شدید بارشیں اور انتظامی اداروں کی غفلت

عوامی شعور اور شرکت کے بغیر کوئی بھی حکمت عملی دیرپا یا مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔


ایڈیٹوریل July 18, 2025

ملک بھر میں بارش سے 60 افراد جاں بحق جب کہ 200 افراد زخمی ہوگئے، ملک بھر میں موسلادھار بارش کا سلسلہ اگلے روز بھی جاری رہا، جس سے شاہراہیں، گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں جب کہ پانی گھروں میں داخل ہوگیا، جس سے لاکھوں کا نقصان ہوا۔

 ملک بھر میں مون سون کی شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان بارشوں کے نتیجے میں جہاں شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، وہیں دیہی علاقوں میں تباہی کا منظر بھی انتہائی تشویشناک شکل اختیار کرچکا ہے۔

دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے، ندی نالے ابل رہے ہیں، کئی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں اور فصلوں کے ساتھ ساتھ مکانات، سڑکیں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہر سال یہ مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہر سال ایک جیسا ہی المیہ دہرایا جاتا ہے۔ مالی اور جانی نقصان کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، لیکن ہمارے حکومتی اور انتظامی ادارے ہر سال ایک نئی بے بسی کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔

 مون سون کا موسم ہر سال آتا ہے، دریاؤں میں طغیانی کی توقع ہر سال کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری تیاری ناکافی، اقدامات غیر مربوط اور ادارے غیر فعال دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح کے محکموں کے درمیان مربوط رابطے کا فقدان ہے۔ جب تک اداروں کے درمیان باہمی اعتماد اور ہم آہنگی نہیں ہوگی، تب تک کسی بھی قدرتی آفت سے مؤثر انداز میں نمٹا نہیں جا سکتا۔ ہمارے ملک میں ہر سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے موجود ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو ٹیمیں، محکمہ موسمیات، فوج اور دیگر معاون ادارے موجود ہیں، مگر ان سب کی کارکردگی اُس وقت متاثر ہوتی ہے جب یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ، غیر مربوط اور بغیرکسی واضح حکمتِ عملی کے کام کرتے ہیں۔ سیلاب جیسی آفات کے وقت فیصلے کا ایک لمحہ بھی قیمتی ہوتا ہے، اگر اطلاعات، وسائل اور فیصلے تاخیر کا شکار ہوں تو اس کے نتائج صرف مالی نقصانات کی صورت میں نہیں، بلکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی شکل میں بھی سامنے آتے ہیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ترقیاتی پروگرام اور پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ پاکستان کے موسمیاتی تغیر کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک ہونے کی وجہ 2022 میں موسلا دھار بارشوں، گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے پانی کے بہہ نکلنے (جی ایل او ایف) اور دیگر عوامل کی بنیاد پر آنے والا زبردست سیلاب تھا۔

گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات (جی ایل او ایف) رونما ہوئے، پاکستان میں تین ہزار سے زائد گلیشیئرز کی وجہ سے وجود میں آئی جھیلیں ہیں، ان میں سے 33 جھیلوں کے پھٹ کر پانی بہہ نکلنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، جس کے نتیجے میں 70 لاکھ سے زائد لوگوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ 2022 کے سیلاب کے بعد پاکستان سے10ارب ڈالر کے وعدے کیے گئے تھے، مگر اس کا ایک تہائی ہی وصول ہوسکا، مسلسل گھٹتے ہوئے گلیشیئر شدید نوعیت کے واقعات اور نشیبی علاقوں کی آبادی اور ٹرانسپورٹ اور توانائی کے انفرا اسٹرکچر کے لیے خطرات کا باعث بنتے ہیں جیسے کہ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، مٹی کے تودوں کا گرنا اور کٹاؤ یا رسوب سازی وغیرہ۔

پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے اور موسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے اور بارشوں کے غیر متوازن پیٹرن کی وجہ سے پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے، جب کہ شدید گرمی، طوفان اور بارشیں فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ غیر معمولی موسمی واقعات فصلوں کے چکر کو بگاڑ رہے ہیں اور کسانوں کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت اور نمی سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وبائی امراض خاص طور پر کم عمر بچوں اور بزرگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا ہے۔

یہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جہاں غذائی تنوع پہلے سے ہی محدود ہے۔جدید ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ سیٹلائٹ ڈیٹا، ڈرون سرویلنس، جی آئی ایس میپنگ، اور خودکار وارننگ سسٹمز کے ذریعے بارش اور سیلاب کی صورتحال کی قبل از وقت نشاندہی کی جا سکتی ہے اور اس ڈیٹا کو نہ صرف اداروں کے مابین شیئر کیا جائے بلکہ عوام تک بھی فوری اور مؤثر انداز میں پہنچایا جائے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا، موبائل ایپلیکیشنز اور ایس ایم ایس الرٹس جیسے ذرائع کو بروئے کار لا کر عوامی سطح پر بہتری لائی جا سکتی ہے، مگر یہ سب اُس وقت ہی کارآمد ہو سکتا ہے جب ان کا استعمال منظم اور تربیت یافتہ ہاتھوں میں ہو۔

عوامی شعور اور شرکت کے بغیر کوئی بھی حکمت عملی دیرپا یا مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگر لوگ خود تیار نہ ہوں، اگر انھیں معلوم نہ ہو کہ ہنگامی صورت حال میں کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے، کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے، تو پھر کسی بھی منصوبہ بندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے عوامی سطح پر آگاہی مہمات، اسکولوں میں تربیتی پروگرام، اور کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے حفاظتی تربیت کو مستقل بنیادوں پر نافذ کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح مقامی علم اور مقامی قیادت کو شامل کیے بغیر بھی کوئی منصوبہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا، کیونکہ مقامی افراد ہی پہلے ردعمل دینے والے ہوتے ہیں، اور وہی اصل ہراول دستہ ہوتے ہیں۔

یہ تمام اقدامات کاغذی نہیں، عملی ہونے چاہئیں۔ حکومتی مشینری کو دکھاوا چھوڑ کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ میڈیا، جو بحران کے وقت سب سے زیادہ فعال ہوتا ہے، اسے بھی سنسنی پھیلانے کے بجائے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، مستند معلومات نشر کرنی ہوں گی، اور امدادی اداروں کے ساتھ مل کر عوام تک بروقت اور درست ہدایات پہنچانا ہوں گی۔ اگر یہ سب ادارے اپنی اپنی حدود سے نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تو ایک نئی سوچ، نئی حکمت عملی، اور بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔اسی طرح وسائل کی تقسیم اور ایمرجنسی فنڈز کی بروقت فراہمی بھی ایک بہت اہم پہلو ہے۔

اکثر ضلعی سطح پر یہ شکایات سامنے آتی ہیں کہ نہ تو بروقت فنڈز ملتے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ سامان اور افرادی قوت۔ یہاں ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ہر ضلع کے لیے ایمرجنسی فنڈز مختص کریں، جن کا استعمال صرف اور صرف ہنگامی صورتحال میں ہو، اور اس پر مکمل نگرانی رکھی جائے۔ اس کے علاوہ، پانی کی نکاسی، بندوں کی مضبوطی، اور ندی نالوں کی صفائی جیسے اقدامات مون سون سے پہلے ہی مکمل کر لیے جانے چاہئیں، مگر اکثر یہ کام محض کاغذوں میں مکمل ہوتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو عوامی شرکت اور آگاہی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے میں عوام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر عوام کو پہلے سے تربیت دی جائے، ان کو ابتدائی طبی امداد، نکاسی آب، فوری انخلا کے راستوں، اور دیگر حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جائے تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور مقامی این جی اوز کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں شعور اجاگر کریں اور سیلاب یا دیگر آفات کی صورت میں مقامی سطح پر ابتدائی ردعمل دے سکیں۔اس کے علاوہ ہر ضلع کو اپنا علیحدہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان ترتیب دینا چاہیے، جو اس کی جغرافیائی و ماحولیاتی ساخت کے مطابق ہو۔

اس پلان میں تمام اداروں کے کردار واضح ہوں، ان کے رابطے کے طریقے طے ہوں، وسائل کی تفصیلات درج ہوں اور ہنگامی صورتحال میں کیا قدم کب اٹھایا جائے گا، یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہو۔ جب تک ضلعی سطح پر خود مختاری اور تیاری نہیں ہوگی، تب تک وفاق یا صوبہ کچھ نہیں کر سکے گا۔قدرتی آفات کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا، مگر ان کے اثرات کو مؤثر منصوبہ بندی، باہمی ہم آہنگی، عوامی شراکت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

یہ کام آج نہیں تو کل بہرحال کرنا ہی پڑے گا، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، اور ہمیں بارش، سیلاب اور دیگر قدرتی چیلنجز کا پہلے سے کہیں زیادہ سامنا کرنا پڑے گا۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے طرزِ عمل، پالیسیوں اور رویوں میں بنیادی تبدیلی لائیں اور صرف ردِ عمل دینے والی قوم کے بجائے پیش بندی کرنے والی قوم بننے کی راہ اختیار کریں۔ اگر آج ہم نے اس سمت میں ٹھوس قدم نہ اٹھایا، تو کل کی تباہی کہیں زیادہ شدید، کہیں زیادہ وسیع اور کہیں زیادہ المناک ہو سکتی ہے۔

مقبول خبریں