط قدم نہ اٹھالیں۔‘‘ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’’اردو زبان میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر تصانیف تقریباً ناپید ہیں۔

ایسے میں فزکس کے ماہرین کی جانب سے عام فہم، لیکن ٹھوس سائنسی دلائل پر مبنی مضامین کا یہ مجموعہ اردو کے قارئین کے لیے ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔ اس میں شامل ایٹمی ٹیکنالوجی کے متعدد پہلوئوں کا تکنیکی جائزہ پڑھنے والوں پر ایسی نئی جہتیں عیاں کرتا ہے، جن کا علم ایٹم بم سے لیس ممالک کے عوام کو ہونا چاہیے، تا کہ آگہی کی بہتر سطح سے نفع نقصان کا اندازہ آپ خود لگا سکیں۔‘‘ اس اہم کتاب کا ہر پاکستانی کو مطالعہ کرنا چاہیے، تا کہ انھیں جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کے بارے میں حقائق کی جانکاری ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔