دنیا کی تجارت ایک ایسی شاہراہ ہے جس پر صرف طاقتوروں کی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں،کمزور ممالک کنارے پر کھڑے ان کی آنیاں اور جانیوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ کافی عرصے سے امریکا اور چین کے درمیان عالمی سیاست معیشت کا دنگل برپا ہے۔ امریکا عالمی تجارت میں اپنی دھاک بٹھا رہا ہے۔
امریکی شے پر ڈالر ہر ملک میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، اس کے پیچھے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پنجے گاڑنے کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی صورت میں مالیاتی فیصلے بھی ہیں۔ جنھوں نے کچھ عرصے سے خاص طور پر پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک طرف چین ہے اور اس کی دوستی کی عملی شکل سی پیک کی صورت میں اور دوسری طرف امریکا جس کے لیے پاکستانی برآمدات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں 2014 سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت یورپ کے لیے برآمدات میں اضافے کا موقعہ ملا، جو اب داؤ پر لگنے والا ہے۔ ایک ایسا معاہدہ عالمی تجارتی افق پر نمودار ہونے والا ہے جس کے لیے بات چیت گزشتہ 25 برسوں سے جاری تھی۔
لاطینی امریکا اور یورپ کی تجارتی پیش رفت جس نے 90 فی صد سے زیادہ محصولات ختم کیے، حجمی اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی فری زون بننے کی عملی شکل اختیار کرنے والا ہے۔
البتہ اس میں کچھ ماحولیاتی اور زرعی شقیں ایسی ہیں جن میں مزاحمت یا التوا کے بھی امکانات ہیں لیکن بہت جلد جیسے ہی یہ معاہدہ عملی شکل اختیار کر لے گا پاکستان کے لیے یورپ سے جی ایس پی پلس کے فوائد کے حصول میں بہت زیادہ رکاوٹ پیش آئے گی۔ اس معاہدے کو امریکا کے تجارتی تنوع اور بے جا ہٹ دھرمی کے مقابلے میں ایک تجارتی ہتھیار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 25 سال سے بات چیت چل رہی تھی لیکن امریکی صدر کے جارحانہ عالمی تجارتی عزائم نے اس بات چیت کو جلد بازی کرنے اور حتمی شکل دینے کی طرف راغب کیا۔ اس سے لاطینی امریکا کی مارکیٹ یورپ کے بازاروں کا حصہ بننے جا رہی ہے۔
پاکستان جس کا یورپ کے ساتھ تجارت میں بڑا حصہ ہے۔ کئی یورپی ممالک فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی اور دیگر ممالک اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔ تجارت بڑھانے میں جی ایس پی پلس نے اپنا پلڑا پاکستان کے حق میں ڈالا تھا جو اب خطرے میں پڑنے والا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ قیمتوں پر کڑی نگرانی، ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف شفاف قانونی نظام بھی قائم کیا جائے۔مہنگائی صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک معاشرتی، نفسیاتی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں تجارتی سفارت کاری بھرپور طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں برآمدات درآمدات کے اعداد و شمار نے خسارے کی کہانی کی ابتد ا کر دی ہے۔ 2024-25 کی برآمدات 32 ارب 10 کروڑ ڈالر زائد اس کے ساتھ درآمدات کا دیوہیکل حجم 58 ارب 38 کروڑ ڈالرکے ساتھ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ 26 ارب 28 کروڑ ڈالرز کا ہے۔
یہ وہ کہانی ہے جس نے واضح کیا ہے کہ عالمی تجارت میں اس کا حصہ آج بھی وہیں ہے جہاں 20 سال پہلے تھا۔ اس کہانی کے پیچھے ہر بے روزگار مزدور کی تڑپ ہے، ہر صنعت کار کی بند مشینوں کی مایوسی ہے۔صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسی کی توپوں کا رخ بظاہر چین کی جانب ہے۔ لیکن یہ ایک عالمی ناگوار معاشی پیغام ہے کہ ’’ہماری شرائط پر تجارت کرو ورنہ خود کو تنہا سمجھو۔‘‘ اسی کشمکش میں پاکستان میں روپیہ کمزور ہو رہا ہے اور ڈالر تگڑا ہو رہا ہے۔ درآمدات مہنگی ہو رہی ہیں لیکن برآمدات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو رہی، برآمدات میں محض 5 فی صد کا اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
لاطینی امریکا کی یورپ تک جلد رسائی کے امکانات کے پاکستان کی برآمدات کو یورپ میں بڑھنے سے روکنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ ایک بہت بڑا فری ٹریڈ اتحاد یورپ اور لاطینی امریکا کا فائنل ہونے والا ہے اور ہم اپنی تجارتی شراکت داری کو کوئی روپ دینے میںکامیاب نہ ہو سکے۔
اگرچہ اسی دوران پاکستان روس نے تجارتی ٹرین چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے چند ملین ڈالر تجارت کا بڑھاوا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زائد کے لیے پاکستان کو زبردست تجارتی سفارت کاری سے کام لینا پڑے گا۔ پاکستان کے کامیاب ترین عالمی شہرت یافتہ بزنس کے ماہرین کو ہر ممکن سہولیات اور مراعات دی جائیں کہ وہ استرا خان (روس) کے ریلوے اسٹیشن پر اترنے سے پہلے دیگر ملکوں میں بھی جائیں اور اپنا مال تجارت کو متعارف کرانے کے جدید ترین طریقوں کو استعمال کریں۔ تجارتی نمایندہ وہی کامیاب ہوتا ہے جو پاکستان کے بڑے تجارتی سیٹھوں کی طرح میز پر ہی ’’ڈن‘‘ کرکے اٹھتے ہیں۔
اگر ہم اس بات کو سمجھ سکیں تو عالمی معیشت کے لیے پاک روس ٹرین اب جلد ہی ایک تیز رفتار معاشی تجارتی ٹرین بننے والی ہے جس میں متعلقہ تمام ممالک اپنی نشست محفوظ کرنا چاہیں گے پاکستان وسطی ایشیا اور روس کے لیے ایک ایسا تجارتی پُل بن رہا ہے جسے پار کرکے پاکستان اپنی برآمدات میں مزید 5 تا7 ارب ڈالر یعنی 40 ارب ڈالر تک پہنچا سکتا ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان ایک کمزور مسافر کی طرح کنارے پر کھڑا ہے اور ٹرین کے دھوئیں میں لپٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کیونکہ پاکستان کے پاس خام مال تو ہے اس سے مصنوعات بنا سکتا ہے لیکن نسبتاً مہنگا بنا رہا ہے۔ تجارتی میٹنگ کی میز پر معمولی مہنگا مال بھی بیچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا ہنر ان لوگوں کے پاس ہے جو جدی پشتی کاروباری ہوں جن کی چھٹی حس ان کو باور کرا دیتی ہے کہ بظاہر معمولی نقصان والا سودا ہے لیکن اس کے پیچھے غیر معمولی منافع ہی منافع ہے۔