بونیر میں قیامت صغریٰ بپا

ایک ہی خاندان کے 40 افراد شہید ہوگئے ہیں اس بدقسمت خاندان کا ایک ہی فرد زندہ بچ سکا سوشل میڈیا پر وائرل ہے


[email protected]

آزاد کشمیر، گلگت اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں بارشوں، کلاؤڈ برسٹ (بادلوں کا پھٹنا)، لینڈ سلائڈنگ، سیلابی ریلوں اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس میں شہید ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق 1000 سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ سیکڑوں لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔

سب سے زیادہ تباہی ضلع بونیر اور ضلع صوابی میں ہوئی۔ ضلع صوابی میں اموات 80 سے تجاوز کرچکی ہیں صرف گدون کے گاؤں دالوڑی میں کلاؤڈ برسٹ کے بعد سیلابی ریلے میں 70 افراد بہہ گئے جن میں تادم تحریر ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں کی کوششوں سے 17 لاشیں مل چکی ہیں اور 53 کی تلاش جاری ہے۔ مگر ضلع بونیر میں تو گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، جہاں کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پتھروں اور مٹی کے سیلابی ریلوں نے ہر سو تباہی مچا دی ہے۔ لاشیں دیو ہیکل پتھروں اور گارھے کے سمندر میں دبی پڑی ہیں، کسی کا مکمل خاندان شہید تو کسی کے خاندان میں چند افراد کے سوا کوئی نہیں بچا۔ ہر جگہ ملبے کے ڈھیر ہیں سیلاب کی اس تباہی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں، ہر گھر پر یہ سانحہ قیامت صغریٰ سے کم نہیں، ضلع بونیر میں اب تک 500 سے زیادہ افراد شہید، 671 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ہزاروں مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہیں، 2 ہزار 300 مکانات مکمل جب کہ 413 جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں، 6 سرکاری اسکول، 2 تھانے اور 639 گاڑیاں بہہ گئیں، 217 دکانیں مکمل اور 824 جزوی متاثر ہوئیں۔ ہزاروں بے گھر لوگ کھلے آسمان تلے اللہ کے آسرے پر پڑے ہیں، سڑکیں مکمل طور پر تباہ اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے، گھر، اسپتال، اسکولز کالجز ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں مگر معجزانہ طور پر اکثر مساجد محفوظ ہیں۔ کثرت اموات کی وجہ سے کفن دفن کے انتظامات کرنا مشکل، زندہ بچ جانے والوں تک اشیائے خور و نوش اور دیگر امدادی اشیاء کا پہنچانا دشوار ہے۔

ضلع بونیر کا ہر گاؤں متاثر مگر بیشنوئی اور درہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ کئی منزلہ گھر دیو ہیکل پتھروں اور کیچڑ میں دب چکے ہیں، سڑکیں مکمل طور پرتباہ اور رابطہ مکمل منقطع ہوچکا ہے۔ ایک ہی خاندان کے 40 افراد شہید ہوگئے ہیں اس بدقسمت خاندان کا ایک ہی فرد زندہ بچ سکا سوشل میڈیا پر وائرل ہے مگر وہ اس درد کے ساتھ کس طرح جئے گا یہ سوچ بھی دل و دماغ کو ماؤف کردیتی ہے۔ 40 میں سے تا دم تحریر 26 کی لاشیں ملی جن کا اجتماعی جنازہ پڑھا گیا۔ باقی 16 افراد کی تلاش تا دم تحریر جاری ہے مگر برستے آسمان تلے کیچڑ اور بھاری پتھروں میں پھنسی ہوئی لاشوں کی تلاش میں حد درجہ دشواری کا سامنا ہے۔

قادر نگر میں سیلابی ریلے سے قبل سلیمان نامی شخص کے گھر میں ایک دن بعد اس کے بھتیجے کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مگر باراتی گھر بیٹھے پتھروں کے سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے، اس خاندان کے بھی38 افراد شہید ہوگئے۔ سلیمان کے 35 کمروں پر مشتمل گھر میں صرف ایک کمرہ بچا ہے۔ کل جہاں سیکڑوں ہنستے بستے خاندانوں پر مشتمل گاؤں تھے آج وہ کیچڑ اور بھاری بھر کم پتھروں سے بھرے میدان ہیں۔ ایک گاؤں میں اتنی شہادتیں ہوئیں کہ تدفین کے لیے کوئی نہیں بچا تو دوسرے گاؤں سے لوگوں کو آنا پڑا، دفنانے کے لیے قبرستان کم پڑ گئے، گاؤں کی مسجد سے جب 45 قبریں کھودنے کا اعلان ہوا تو کہرام مچ گیا، نوجوان اعلان سنتے ہی قبرستان پہنچ گئے اور قبریں کھود کر 45 شہدا کو قبروں میں اتارا گیا۔ بارشیں پہلے بھی برستی تھیں، چھوٹے موٹے کلاؤڈ برسٹ بھی ہوتے تھے، سیلاب بھی آتے تھے مگر اتنی تباہی تو کبھی نہیں ہوئی تو اب ایسا کیوں ہورہا ہے؟

وجہ صرف گلوبل وارمنگ سے موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے ذمے دار امریکا، جاپان، چین، روس، فرانس، اور برطانیہ جیسے وہ صنعتی ممالک ہیں جنہوں نے اقتصادی ترقی کی آڑ میں پوری دنیا کو تباہی کے داہنے پر لا کھڑا کیا نتیجہ زمین کا تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، کلاؤڈ برسٹ، طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ بین الاقوامی استعماروں کے بعد ذمے دار ہمارے حکمران ہیں کیونکہ وہ ٹمبر مافیا کے ساتھ درخت کاٹنے، ماربل مافیا کے ساتھ پہاڑ پھاڑنے اور ہوٹل مافیا کے ساتھ آبی گزرگاہوں پر بلند و بالا عمارتیں بنانے میں سہولت کار و حصہ دار، معصوم شہدا کے قاتل اور قومی مجرم ہیں۔ ٹمبر مافیا افسر شاہی کی ملی بھگت سے جس بے دردی سے جنگل کاٹ اور ہوٹل مافیا ملی بھگت سے آبی گزرگاہوں میں تعمیرات کر رہے ہیں یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

دو سال پہلے سوات میں آنے والا تباہ کن سیلاب کا سب کچھ بہا کر لے جانا قدرت کی جانب سے وارننگ تھی لیکن حکمرانوں اور افسر شاہی نے مقامی سیاستدانوں کی ملی بھگت سے اس سے دگنی تعداد میں آبی گزرگاہوں میں تعمیرات کے باقاعدہ اجازت نامے جاری کیے۔ پانی زندگی اور درخت صحت مند زندگی کے لیے ناگزیر ہیں مگر افسوس کہ ہم کبھی پانی کی قلت اور خشک سالی کی وجہ سے مرتے ہیں تو کبھی بے لگام پانی کے سیلابی ریلوں میں مرتے ہیں۔ اگر ہم وقت پر ڈیم بناتے، بارش کے پانی کو زمین کے سینے میں واپس اتارتے، جنگلات کا تحفظ کرتے اور ٹمبرمافیا کے ساتھ ان کے سرپرستوں کو عبرتناک سزائیں دیتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

وہ درخت جو ناصرف ماحول کو بہتر بنانے میں معاون و مدد گار ہوتے ہیں بلکہ سیلاب کے زور کو کم اور پہاڑوں کو ٹوٹنے سے روکتے ہیں کی کٹائی اس بے دردی سے ہوگی تو یہی ہوگا جو ہوا۔ اگرچہ ایک بڑے تناور درخت کاٹنے کا نعم البدل لاکھ چھوٹے درخت بھی نہیں ہوسکتے مگر افسوس کہ شجرکاری کی شرح دیوقامت درختوں کے کاٹنے کے برابر بھی نہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے قدرت و فطرت کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا نتیجہ آج اس قیامت صغریٰ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔

یہ حکمرانوں کی نااہلی کے علاوہ بحیثیت قوم قدرتی ماحول کو برباد کرنے کے جرائم پر قدرت کا انتقام ہے۔ یہ غیر معمولی بارشیں، کلاؤڈ برسٹ، آسمانی بجلیوں کا گرنا سب ہمارے اعمال کا نتیجہ اور اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ الروم کی آیت نمبر 60 میں ارشاد فرمایا ہے کہ "خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا ان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ اللہ انھیں ان کے بعض کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں"۔

آئیے اس قرآنی آیت کی روشنی میں اپنے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ خشکی اور تری میں فساد جیسے قحط سالی، بارش کا رک جانا اور ہونا تو بادلوں کا پھٹ جانا، ایک طرف پانی کی کمی کی وجہ پیداوار کی قلت تو دوسری طرف سیلابی ریلوں میں فصلوں کا بہہ جانا، کھبی خشک سالی سے اموات تو کبھی پانی کثرت (کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب) سے مرنا، آتش زدگی کی کثرت جیسے مسائل شاید اس لیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت سے پہلے دنیا میں ہمارے بعض برے کاموں کا مزہ چکھا کر ہمیں نعمتوں کے کفران اور گناہوں سے باز آنے کا موقع دے رہے ہیں۔

آیئے مساجد اور گھروں میں اجتماعی توبہ کا اہتمام کرکے اللّہ کو راضی کریں ورنہ اللہ کا دستور ہے کہ جب قومیں بے لگام، ناشکری اور ظلم پر اتر آتی ہے تو قدرت متنبہ کرنے کے لیے اس طرح کی وارننگ دیتی ہے اب بحیثیت قوم ماحول دوست بننا پڑے گا ورنہ بونیر تو نمونہ ہے، اللہ رب العزت پوری کائنات کو ایک لمحے میں بونیر جیسا بنا کر قیامت کبریٰ برپا کرنے پر قادر ہے اس لیے ہمیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے عبادات و اذکار کے ساتھ اس کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر اور اس کی حفاظت کا عہد کرنا ہوگا۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اس لیے ہر شہری کو قانونی طور پر پابند کر نا چاہیے کہ وہ ہر سال باقاعدہ شجرکاری میں اپنے حصے کے درخت لگائیں۔

پوری قوم سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ایک بار پھر زلزلہ زدگان کی مدد والی تاریخ زندہ کرکے تمام متاثرین خصوصاً بونیر اور صوابی کے متاثرین کے لیے اپنا مال و اسباب خرچ کرکے اللہ کو راضی کرنے کا اہتمام کریں۔ یا رحمن و رحیم رب العالمین ہم سے راضی ہوجا اور ہمیں اس طرح آسمانی اور زمینی آفات سے اپنے حفظ و امان میں رکھ۔ آمین

مقبول خبریں