چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے زیر التواء آڈٹ پیراز پر تفصیلی بریفنگ دی۔
چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ عام انتخابات کے ایک سال بعد قائم ہونیوالی پی اے سی کے پاس 36 ہزار آڈٹ پیراز زیر التواء ہیں، پہلے بڑی رقوم کے آڈٹ اعتراضات کو ترجیح دیں گے۔
اجلاس میں بریفنگ میں بتایا گیا کہ اجلاس میں کمیٹی ارکان نے بھی اپنی تجاویز پیش کیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 2.5 ٹریلین روپے کی ریکوری کرسکتی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پی اے سی 8 فروری کے الیکشن کے ایک سال بعد قائم ہوئی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اداروں کے آڈٹ پر توجہ دے گی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بڑی رقوم کے آڈٹ پیراز کو ترجیح دے گی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس 36 ہزار آڈٹ پیراز زیر التواء ہیں۔
پی اے سی اجلاس میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے بریفنگ دی گئی جس کے مطابق آڈٹ سے متعلق 20 مقدمات عدالتوں میں زیر التواء ہیں، پی اے سی کے سامنے 36 ہزار آڈٹ پیراز زیر التواء ہے، رولز کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو سالانہ رپورٹس بنانی ہیں، وزارت خزانہ کی جانب سے بھیجے گئے معاملات بھی کمیٹی دیکھے گی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ایک سے زیادہ ذیلی کمیٹیاں بھی بناسکتی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس کسی کو بھی طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 2.5 ٹریلین روپے کی ریکوری کرسکتی ہے، ممبران کمیٹی نے تجویز دی کہ ایک ذیلی کمیٹی کو 3 سے 4 وزارتیں دے دی جائیں۔
ممبر کمیٹی عامر ڈوگر نے تجویز دی کہ پہلے پرانے آڈٹ پیراز کو نمٹایا جانا چاہئے،حکومتی رکن طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم مل کر بیک لاگ جلدی ختم کرلیں گے، پی اے سی اس طریقے سے چلے کہ کوئی چیز بار بار ڈسکس نہ ہو۔
رکن کمیٹی شاہدہ اختر نے کہا کہ ہمیں وزارتوں کی بنیاد پر آڈٹ پیراز کو دیکھنا چاہئے، ہمیں پی اے سی میں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا، رکن ثنا اللہ مستی خیل نے کہا کہ کرپشن کے انڈیکس میں پاکستان دو درجے نیچے چلا گیا ہے، پاکستان میں کرپشن کم نہیں ہوئی بڑھ گئی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دس فیصد آڈٹ پیراز کی بھی ریکوری کر لیں تو سالانہ بجٹ سے زیادہ ہوگی، ہمیں پی اے سی میں صرف آڈٹ پیراز پر بات کرنی چاہئیے، پی اے سی میں ہمیں اپنے حلقوں کی بات نہیں کرنی چاہئیے، ابھی فیصلہ کر لیں کہ ہمیں کتنی سب کمیٹیاں بنانی ہونگی۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ہمارا کام آڈٹ کرکے پارلیمنٹ اور حکومت کو رپورٹ کرنا ہے،
چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے سوال کیا کہ کیا آپ خود مختار اداروں کا بھی آڈٹ کرتے ہیں یا نہیں کرتے، اسلام آباد میں کسی اسپتال کو سرکاری پلاٹ ملا ہے تو اس کا آڈٹ کیوں نہیں ہوتا، کیا آپ آڈٹ کرتے ہیں کہ فلاں اسپتال کی جو ذمہ داری تھی وہ پوری کر رہا ہے۔
آڈیٹر جنرل نے کہا کہ بلکل کمیٹی سفارش کرے گی تو ان چیزوں کا بھی آڈٹ کیا جا سکتا ہے، پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ہدایات میں عملدرآمد کے مسائل ہیں، پی اے سی کی ہدایات پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، آئی ایم ایف نے بھی پی اے سی ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے پر تحفظات ظاہر کیے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ایسے لوگوں کو ذیلی کمیٹیوں میں لگائیں جو ٹائم دے سکیں، ہم لوگ پوزیشن لے لیتے ہیں لیکن پھر ٹائم نہیں دیتے۔