(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کہیں آپ بھی شادی تو نہیں کرنے والی؟

سدرہ ایاز  بدھ 4 جون 2014
’’قربانی‘‘ کا لفظ عورت کی تقدیر میں نہیں لکھا ہم نے خود زبردستی اسے شامل کردیا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟۔ فوٹو فائل

’’قربانی‘‘ کا لفظ عورت کی تقدیر میں نہیں لکھا ہم نے خود زبردستی اسے شامل کردیا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟۔ فوٹو فائل

سرد شامیں اور برف لہجے دونوں ہی انسان کو اندر تک کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ میں نے کافی کے مگ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ مجھے مگ گرنے کا ڈر نہیں تھا میں اس کی گرماہٹ محسوس کرنا چاہتی تھی۔ سنا تھا زندگی گرم جوشی میں ہی ہے۔ سوچوں میں پتا ہی نہیں چلا کہ کب شام کے سائے ڈھل گئے اور رات اتر آئی۔ میں تو تب چونکی جب میری بہن نے چھت پر آ کر میرا کندھا ہلایا اور مجھے نیچے کھانا لگنے کا بتایا۔ جیسی ہی میں میز پر سے کھانا کھا کر اٹھی تو فورا ہی میری امی نے پوچھا ردا بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری؟ اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

کبھی کبھی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ پاتے۔ میں نے آنکھیں بند کر کے صوفے پر سر ٹکا دیا اور گذشتہ روز کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ عام طور جن لڑکیوں کی منگنی ہوچکی ہوتی ہے انہیں خوش نصیب تصور کیا جاتا ہے۔ خوش نصیب تو وہ واقعی ہوتی ہیں لیکن شاید حساس بھی ہوجاتی ہیں۔

کل ہی خالہ نے گھر آکر کہا تھا کہ ردا بیٹا دل مضبوط کرلو تمہاری ساس کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ اور جب میں نے پوچھا کیوں؟

تو خالہ نے کہا کہ ارے بھئی حد ہوگئی انہیں منگنی کے 2 سال بعد خیال آرہا ہے کہ انہوں نے جلد بازی کردی۔ ابھی ان کے بیٹے کی عمر ہی کیا ہے۔ ویسے بھی ان کا پورا خاندان اس رشتے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ رک ہی جاتی۔ مجھے تو تمہاری شادی کا دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہا۔

شاید خالہ کی بات پر میں کبھی نہ سوچتی مگر 2 سال بعد اس بات کا کیا جواز بنتا ہے؟ اور یہ بات کوئی پہلی بار نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی کئی بار میں نے مختلف لوگوں سے کچھ اسی قسم کی باتیں سنی ہیں۔ جیسا کہ لڑکی کی جاب کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سنا تھا مگر دیکھو پھر بھی ہم لوگوں کی باتیں خاطر میں نہیں لاتے۔ بہو میری تیز تو ہے مگر اس کے آتے ہی رونق ہوجائے گی گھر میں۔ اراداہ تو 2 سال بعد ہی شادی کرنے کا تھا مگر ابھی ہمارے حالات ہی ٹھیک نہیں ہیں نا تو اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں۔

بظاہر ہی باتیں واقعی معمولی ہی لگتی ہیں لیکن جب بارہا دہرائی جائیں۔ لہجے سرد کرلئے جائیں۔ جب خیریت کے لئے ایک فون کی بھی ضرورت محسوس نہ کی جائے۔ اور اگر غلطی سے ملاقات ہو بھی جائے تو ملتے ہی رویوں میں سرد مہری برتی جائے۔ کسی بھی لڑکی کے لئے یہ سب تکلیف دہ ہوگا۔ مان لیا یہ ساری غلط فہمیاں ایک ملاقات میں دور ہوسکتی ہیں مگر بات کی جائے گی تو بات بنے گی نہ۔

ڈور بیل کی وجہ سے میں سوچوں کے سمندر سے نکل آئی۔ میری پھوپھی اور ان کی بیٹی انعم کو دیکھ کر میں یک دم سب بھول گئی۔ دونوں شاپنگ کر کے آرہے تھے کیونکہ 3 ماہ بعد انعم کی شادی تھی۔ تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ انعم فوراََ ہی حساب کرنے بیٹھ گئی۔ میری وجہ پوچھنے کی دیر تھی پھوپھی تو جیسے بھری بیٹھی تھیں فورا بول پڑی ہاتھ کے ہاتھ حساب ہوجائے تو ہی اچھا ہے آخر کار جہیز کی روایت کو فروع دینا لڑکی والوں کا ہی تو فرض ہے۔ میں ان کی بات سن کر ہسنے لگی۔ میں نے کہا اب ایسا تو نہیں ہے پھوپھی۔ میری بات پر پھوپھی نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا کہ بیٹا تمہارا بھی وقت آئے گا تب میں پوچھوں گی۔ اب یہ نا کہنا تمہارے سسرال والوں نے جہیز کا منع کیا ہے، منع تو انعم کے بھی سسرال والوں نے کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ  ویسے تو ہم جہیز کے سخت خلاف ہیں لیکن اگر آپ خود گھر آکر دیکھ لیں کہ آپ کی بیٹی کو کس چیز کی ضرورت ہوگی تو بہتر ہے۔ اور جب ہم نے گھر جا کر لڑکے کی پوزشن دیکھی تو وہاں سوائے ایک بستر اور الماری کے کچھ بھی نہیں تھا۔ اب تم بتاؤ جہیز لاد کر دینے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ رہ گیا ہے؟

پھوپھی کی بات صحیح تھی، میں نے کہا واہ انعم کیا شائستہ انداز ہے جہیز مانگنے کا۔ یعنی منگی کے بعد شادی تک عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ تو انعم بول پڑی نہیں یار ابھی اصل امتحان تو شروع ہی نہیں ہوا۔ سارا باجی سے پوچھو امتحان ہوتے کیا ہے؟

سارا باجی ہم دونوں کی مشترکہ کزن ہیں۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ سارا باجی کی ہمارے دور کے عزیز کے بیٹے سے4 سال پہلے شادی ہوتی تھی۔ شادی کے وقت لڑکی والوں کی اتنی زیادہ خاطر تواضح  کی گئی اور انتا نرم لہجہ کہ قربان جاؤں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کی ساس نے اپنے جلوے بیکھرنے لگیں۔  ایک روز سارا باجی جیسے ہی صبح کچن میں گئی تو ان کا دم گھٹنے لگا انہوں نے فورا منیب بھائی کو بلایا اور کہا ذرا دیکھیں عجیب سی گھٹن ہورہی ہے یہاں، تب پتا چلا کہ سارے چولہے کھلے تھے اور گیس پورے کچن میں پھیل چکی تھی۔ اگر سارا باجی غلطی سے بھی ماچس جلا لیتی تو وہ آج ہم میں نہ ہوتیں۔ بعد میں سب کو ہی پتا چل گیا تھا کہ یہ ان کی ساس صاحبہ کا کمال ہے۔ اور یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا اس سے پہلے بھی وہ اس قسم کی حرکتیں کر چکی تھیں۔ شادی کے چند روز بعد ہی سارا باجی سے ان کے تمام زیور لے کر رکھ لئے، ان کے سسرال جانے پر پابندی عائد کردی بلکہ حد تو یہ ہے کہ جب سارا باجی اپنے گھر والوں سے فون پر بات کرتی تو ساس صاحبہ ان کے برابر کھڑی رہتیں۔

سارا باجی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے زندگی میں کسی سے اونچی آواز تک میں بات نہیں کی ہوگی۔ یہ ان ہی کا صبر تھا جیسے دیکھتے ہوئے منیب بھائی نے الگ رہنے کا فیصلہ کیا جس پر آج وہ بے حد خوش اور مطمئن ہیں۔

البتہ ان کی ساس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے یہ کبھی کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ منیب بھائی کے تین بڑے بھائی پہلے ہی الگ ہوچکے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے شاید انہیں پوتے کی خواہش ہے کیونکہ ان کے تین بیٹوں کے آنگن میں بیٹیاں ہی چہچہاتی تھیں۔ پوتوں کی خواہش میں انہوں نے بہوؤں کے ساتھ طنز آمیز رویہ رکھا ہوا ہے۔ لیکن سارا باجی کے دو بیٹے ہونے کے باوجود بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اب خدا جانے وہ کیا چاہتی ہیں؟

’’قربانی‘‘ کا لفظ عورت کی تقدیر میں نہیں لکھا ہم نے خود زبردستی اسے شامل کردیا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سب ان کی بیٹیوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہر ماں کو یہ وہم ہوتا کہ آنے والی بہو ان کا بیٹا چھین لے گی۔ کیا وہ یہ نہیں سوچتیں کہ لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر سسرال محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے آتی ہے۔ اگر آپ اسے اپنے دل میں تھوڑی سی جگہ  اور پیار دیں تو آپکی اپنی ہی عزت میں اضافہ ہوگا۔ ہر لڑکی کئی اندیشوں کے ساتھ سسرال آتی ہے۔ اگر سسرال والے محبت کے ساتھ اس کا مان رکھیں گے تو یقینا زندگی جنت سے کم نہیں لگے گی۔ کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔