بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے اور بالائی علاقوں میں شدید بارش کے باعث دریائے چناب، ستلج اور راوی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوگیا جبکہ پہلے سے بپھرے دریائے چناب سے خوفناک سیلابی ریلہ ملتان ڈویژن میں داخل ہوگیا۔
دریائے چناب میں بھارت کی جانب سے خطرناک سیلابی ریلہ چھوڑے جانے کے باعث ہیڈ مرالہ کے مقام پر 5 لاکھ 31 ہزار کیوسک کا ریلہ داخل ہوگیا۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق 5 ستمبر تک دریاؤں کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا جبکہ دریائے چناب میں پانی کا بہاؤ مستحکم ہوگیا ہے۔
بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے پانی چھوڑنے سے متعلق پاکستان کو آگاہ کر دیا گیا۔
وزارت آبی وسائل نے الرٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے دریائے چناب میں اخنور کے مقام سے پانی چھوڑا ہے جس کے سبب ہیڈ مرالہ پر پانی کا شدید دباؤ آ سکتا ہے۔
ہیڈ مرالہ سے ہیڈ خانکی کے درمیان پانی کے شدید دباؤ کے باعث گجرات اور وزیرآباد کے اطراف دیہات زیر آب آسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم اے پنجاب
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق دریائے ستلج اور چناب کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوگا، ہریکے زیریں اور مناور توی میں اونچے درجے کی سیلابی صورتحال ہے۔
بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستان کو سیلابی سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں، دریائے ستلج اور چناب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا ہے۔
ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ سول انتظامیہ پاک فوج اور دیگر متعلقہ محکمے الرٹ ہیں، شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
دریاؤں میں پانی کا بہاؤ
پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 49 ہزار کیوسک اور خانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 4 لاکھ 78 ہزار کیوسک ہے۔ قادر آباد کے مقام پر پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 48 ہزار کیوسک اور ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 94 ہزار کیوسک ہے۔
گزشتہ 8 گھنٹوں میں دریائے چناب کے بہاؤ میں 4 لاکھ کیوسک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دریائے راوی جسر کے مقام پر پانی کا بہاؤ 89 ہزار کیوسک، شاہدرہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 55 ہزار اور سائفن کے مقام پر 56 ہزار کیوسک ہے۔ بلوکی ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 14 ہزار کیوسک اور سدھنائی کے مقام پر پانی کا 1 لاکھ بہاؤ 61 ہزار کیوسک ہے۔
آئندہ 2 روز میں دریائے راوی کے بہاؤ میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 69 ہزار کیوسک اور ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 22 ہزار کیوسک ہے۔
راوی میں مائی صفورہ بند اڑا دیا گیا
دوسری جانب، دریائے راوی کے ہیڈ سندھنائی پر پانی کے غیر معمولی دباؤ کے باعث ضلعی انتظامیہ نے حفاظتی اقدام کے طور پر مائی صفورہ بند کو بھی بم سے اڑا دیا۔
فیصلہ ممکنہ تباہی سے بچاؤ کے لیے کیا گیا، تاکہ پانی کا دباؤ کم کرتے ہوئے قریبی علاقوں کو بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے۔ بند کو اڑانے کا عمل مکمل طور پر ٹریفک بند کر کے سرانجام دیا گیا۔
بند کے کھلنے سے دریائی پانی قریبی آبادیوں کی طرف چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیمیں ہنگامی بنیادوں پر متحرک ہوگئی ہیں تاکہ ممکنہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکے۔ مقامی دیہات کے مکینوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
خوفناک سیلابی ریلا ملتان ڈویژن میں داخل
دریائے چناب کا خوفناک سیلابی ریلا ملتان ڈویژن کی حدود میں داخل ہو چکا ہے، جس کے ساتھ ہی تباہی کی نئی لہر نے درجنوں بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پانی کا بہاؤ نہ صرف مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ ملتان شہر کے حفاظتی فلڈ بند بھی دباؤ برداشت کرنے کی حدوں کو چھونے لگے ہیں۔
اکبر فلڈ بند پر پانی کی سطح میں 3 سے 4 فٹ تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے باعث قریبی گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کئی مکین محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
انتظامیہ نے ہیڈ محمد والا روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے، جب کہ سڑک میں دانستہ شگاف ڈالنے کے لیے بارودی مواد نصب کر دیا گیا ہے تاکہ پانی کو مخصوص سمت میں موڑا جا سکے اور ملتان شہر کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔
سیلابی ریلا اپنی پوری شدت کے ساتھ ملتان کے دیہی علاقوں میں گھس آیا ہے، جہاں زمینیں، مکانات اور فصلیں پانی میں ڈوب چکی ہیں۔ درجنوں دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں، جب کہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو ٹیمیں محدود وسائل کے ساتھ امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
صورتحال لمحہ بہ لمحہ سنگین ہو رہی ہے اور انتظامیہ ہائی الرٹ پر ہے۔ اگر پانی کا بہاؤ اسی رفتار سے جاری رہا تو شہری علاقوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عوام کو محتاط رہنے اور انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
بندبوسن اور ملحقہ علاقوں میں تباہی
دریائے چناب میں آنے والے انتہائی اونچے درجے کے سیلابی ریلے نے بندبوسن اور ملحقہ علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔
سیلابی ریلا تیزی سے ہیڈ محمد والا کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کے باعث قریبی 138 مواضعات زیرِ آب آ چکے ہیں، جب کہ سینکڑوں مکانات کو گرنے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
سیلاب کے نتیجے میں مکئی، تلی، اروی، سبز چارے اور باغات سمیت اہم زرعی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ متعدد گھروں میں حفاظتی بند ٹوٹ چکے ہیں، دیواریں گرنے لگی ہیں اور عوام اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
جھوک عاربی میں قائم ایک سرکاری اسکول میں بھی سیلابی پانی داخل ہوگیا ہے، جس سے عمارت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی الرٹ جاری کرتے ہوئے متاثرہ افراد کو خیمہ بستیوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔
ریسکیو 1122 اور پاک آرمی کی ٹیمیں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں انجام دے رہی ہیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا جا رہا ہے۔
رہنما سکندر حیات بوسن نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سیلاب متاثرین کے حوصلے بلند ہیں، یہ وقت بھی ان شاءاللہ گزر جائے گا۔ انہوں نے حکومت اور فلاحی اداروں سے فوری امداد کی اپیل بھی کی ہے۔
این ڈی ایم کا بھی سیلاب کے لیے الرٹ جاری
این ڈی ایم اے نے بھی دریائے چناب میں متوقع شدید سیلابی ریلوں کی آمد کے حوالے سے الرٹ جاری کر دیا۔
دریائے چناب کے بالائی علاقوں میں شدید بارشوں اور ڈیم سے پانی کے اخراج کے باعث دوبارہ سیلابی ریلا مرالہ سے خانکی کی طرف رواں دواں ہے جس کے باعث دریائے چناب کے ملحقہ علاقوں میں شدید سیلابی صورتحال کا خدشہ ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق مرالہ ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 48 ہزار 237 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، سیلابی ریلہ آج رات 8 بجے خانکی اور رات 3 بجے قادر آباد پہنچنے کا امکان ہےاور قادر آباد پر بہاؤ 5 لاکھ 50 ہزار کیوسک تک پہنچنے کی پیشگوئی ہے۔
دریائے چناب کا ریلا 8 ستمبر کی صبح 7بجے 3 لاکھ 30 ہزار کیوسک بہاؤ کے ساتھ تریموں ہیڈ ورکس پہنچے گا۔ 2 لاکھ 64 ہزار کیوسک کے بہاؤ کے ساتھ11 ستمبر کو 8 بجے رات یہ ریلا پنجند پہنچنے کا امکان ہے۔
13 ستمبر کو رات 8 بجے سیلابی ریلا 2 لاکھ 17 ہزار کیوسک بہاؤ کے ساتھ گڈو بیراج تک پہنچنے کا امکان ہے جس کے سبب تمام مقامی و ضلعی انتظامیہ کو فوری حفاظتی و امدادی اقدامات کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔
نشیبی و قریبی دریا کنارے آبادیوں کو ہائی الرٹ رہنے اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ خانکی، قادر آباد، تریمو، پنجند اور گڈو کے مکین احتیاطی تدابیر اختیار کریں، این ڈی ایم اے سول و عسکری اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے، دریاؤں کے کناروں اور واٹر ویز پر رہائش پذیر افراد فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر زیر آب آنے کے خطر ے سے دوچار علاقوں کے مکین انخلاء کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ انخلاء کے بعد عارضی کیمپس سے اپنے علاقوں میں واپسی کے لیے اداروں کے ہدایات پر عمل یقینی بنائیں۔
این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر فوری عمل کریں اور ہنگامی حالات میں امدادی ٹیموں سے رابطہ کریں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں غیر ضروری سفر سے مکمل گریز کریں۔ ہنگامی کٹ (پانی، خوراک، ادویات) تیار رکھیں اور اہم دستاویزات محفوظ کریں۔
مون سون کا نواں اسپیل اگلے 24 سے 48 گھنٹوں تک مزید جاری رہنے کا امکان
مون سون کا نواں اسپیل اگلے 24 سے 48 گھنٹوں تک مزید جاری رہنے کا امکان ہے جس میں ملک کے بالائی علاقوں میں مزید بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، لاہور میں پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران شدید بارشیں ہوئیں، اس اسپیل کے زیر اثر 6 ستمبر سے ملک کے جنوبی علاقوں بشمول جنوبی پنجاب اور جنوبی سندھ میں بارشوں کا امکان ہے۔
اس اسپیل میں ملک کے ساحلی علاقے بشمول بدین، سجاول اور تھرپاکر میں شدید بارشوں کا امکان ہے، ملک میں غیر معمولی بارشوں اور دریاؤں میں پانی کی آمد کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 4 سے 5 ستمبر کے دوران پنجند کے مقام پر راوی، چناب اور ستلج کے سیلابی ریلے جمع ہوں گے، تینوں دریاؤں سے آنے والے سیلابی ریلوں کی آمد کے باعث پنجند کے مقام پر شدید سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ سیلابی صورتحال سے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں کی پیشگی نشاندہی کی جا چکی ہے، متعلقہ پی ڈی ایم ایز کو بھی اس حوالے سے پیشگی آگاہ کر دیا گیا ہے، حساس علاقوں کے مکین متعلقہ اداروں کی ہدایات پر عمل کریں اور اپنی حفاظت یقینی بنائیں، سیلابی صورتحال کے خطرے سے دوچار علاقوں میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب متاثرین کو تقریباً 5 ہزار 700 ٹن امدادی سامان فراہم کیا جا چکا ہے، متاثرین کو ضروری سامان کی فراہمی کے لیے تمام حکومتی ادارے، فلاحی ادارے اور افواج پاکستان مشترکہ طور پر کوشاں ہیں۔