سسٹرزیف ؛ عزم وہمت اور جہدِمسلسل کی قابل فخر مثال

ایاز مورس  اتوار 3 دسمبر 2023
’’گلوبل ٹیچر پرائز 2023‘‘ جیتنے والی پاکستانی ٹیچر رفعت عارف کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

’’گلوبل ٹیچر پرائز 2023‘‘ جیتنے والی پاکستانی ٹیچر رفعت عارف کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

زندگی میں بڑے خواب اور بلند عزم کی کہانیاں اکثر کتابوں میں پڑھنے اور فلموں میں دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن جب اپنے آس پاس موجود ایسی بے مثال کہانیوں کے منظر عام پر آنے پر ہم حیران رہ جاتے ہیں، جو جینے کے لیے نئی اُمید، آگے بڑھنے کے لیے توانائی، محنت کرنے کے لیے ہمت، ترقی کرنے اور مستقل مزاج رہنے کے لیے جستجو فراہم کر تی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ جہاں مجھے ایسی حقیقی اور اپنے معاشرے کی کہانیوں کی تلاش رہتی ہے وہیں یہ کہانیاں بھی مجھے ڈھونڈتی ہیں۔ اس مضمون میں بھی آپ کی ایک ایسی ہی حقیقی، قابل فخر اور کام یابی کی مثالی کہانی بلکہ شخصیت سے ملاقات کروائیں گے۔

جنہوں نے ناممکن حالات، محدود وسائل اور بے شمار مسائل کے باوجود دُنیا میں ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ ایک پاکستانی، مسیحی اور عورت دُنیا میں کسی بھی میدان میں کسی سے کم نہیں ہے۔ گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی پاکستانی ٹیچر رفعت عارف جو کہ اب سسٹر زیف کے نام سے معروف ہیں، کو گذشتہ دنوں دُنیا بھر کے اساتذہ میں سے بہترین استاد یعنی ’’گلوبل ٹیچر پرائز 2023‘‘ کا ایوارڈ اور ایک ملین ڈالر کا انعام دیا گیا ہے۔

اس ایوارڈ کی بدولت سسٹر زیف کو دُنیا بھر میں بھرپور پذیرائی ملی، قومی سطح پر وزیراعظم اور دیگر لوگوں نے بھی ان کی اس کام یابی کو خوب سراہا۔ میں نے بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سسٹر زیف کے اسکول میں ان سے انٹرویو کرنے کے لیے خصوصی طور پر گوجرانوالہ پہنچ گیا، جہاں سسٹر زیف سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ان کے اسکول کا دورہ اور ان سے تفصیلی انٹرویو کیا، جس کا خلاصہ اس مضمون کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

سسٹر زیف نے اپنے بچپن کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک میری عزتِ نفس اور انسانی وقار ہمیشہ سب سے زیادہ اہم رہے ہیں۔ آج تعلیمی اداروں میں قانون بن چکا ہے کہ اساتذہ بچوں کو مار نہیں سکتے لیکن ہمارے دور میں یہ عام سی بات تھی۔ اکثر اساتذہ بچوں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ خاص طور سے وہ بچے جن میں تھوڑا بہت اعتماد ہوتا تھا، وہ بچے جو سوال پوچھتے سکتے تھے، اساتذہ کی طرف سے تذلیل کا نشانہ بنتے تھے۔

مجھے میرے اساتذہ نے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے میں نے ساتویں جماعت میں اسکول چھوڑ دیا اور اپنی گلی محلے کی بچیوں کو جو میری ہم جماعت تھیں، جمع کیا اور کہا کہ ہم خود پڑھیں گے اور ساتھ ہی میں ان کو روزانہ کی بنیاد پر ایک کام دینا شروع ہوگئی۔ میں نے ان سے کہا کرتی تھی آپ کے ذہن میں کوئی بھی سوال آئے تو مجھ سے پوچھنا ہے۔

میں خود اپنی استاد بن گئی، جب وہ مجھ سے سوال پوچھتی تھیں، تو میں بہت ساری کتابیں پڑھتی تھی، اخبار روزانہ پڑھتی تھی، خود کو اپڈیٹ رکھنے کے لیے خبریں لازمی سنتی تھی۔ ان تمام ذرائع کی وجہ سے مجھے نالج ملنا شروع ہوئی۔ جب میں بچوں کو ان کے سوالوں کے صحیح جواب دیتی تھی تو وہ ان کے لیے بہت عجیب بات تھی کیوںکہ ان کے اردگرد کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ تعلیم کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ اپنے گھر کے صحن سے میں نے اس تحریک کا آغاز کیا۔ اپنے گھر کی دیوار کے پیچھے اسکول کا نام لکھوا دیا اور لوگوں کے گھروں میں جا کر بچوں کو جمع کرنا شروع کردیا، اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میرے پاس 120 بچے تھے۔

گھر کے صحن سے اس زبردست اور متاثرکن کہانی کا آغاز ہوا۔ میں نے شروع سے ہی تعلیم کو کسی ایک کمیونٹی تک محدود نہیں رکھا کیوںکہ ہم سب انسان ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ جب ہم کہتے ہیں کہ میں پاکستانی ہوں تو پھر مذہب اور حب الوطنی کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اگر پاکستان ترقی کرے گا، تو میں ترقی کروں گی، آپ ترقی کریں گے، ہم سب کو مل کر اپنے ملک کے لیے کام کرنا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہی وہ سوچ ہے جس کے تحت بچپن میں، میں نے یہ کارواں شروع کیا تھا۔

تب تو مجھے مذہب کا اتنا علم بھی نہیں تھا۔ اُس وقت تو سب ایک ہی جیسے ہوتے تھے، گھروں کی چھوٹی چھوٹی دیواریں ہوتی تھیں، دروازے سب کے کھلے ہوتے تھے اور جس کا دل کرتا تھا وہ کسی کے بھی گھر میں چلا جاتا تھا۔ کسی کو کسی سے ڈر نہیں لگتا تھا، کوئی چوری نہیں ہوتی تھی، سب آپس میں پیار محبت سے رہتے تھے۔ مذہب کا تو اب ایسے پتا چلنے لگا ہے کہ فلاں کا یہ مذہب ہے، اس کا یہ فرقہ ہے اور میرا یہ ہے۔ تب تو ایسا نہیں ہوتا تھا، لیکن جب مجھے اس چیز کا شعور آیا تو تب مجھے ساتھ میں یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے لیے اب بین المذاہب آہنگی کی اشد ضرورت ہے، وہ تب ہی ممکن ہے جب ہم مل کے کام کریں گے اور خاص طور ایک دوسرے کو علم اور شعور دیں گے۔

سسٹر زیف نے اپنے نام متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ایک تو وہ مدرٹریسا کو بہت پسند کرتی ہیں اور دوسرا یہ ہے کہ جب لوگ مجھے سسٹر کہتے ہیں تو اس سے ایک رشتہ بن جاتا ہے اور اپناپن محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے اور تبدیلی لانے کے لیے اپناپن ہونا اور قبولیت بہت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ سسٹرزیف کو یاد رکھنا بہت آسان ہے۔ یہ Zephaniah سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’خُداوند تعالیٰ حفاظت کرتا ہے۔‘‘

سسٹر زیف نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو اور بالخصوص ان بچوں کو یہاں یہ پیغام دینا چاہتی ہوں۔ آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، یہ کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ میرے والد صاحب ایک درزی تھے، ہم گاؤں میں رہتے تھے، گھر میں کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا، میں نے ساتویں جماعت کے بعد کبھی کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں لی ہے اور میں یہ کہتی ہوں کہ میرا استاد گوگل ہے۔ لیکن میں نے کبھی کہیں سے کوئی کلاسز نہیں لی ہیں، اس کے باوجود میں نے ڈبل ایم اے کیا۔

میں خود کو خود ہی روزانہ چار گھنٹے پڑھاتی تھی۔ امتحانات کے لیے خود تیاری کرتی تھی۔ اگر آج بچے کہتے ہیں کہ اب تو ایم ایس آ گیا ہے، اب کی ایجوکیشن بہت مشکل اور جدید ہوگئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے پاس ایک بہت بڑی سہولت یعنی انٹرنیٹ بھی آگیا ہے۔ انٹرنیٹ پر آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ آپ کے پاس یہ آزادی اور اختیار ہے کہ آپ اس کو جیسے چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔

آج میری آواز دُنیا تک پہنچی ہے تو اس کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ ہی ہے، کیوںکہ انٹرنیٹ کے ذریعے میں نے اپنی آواز کو دُنیا تک پہنچایا ہے۔ اب جہاں تک میرے مستقبل کے منصوبوں کی بات ہے، تو میرا بچپن سے ایک شوق رہا ہے کہ میں اپنا ڈریم اسکول بناؤں۔ 2 ہزار بچوں کے لیے اسکول بنانا چاہتی ہوں۔ مجھے اس چیز سے بھی بڑا اختلاف ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو اچھی خوراک نہیں ملتی۔

میں 10ایکٹرز پر مشتمل اسکول میں غریب ترین بچوں کو پورے پاکستان سے لے کے آؤں گی، ان کو بہترین خوراک مہیا کی جائے گی، ہم وہاں پر اپنی خوراک پیدا کریں گے، ہمارے اپنے جانور ہوں گے جن کا وہ خالص دودھ پییں گے، وہاں پر ہمارے اپنے باغ ہوں گے۔

جہاں سے وہ پھل کھائیں گے اور جہاں ایسے ٹیچرز پوری دُنیا سے دوسرے ملکوں سے بچوں کو پڑھانے آئیں گے، جنہوں نے سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو بطور مضمون پڑھا ہے۔ ویسے بھی 2050 تک 70 فی صد ملازمتیں، اے آئی سے متعلق ہوجائیں گی، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس پر توجہ مرکوزکریں اور ہمارے بچوں کے پاس پوری دُنیا کا علم ہو تاکہ وہ پوری دُنیا میں کہیں پر بھی جا کے فٹ ہو سکیں، مقابلہ کر سکیں اور کام یابی حاصل کر سکیں اور وہ بہت پُراعتماد ہوں۔

یہ میرا خواب ہے لیکن اب خُداوند نے مجھے ’’گلوبل ٹیچر پرائز‘‘ کے ذریعے چن لیا ہے کہ میں پورے پاکستان کے بچوں اور ٹیچرز کی نمائندگی کروں اور پوری دُنیا کے بچوں اور ٹیچرز کے لیے آواز بنوں۔ لیکن میری اولین ترجیح میرا اپنا ملک پاکستان ہے۔ اس ضمن میں حکومت اپنا کام کر رہی ہے لیکن یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنی آبادی کو کنٹرول نہیں کرپائے۔

اتنی زیادہ آبادی کے لیے وسائل کی بہت کمی ہے، تو اب ہمیں عالمی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے میں عالمی برادری سے یہ درخواست کروں گی کہ وہ ہم سے تعاون کریں۔ ہماری 65 فی صد آبادی نوجوان ہے اور مزید بڑھ رہی ہے۔ یہ سب خطرناک صورت حال ہے۔ ہمیں ایمرجینسی کے طور پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں وہ تعلیم دینی ہوگی جو عملی زندگی میں بچوں کی مدد کرے۔

بچوں کے لیے میں یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ کام یابی کے لیے صرف خواہش کی ضرورت ہوتی ہے، اور پھر اُس کے راستے پر چلنا ہوتا ہے۔ جو آپ نے سوچ لیا ہے اور جو ٹھان لیا، اس پر چلتے رہیں۔ آپ کو بہت سارے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا، آپ کو مشکلات اور مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، آپ کا مذاق بھی اڑایا جائے گا، لیکن ایک دن آپ اپنی کام یابی سے سب کو حیران کردیں گے، اگر آپ مستقل مزاجی سے وہ کام کرتے رہیں گے۔ دوسرا یہ کہ جو مسائل ہماری کام یابی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں وہ بنیادی طور پر اس لیے آتے ہیں تاکہ وہ ہمیں ہماری خوبیوں اور طاقت سے متعارف کروا سکیں اور ہمیں یہ بتا سکیں کہ ہم کتنے باصلاحیت ہیں۔

زندگی میں کچھ حاصل کرنے کے لیے چیلنجز سے مت گھبرائیں۔ اساتذہ سے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ کو واقعی شعبۂ تدریس میں آنا ہے تو پھر دل و جان سے اس کام کو سرانجام دیں، کیوںکہ درس وتدریس ایک بہت بڑی ذمے داری ہے۔ یہ بہت حساس کام ہے اور اس میں آپ نسلوں اور قوموں کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ مستقبل کی تعمیر اور تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔

اپنے آپ کو ہمیشہ وقت کے ساتھ باخبر رکھیں تاکہ آپ بچوں کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر سکیں۔ تعلیم اور کام یابی حاصل کرنے کے لیے والدین کی مدد بہت ضروری ہے۔ میں جانتی ہوں والدین پہلے ہی بہت تعاون کر رہے ہیں، لیکن شاید ہمیں بچوں سے مزید تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔

سسٹرزیف نے بتایا کہ جب وہ یہ ایوارڈ وصول کر رہی تھیں، جہاں دُنیا بھر کے اساتذہ، میڈیا اور بے شمار اہم شخصیات موجود تھیں، ان سب کے درمیان جب پاکستان کا نام لیا گیا تو میرے لیے ان احساسات اور جذبات کو بیان کرنا ناممکن ہے، کیوںکہ میری وجہ سے میرے ملک کا نام اور پرچم سر بلند ہوا ہے۔

میرے لیے یہ کام یابی کسی بھی اعزاز اور ایوارڈ سے کم نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پورا پاکستان میری اس کام یابی پر خوش ہے اور میرا خاندان، کمیونٹی، میرا گاؤں اور شہر مجھ پر فخر کررہے ہیں۔ میں ان سب کے لیے خُدا کا شکر ادا کرتی ہوں، اور یہ سمجھتی ہوںکہ اگر انسان مستقل مزاجی، ایمان داری اور محنت سے کام کرتا رہے تو دُنیا میں کام یابی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔