ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا ہدف11فیصد مقرر، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ

پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 8.8 فیصد تھاجو گزشتہ مالی سال کے دوران بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے، وزیر خزانہ


ارشاد انصاری December 15, 2025

وفاقی وزیرِ خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا 11 فیصد ہدف مقرر کیا گیا ہے جب کہ رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل سیکٹر ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ  کرلیا گیا۔

وزارت خزانہ کے مطابق سی این این بزنس عربیہ کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان ایک جامع معاشی استحکام کے پروگرام پر عمل پیرا رہا ہے جس کے مثبت اور قابلِ پیمائش نتائج سامنے آئے ہیں۔

ان کے مطابق افراطِ زر جو ایک موقع پر 38 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا، اب کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں آ گیا ہے۔ مالیاتی محاذ پر پاکستان نے پرائمری سرپلس حاصل کیے ہیں جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مقررہ اہداف کے اندر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شرحِ مبادلہ میں استحکام آیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو کر تقریباً ڈھائی ماہ کی درآمدات کے برابر ہو چکے ہیں جو بیرونی معاشی مضبوطی کا مظہر ہے۔

سینیٹر محمد اورنگزیب نے پاکستان کی بہتر ہوتی معاشی صورتحال کے دو اہم عالمی اعترافات کا بھی حوالہ دتے ہوئے کہا کہ رواں سال تینوں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ اور آؤٹ لک کو اپ گریڈ کیا ہے اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت دوسرے جائزے کی کامیاب تکمیل کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے بھی حال ہی میں اس کی منظوری دی ہے۔

ان کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی عمل پر عالمی اعتماد کی عکاس ہے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے واضح کیا کہ معاشی استحکام نظم و ضبط پر مبنی مالیاتی اور زری پالیسیوں کے ساتھ ساتھ جامع ساختی اصلاحات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیکس اصلاحات، توانائی، سرکاری ادارے، عوامی مالیاتی نظم و نسق اور نجکاری جیسے اہم شعبوں میں اصلاحات جاری ہیں جن کا مقصد استحکام کو مضبوط بنانا اور پائیدار معاشی ترقی کی بنیاد رکھنا ہے۔

ٹیکس نظام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ اصلاحاتی پروگرام کے آغاز پر پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 8.8 فیصد تھاجو گزشتہ مالی سال کے دوران بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے اور اسے 11 فیصد تک لے جانے کا واضح لائحہ عمل موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا ہدف ایسا ٹیکس نظام تشکیل دینا ہے جو درمیانی اور طویل مدت میں مالی خود کفالت کو یقینی بنائےاس مقصد کے لیے رئیل اسٹیٹ، زراعت، ہول سیل اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس شدہ مگر معاشی طور پر اہم شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے جبکہ پیداوار کی نگرانی اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس چوری اور لیکیجز کو کم کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی ٹیکس انتظامیہ میں افراد، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کی سطح پر اصلاحات کی جا رہی ہیں۔

توانائی کے شعبے پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ تقسیم کار کمپنیوں میں گورننس کی بہتری، نجی شعبے کی شمولیت، نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے اور گردشی قرضے میں کمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو طویل عرصے سے توانائی کے شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ٹیرف نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ صنعت کے لیے توانائی کو مسابقتی بنایا جا سکے اور صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔

سینیٹر محمد اورنگزیب نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت جی سی سی ممالک کی دیرینہ معاونت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے مالی معاونت، سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں میں تعاون کے ذریعے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ تعلق ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، جس کی بنیاد تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے بہاؤ پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ترسیلاتِ زر پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، جو گزشتہ سال تقریباً 38 ارب ڈالر رہیں اور رواں سال 41 سے 42 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جن میں سے نصف سے زائد جی سی سی ممالک سے آتی ہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ پاکستان توانائی، تیل و گیس، معدنیات و کان کنی، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، فارماسیوٹیکلز اور زراعت سمیت ترجیحی شعبوں میں جی سی سی ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے سرگرم رابطے کر رہا ہے۔

انہوں نے جی سی سی کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کے حوالے سے بھی امید ظاہر کی اور کہا کہ اس پر بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔

سینیٹر محمد اورنگزیب نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا مستقبل امداد پر نہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری پر مبنی شراکت داریوں سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیداواری شعبوں میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور پاکستان و شراکت دار ممالک کو مشترکہ معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اس وژن کو عملی شکل دینے کے لیے مکمل طور پر متحرک ہے۔

مقبول خبریں