تمام غیرقانونی تارکین وطن کو نکالا جائے

جمیل مرغز  جمعـء 3 نومبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں متواتر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے افغان مہاجرین کو پاکستان اور خیبر پختونخوا سے نکالا جائے‘ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں اور خاص کر شمالی خیبر پختونخوا ‘ سابقہ فاٹا اور جنوبی خیبر پختونخوا میں لاکھوں افغان مہاجریں قیام پذیر ہیں چونکہ ان میں اکثریت افغانستان کے ان مہاجرین کی ہے، جنہیں پختونوں سمجھا جاتا ہے۔

شروع میں افغانستان سے مہاجر بن کر آنے والوں کو خیبر پختونخوا اور بوبلوچستان تک محدود رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ یہاں پر ان کے لیے مہاجرکیمپ بنائے گئے ‘ان کو مفت راشن بھی دیا جاتاتھا اور ساری دنیا کے امیر ممالک کی طرف سے آئے ہوئے تحائف مثلاً کمبل ‘خیمے‘گھی اور کھانے کا سامان ‘ فرنیچر وغیرہ بھی دیا جاتا تھا ‘یوں پاکستان میں ان افغان مہاجرین کی بڑی آؤ بھگت ہوتی تھی۔

یہ لوگ افغانستان میں کشیدہ حالات کی وجہ سے اپنے علاقے چھوڑ کر پاکستان کی طرف  آئے‘ افغانستان کے اندر علماء بھی اپنے خطبوں میں سادہ لوح افغان باشندوں کو ڈراتے رہے کہ روسی کافر آرہے ہیں اس لیے دیہات خالی کرکے پاکستان چلے جاؤ ورنہ افغانستان میں تمہاری ماؤں، بہنوں اور بچیوں کی عزت محفوظ نہیں رہے گی، اگر وہ راضی نہ ہوتے تو افغان مجاہدین ان کے گھروں پر حملہ کرتے تھے تاکہ یہ لوگ خوفزدہ ہوکرپاکستان چلے جائیں جہاں ان کے لیے مخصوص مقامات پر کیمپ بنائے گئے تھے۔

افغانستان کی انقلابی حکومت کی دعوت پر سوویت یونین کی فوج سامراجی سازشوں سے ثور انقلاب کو بچانے کے لیے افغانستان آگئی تھی۔

جب سوویت یونین جینوا معاہدے کے تحت افغانستان سے چلا گیا تو سامراجی ممالک کا مقصد بھی پورا ہوگیا اور وہ بھی بوریا بستر گول کرکے غائب ہوگئے اور افغانستان کے مہاجرین اور مجاہدین کا کمبل پاکستان سے لپٹ گیا۔

افغانستان کے اندر محشر برپا ہوا‘ افغان مجاہدین نے افغانستان کی اینٹ کی اینٹ بجا دی ‘ عبوری حکومت ضرور قائم ہوئی لیکن باہمی لڑائی بند نہ ہوسکی ، آخر میں افغانستان کی مذہبی جماعتوں اور سوویت یونین اور انقلابی افغانستان کی فوج کے ساتھ لڑے والی مجاہدین بھی رخصت ہوگئے ، یوں افغانستان میں طالبان کا دور آیا ‘اس وقت بھی افغانستان میں بدامنی رہی۔

اس خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے سہولت کاروں کو انھیں افغانستان واپس نہ بھیجنے کا جواز فراہم مل گیا‘ یوں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی کمزور پالیسی اور بدعنوان سرکاری ملازمین کی ملی بھگت سے افغان پناہ گزینوں کی اکثریت مہاجرین کیمپوں سے نکل کر پہلے خیبرپختونخوا اور پھر پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں پھیل گئے۔

نادرا کے افسروں اور ملازمین کی بدعنوانی، رشوت ستانی اور مقامی لوگوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث افغان مہاجر پاکستان کے شناختی کارڈ ز بنوانے میںبھی کامیاب ہونے لگے‘ خوشحال افغانیوں نے یہاں جائیدادیں بھی خرید لی ہیں اور کاروبار کرنے لگے۔ اس وقت پاکستان کی وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں لمبی تان کر سوتی رہیں۔ اس وقت عالمی اداروں سے مل کر مہاجرین کی واپسی کا راستہ تلاش کیا جا سکتا تھا۔

بہرحال افغان پناہ گزینوں کی آمد و رفت کا ریکارڈ رکھنے کے لیے تو افغان کمشنریٹ قائم ہے ‘ان کو واپس بھیجنے کی باتیں بھی صحیح لیکن دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں صرف افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن قیام پذیر ہیں؟ دیکھا جائے تو پورا پاکستان مہاجرستان بن چکا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی میں چالیس پچاس لاکھ سے بھی زیادہ غیر قانونی تارکین وطن رہ رہے ہیں‘ وہ وہاں کاروبار کررہے ہیں، جس کا دل چاہتا ہے وہ منہ اٹھاکر پاکستان چلا آتا ہے ‘کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں‘ کراچی میں افغانستان ہی نہیں ، بنگلہ دیش‘ برما اور ہندوستان کے مختلف علاقوںسے غیر قانونی طورپر آنے والے لوگ آباد ہوتے ہیں۔

یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے جاری ہے۔مارشل لاء لگانے کے بعد جنرل ضیاء الحق حیدر آباد جیل میں قید کالعدم نیپ کے لیڈروں سے ملاقات کے لیے گئے‘ انھوں نے مختلف لیڈروں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں‘خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل نے ان سے بہت مختصر بات کی ‘بزنجو صاحب کا نمبر آیا تو جنرل صاحب نے ان سے کہا کہ اب ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے ۔

میر صاحب نے جواب دیا ’’ہاں مارشل لاء کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیںگے، صرف ایک شرط پر ‘‘۔ وہ کیا ؟ جنرل صاحب نے استفسار کیا۔ میر صاحب نے جواب دیا ’’ویسے تو ساری دنیا کے مہاجر پا کستان آگئے ہیں، اب صرف ویت نام کے کشتی والے مہاجر (boat people)باقی ہیں، ان کو بھی لاکر یہاں بسایا جائے اور اس ملک کانام’’ مہاجرستان‘‘ رکھا جائے تو حالات اور بھی شاندار ہو جائیں گے۔‘‘

6دسمبر 2008کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ ہو۔’’دنیا کے صرف 14ممالک کے باشندوں کو پاکستان آمد پر رجسٹریشن کا پابند کیا گیا ہے‘جب کہ باقی ماندہ ممالک کے شہریوں پررجسٹریشن کی کوئی پابندی نہیں ہے اور یہ پاکستانی شہریوں کی طرح ائر پورٹ سے باہر آجاتے ہیںجس کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے زیادہ تر غیر ملکیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ‘کراچی میں سندھ پولیس کے سپیشل برانچ کے فارنررجسٹریشنز سیکشن (foreigners registration section)کے اعداد و شمار کے مطابق رجسٹریشن سے مستثنی ممالک میں سب سے زیادہ افغانستان کے باشندے پاکستان آتے ہیں۔

افغان باشندوں کے پاس زیادہ تر پاکستانی پاسپورٹ ہوتے ہیں‘یہی حال بنگلہ دیشی باشندوں، بہاریوں اور برمی باشندوں کا ہے اور اس وجہ سے ان کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی ‘سندھ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے بعد بنگلہ دیش‘برما‘ نائیجیریا‘تنزانیہ‘جنوبی افریقہ‘ یوگنڈا‘زمبیا ‘یوکرائن‘ کینیا اور ایران سے آنے والے شہریوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔

بھارتی باشندوں کے لیے پاکستان میں آنے کے لیے رجسٹریشن کی پابندی ہے، اس کے باوجود وہاں سے لوگ آکر پاکستان میں مسقتل قیام پذیر ہوجاتے ، کئی یہاں شادی کرکے شہری بن جاتے ہیں اور کئی کرپٹ مافیا کی مدد سے شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان خصوصاً کراچی کو ان غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کے چنگل سے آزاد کرایا جائے ‘اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ افغان کمشنریٹ کی طرز پر ’’انڈین مہاجر کمشنریٹ‘‘ کا قیام بھی عمل لائے ‘ غیر قانونی عناصر کو خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو فوراً ملک بدر کیا جائے۔

پاکستان کو ’’مہاجرستان‘‘ بننے سے روکا جائے ‘اب تو یہاں یمنی، شامی، عراقی‘ سوڈانی ، صومالی ، چیچن‘ یغور چینی ‘ازبک ‘تاجک ‘مصری‘لیبیا والے اور نہ جانے کہاںکہاں کے باشندے مقیم ہیں‘ پاکستان کو بچانے کے لیے ان سب کو نکالنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔