پانچ دن! فقط پانچ دن۔ تاریخ کی طویل شب و روز میں محض پانچ صفحات۔ مگر انہی پانچ دنوں میں وقت نے کروٹ بدلی، تاریخ نے رخ موڑا اور ایک گمان زدہ بدمست طاقت کا خواب چکناچور ہو کر رہ گیا۔
یہ لڑائی محض سرحدوں پر نہیں تھی، یہ ایک نظریے، ایک مزاج اور ایک زُعم کے خلاف مزاحمت تھی۔ وہ زُعم جو بھارت کے سیاسی ایوانوں میں ’’عظمتِ ہند‘‘ کے طلسماتی نعرے کے ساتھ پالا گیا تھا۔ وہ غرور جو مودی کے چہرے پر کئی برسوں سے مکروہ مسکراہٹ کی صورت رقصاں تھا، لیکن پانچ دنوں میں وہ مسکراہٹ اب شکست خوردہ خاموشی میں بدل چکی ہے۔
پانچ دن کی یہ جنگ محض گولیوں اور میزائلوں کی نہیں تھی۔ یہ وہ جنگ تھی جہاں قومیں اپنی اجتماعی روح کے ساتھ اترتی ہیں۔ جہاں سپہ سالاروں کی آنکھوں میں اعتماد جھلکتا ہے، جہاں پائلٹ دشمن کی فضاؤں میں جھنڈے گاڑ آتے ہیں اور جہاں عوام گھروں میں دعاؤں کے ساتھ محاذ پر کھڑی ہوتی ہے۔
پاکستان نے یہ جنگ صرف عسکری طور پر نہیں جیتی بلکہ یہ جنگ سچائی، ضبط، تدبر اور وقار کی فتح تھی۔
اب ہر پاکستانی فخر سے کہہ سکتا ہے کہ ہم نے دشمن کے طیارے نہیں گرائے بلکہ ہم نے اس کے تکبر کے پر کترے ہیں۔ ہم نے صرف زمین پر قبضہ نہیں روکا بلکہ ہم نے اس کے زرخرید بیانیے کو بے نقاب کردیا ہے۔ اور جب سیزفائر ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ بھارت خاموش تھا اور پاکستان باوقار۔
جارحیت سے پہلے نریندر مودی کی حکومت کا خیال تھا کہ یہ ایک ’’بجلی کی سی جنگ‘‘ ہوگی، یعنی چمکے گی، گرجے گی اور بجھ جائے گی۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی ہر جنگ کا اختتام اُس کی اپنی تاریخ کے سیاہ ترین باب پر ہوتا ہے۔
پانچ دن! جی ہاں صرف پانچ دنوں میں بھارت کے جنگی خواب خاک میں مل گئے اور عالمی سیاست کے کٹہرے میں ایک نیا ڈراما تخلیق ہوا۔ جنگ بندی کا اعلان ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک ’’سپر پاور‘‘ کہلانے والے ملک کا وزیرِاعظم جس کے ہاتھ میں دنیا کی سب سے مہنگی دفاعی ٹیکنالوجی تھی، اپنے ہی بنائے ہوئے میدان میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔ مودی کا وہ غرور جو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں سے ٹکراتا تھا، اب اُس کی آنکھوں میں ایک شکست خوردہ بھیڑیے کی طرح چمک رہا تھا۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ؟ وہ جو کبھی ’’امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے لگاتے تھے، اُنہیں اپنا موقف بدل کر خود میدان میں اُترنا پڑا۔ کیوں؟ کیونکہ پاکستان نے نہ صرف جنگ جیتی بلکہ اُس نے امن کی شرائط بھی لکھیں۔
وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کا قوم سے خطاب محض ایک رسمی خطاب نہیں تھا، یہ اُس قوم کے لیے ایک نوید تھی جس نے اپنے جوانوں کے خون سے تاریخ کے سینے پر فتح کا نشان کندہ کیا تھا۔ اُن کے الفاظ میں وہ جذبہ تھا جو کہتا ہے کہ ’’ہم نے نہ صرف دشمن کو شکست دی بلکہ اُس کی زبان میں جواب دے کر یہ ثابت کیا کہ ہمت اور حوصلہ، ہتھیاروں کی تعداد سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔‘‘ یہ کوئی عام جنگ نہیں تھی۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں پاکستان کی فضائیہ نے نہ صرف دشمن کے طیاروں کو خاک میں ملا دیا بلکہ اُس کی جنگی ڈاکٹرائن کو بھی رسوا کیا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی میڈیا نے ثابت کیا کہ سچائی کا پرچم ہمیشہ بلند رہتا ہے چاہے اُس کے خلاف جھوٹ کا پہاڑ ہی کیوں نہ کھڑا کیا جائے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی چیز تھی جس نے بھارت جیسی عسکری طاقت کو محض پانچ دن میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا؟ جواب اُس قوم کے اتحاد میں پوشیدہ ہے جس نے اپنے جوانوں، اپنی حکومت اور اپنے میڈیا کو یکجان ہو کر دشمن کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ جب بھارتی جنگی طیارے گرائے گئے تو یہ صرف طیارے نہیں گرے بلکہ یہ بھارت کا وہ غرور تھا جو اُس نے 2019 کے بالاکوٹ کے بعد اپنے سینے پر سجایا تھا۔ جب پاکستانی پائلٹس نے دشمن کے علاقے میں نشانہ بنایا تو یہ محض جوابی حملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک پیغام تھا کہ ’’تمہاری سرحدیں، تمہاری جنگیں، اور تمہارے خواب، سب ہمارے ہاتھ میں ہیں‘‘۔
اور پھر وہ لمحہ آیا جب امریکا، ترکیہ، سعودی عرب، چین اور ایران جیسے ممالک متحرک ہوئے۔ کیا یہ محض جنگ بندی تھی؟ نہیں یہ اُس نئی عالمی ترتیب کا اعلان تھا جس میں پاکستان اب صرف ایک ’’اہم کھلاڑی‘‘ نہیں، بلکہ ’’گیم چینجر‘‘ ہے۔ ٹرمپ کا کردار جو کبھی متنازع سمجھا جاتا تھا، اب ایک ثالث کی شکل اختیار کرگیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کردار پاکستان کی فتح کے بغیر ممکن نہ تھا۔ جب تک مودی کی فوجیں پسپا نہ ہوتیں، ٹرمپ کی آواز بھی شاید خاموش ہی رہتی۔
اب سوال یہ ہے کہ کشمیر، آبی وسائل اور دہشت گردی جیسے مسائل پر مذاکرات کیسے ہوں گے؟ بھارت، جو ہمیشہ تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرتا چلا ایا تھا، وہ اب اُسے قبول کرنے پر مجبور ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اُس کی جنگی شکست نے اُس کی سفارتی پوزیشن کو بھی کمزور کردیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہے جس نے میدانِ جنگ میں اپنی بالادستی ثابت کردی ہے۔ اب پاکستان مذاکرات کی میز پر بھی اپنا جائز موقف مضبوطی سے پیش کرے گا۔ یہ وہ موقع ہے جب سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو عالمی فورم پر اُجاگر کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی آواز بلند کی جاسکتی ہے۔ جی ہاں! یہ وہ موقع ہے جب بھارت کی طرف سے فنڈ ہونے والی دہشت گردی کو ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔
مگر یاد رکھیے کہ جنگ جیتنا ایک بات ہے اور امن قائم رکھنا دوسری بات۔ وزیرِ اعظم نے درست کہا کہ ’’اب ہماری توانائیاں تعمیرِ وطن پر مرکوز ہونی چاہئیں‘‘۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنی خود اعتمادی کو اپنی ترقی کا زینہ بنانا ہوگا۔ جس قوم نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دی، اُسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اندر کے اختلافات کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ کرپشن، اقربا پروری اور معاشی بدانتظامی، یہ وہ جنگیں ہیں جو لڑنی ابھی باقی ہیں۔
آج پاکستان کو دنیا ایک نئی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ ہماری افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سلام کیا جا رہا ہے۔ ہمارے میڈیا کے شجاعانہ کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ ہماری عوام کے صبر اور استقلال کو خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ مگر یہ سب ہمیں مگن ہونے کا نہیں بلکہ مزید محنت کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ ہمیں اپنی یکجہتی کو قائم رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو مزید فعال بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی معیشت کو اُس طرح مستحکم کرنا ہوگا جس طرح ہم نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کیا۔
عالمی بساط پر پاکستان اب محض اہم کھلاڑی نہیں بلکہ گیم چینجر بن چکا ہے۔ یقیناً وہ قوم سلام کے لائق ہے جو اپنے جوانوں کے خون سے لکھی گئی فتح کی داستان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ یہ وہ قوم ہے جس نے ثابت کیا کہ ’’حق کی طاقت، باطل کے سازو سامان سے کہیں بڑی ہوتی ہے‘‘۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس فتح کو اپنی نسلِ نو کے لیے مشعلِ راہ بنائیں تاکہ آنے والا کل، ہمارے آج کی عکاسی کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔