انمول رشتے

وجاہت علی عباسی  اتوار 18 مئ 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

زندگی تیز تیز چل رہی ہے لیکن جب تک کوئی چیز حرکت کرتی نظر نہیں آتی دل اس کے چلنے، اس کی رفتار پر شک کرتا ہے۔ میں نے دیکھا نہیں تو مانوں کیسے؟ دنیا چل رہی ہے یعنی گھوم رہی ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی دنیا کو اپنی آنکھوں سے گھومتے نہیں دیکھا ہے، پھر بھی اس پر یقین اس لیے ہے کیونکہ اسکول کے پہلے دن سے سب ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ دنیا گھوم رہی ہے۔

اگر کوئی ہم سے پہلی کلاس میں بغیر زبردستی کیے ہماری رائے پوچھتا تو ہم اس بات پر ڈٹ جاتے کہ دنیا ہرگز نہیں گھوم رہی۔ یہی انسان کی فطرت ہے، اسی لیے کئی جگہ تاریخ کے صفحوں پر یہ لکھا گیا ہے کہ وہ شخص کہ جس نے پہلی بار یہ دریافت کیا تھا کہ دنیا گھوم رہی ہے اس زمانے کے عالموں سمیت حکمرانوں نے اسے پاگل قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔

دنیا کی سب سے تیز رفتار کار کا نام ’’فراری‘‘ ہے۔ تیز رفتار چلنے کے باوجود فراری بنانے والوں نے کار کی سیٹ، ٹائرز اور پوری باڈی کو ایسے ڈیزائن کیا ہے کہ ایک اچھی سڑک پر دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی میں بیٹھے مسافر کو رفتار تیز محسوس نہیں ہوتی، بس کچھ ایسی فراری سی ہی ہے زندگی ہماری۔ یہ تیزی سے گزر جاتی ہے اور ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔

بچپن میں گھر میں کئی لوگ تھے مجھے پیار کرنے والے ماں باپ، دادا دادی، بہن بھائی، کئی انمول رشتے، میں نے وقت پر کھانا کھایا ہے سے لے کر امتحان کا پرچہ دینے جانے سے پہلے مجھے ’’گڈلک‘‘ کے لیے دہی اور چینی کھلانا اور پھر مجھ سے زیادہ میرے اچھے رزلٹ کے لیے دعا کرنا، ابا کا راتوں کو جاگنا کہ میری طبیعت خراب تھی اور امی کا میرے لیے ہر وہ چیز پکانا جو مجھے پسند تھی، دادی کا مجھے کہانی سنانا، جس کی وجہ سے یہ دنیا وہیں آنگن میں بیٹھے بیٹھے میرے لیے جادوئی دنیا بن جاتی اور دادا کا مجھے کئی سال کا تجربہ ہر شام کچھ باتیں بتاکر سونپ دینا۔

مجھے ہر قدم ساتھ چلانے والے میرے بہن بھائی جن کی وجہ سے مجھے کبھی بھی اکیلے ہونے کا احساس نہیں ہوا، میرے ساتھ کھیلتے، پڑھائی میں مدد کرتے اور کوئی شرارت کرتے پکڑا جاؤں تو سزا سے بچاتے۔ یہ سب تھا میرے پاس میرے بچپن میں اور میں۔۔۔۔ میں نے وقت کے وہ حسین لمحے یہ سوچتے گزار دیے کہ اگر میرے پاس میرا اپنا کمرہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ اگر مجھے اپنی سائیکل شیئر نہیں کرنی ہوتی تو زیادہ مزہ آتا، اسی طرح کی کئی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں میری بچپن کی چھوٹی سی عمر ’’فراری‘‘ پر سوار گزر گئی۔

وہ جس سے آدھی سے زیادہ دنیا کے نوجوان محروم ہیں وہ تعلیم مجھے نصیب ہوئی۔ کالج، اسکول اور پھر یونیورسٹی کتنے ہی قابل اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا مجھے۔ اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں مختلف بیک گراؤنڈ سے آنے والے ٹیچرز دنیا بھر کا تجربہ اور مشاہدہ کلاس روم میں ہمارے لیے لے آتے اور میں وہیں کلاس روم میں بیٹھے بیٹھے ان ٹیچرز کے ذریعے دنیا کے بارے میں اتنا کچھ سیکھ لیتا جو کسی بھی انسان کا محض اپنے تجربے کی دنیا پر سیکھنا ناممکن ہے۔

ایک دریا تھا میرے پاس علم کا جس میں ہاتھ ڈال کر اپنی تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے جتنا علم چاہتا سمیٹ لیتا اور دریا کے پانی میں کمی نہیں آتی۔ کئی سال ہر روز مجھے زندگی نے وہ دن دکھایا جس میں کوئی اور ذمے داری نہیں تھی میرے اوپر، میں صرف ایک طالب علم تھا جو زندگی میں جتنا چاہتا سیکھ سکتا تھا اور میں وہ سارے ہی دن اس فکر میں گزارتا رہا کہ اگر سبق یاد نہیں کیا تو ٹیچر ڈانٹیں گے یا پھر کہیں اسائنمنٹ کی تاریخ نہ نکل جائے اور ہر جماعت کو ایک بوجھ سمجھنا جسے پار کرنا ایک مجبوری اور مصیبت ہوتی۔ وہ سال جو مجھے لگتے تھے کہ کبھی ختم نہیں ہوں گے ’’فراری‘‘ پر سوار میری زندگی نے انھیں پلک جھپکتے گزار دیا۔

میں آزاد تھا اگر ماضی میں ایک بھرپور بچپن اور لڑکپن کے دن تھے تو ابھی آدھی سے زیادہ زندگی میرے آگے تھی۔ میں کچھ بھی کرسکتا تھا دنیا میں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے بڑے خواب دیکھ کر اور بہت سی محنت سے لوگ حکیم محمد سعید بنتے ہیں۔ حالات موقع اور حدود کا سہارا کمزور لوگ لیتے ہیں، ہر زمانے میں نوجوانوں کو بھی کسی نہ کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ ان مشکلوں کو بہانہ بناتے ہیں زندگی میں کامیابی حاصل کر پانے کی۔

جب ایک بارہ سالہ لڑکا یہ ٹھان لیتا ہے کہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنوں گا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک پاتی۔

میں بھی اسی عمر میں تھا جہاں میں چاہتا تو علامہ اقبال کے شعر ’’خودی کو کر بلند اتنا‘‘ کے سہارے کچھ بھی کرسکتا تھا اور میں مشکلوں سے ڈرتا ’’اگر مگر‘‘ میں آگے بڑھنے کے بجائے زندگی کے ہر موڑ پر بریک لگاتا گیا لیکن اس بریک کا زندگی کی ’’فراری‘‘ پر اثر نہیں پڑا اور وہ اپنی رفتار کا رنگ میرے بالوں کی سفیدی میں دکھانے لگی۔

انسانی زندگی میں سب سے انمول چیز ہوتی ہے رشتے۔ کسی بھی کمائی، کسی بھی کامیابی سے زیادہ ضروری رشتے۔ کچھ رشتے ماضی ہوئے تو کچھ رشتے حال ہوئے، بیوی بچے کتنے نئے نام اور چہرے دنیا کے سب سے اہم لوگوں میں شامل ہوگئے وقت کے گزرتے بہائو میں۔ میرا خیال رکھنے والی بیوی جو میری بات کسی بھی اور سے پہلے سمجھ جاتی، میری ہر ضرورت اور آرام کا خیال رکھتی، میری بیٹی جو اپنے ابو کے لیے ساری دنیا کی خوشیاں سمیٹ کر اس ایک چپاتی میں لے آتی جو روز رات وہ میرے لیے کھانے کی میز پر مسکراتے ہوئے رکھتی۔

میں مضبوط تھا کیوں کہ میرا بیٹا میرے ساتھ تھا، کسی بھی بھاری چیز کو ہلانا مشکل تھا تو فوراً بیٹے کو آواز دینے پر کبھی میں نے خود کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط محسوس کیا۔ یہ سب ہی مجھے میری زندگی میں ملا اور میں۔۔۔۔ اپنا زیادہ تر وقت اس پریشانی میں گزارتا رہا کہ ہر مہینے کا خرچہ کیسے چلے گا؟ بیٹی کی شادی کی فکر، بیٹے کی بہتر نوکری لگ پائے گی یا نہیں۔ سب ہی دیر سویر ہوگیا اور ساتھ ہی ’’فراری‘‘ پر سوار میری زندگی کے اس قیمتی وقت کو میں نے مشکل زندگی سوچتے گزار دیا۔

زندگی چل رہی ہے، اس سچ کا مجھے بغیر دیکھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ کسی بھی لمحے رکتی نہیں۔ ایک ایک سانس انسان کے لیے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہوتی ہے۔ ان سانسوں کے لیے کتنے لوگ ترستے ہیں، مجھے اﷲ تعالیٰ نے زندگی کے کئی سال عطا کیے ایک بھرپور زندگی، کتنی خوشیاں تھیں زندگی میں، کتنے قہقہے کتنے لمحے ایسے جیے میں نے اس زندگی میں جو دنیا کے کسی بھی خزانے سے نہیں خریدے جاسکتے۔ اور میں کہ جب زندگی ختم ہونے کے قریب ہے تو سوچتا ہوں مجھے زندگی نے کئی چیزیں کرنے کا موقع نہیں دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔