سڈنی کے معروف ساحل بونڈی بیچ پر یہودی برادری کی تقریب کے دوران ہونے والے خونیں حملے میں جہاں درجنوں زندگیاں اجڑ گئیں، وہیں ایک شخص نے اپنی جان اور جسم داؤ پر لگا کر انسانیت کی ایک نادر مثال قائم کر دی۔
اس بہادر شخص کا نام احمد الاحمد ہے جو حملے کی جگہ پر پھل کا اسٹال لگاتا تھا اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر حملہ آور کو دبوچ لیا تھا۔
اس کوشش میں مسلم پھل فروش کے بازو اور ٹانگ پر بھی گولیاں لگی تھیں اور وہ اس وقت اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج ہیں۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ احمد کی جان تو خطرے سے باہر ہے لیکن ان کی حالت بدستور تشویشناک ہے اور خدشہ ہے کہ وہ اپنا بایاں بازو کھوسکتے ہیں۔
مقامی میڈیا نے طبی ذرائع سے دعویٰ کیا کہ احمد کے بائیں بازو کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ایک گولی تاحال ان کے کندھے کے پیچھے پھنسی ہوئی ہے۔
دوسری جانب آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ احمد الاحمد کے علاج کے لیے ہر ممکن اور جدید سہولیات فراہم کریں گے۔ بیرون ملک بھی جانا پڑا تو دریغ نہیں کریں گے۔
ادھر احمد الاحمد کے علاج آن لائن فنڈ ریزنگ میں بھی لاکھوں ڈالرز جمع ہوچکے ہیں جب کہ ایک امریکی تاجر نے بھی ان کے لیے ملین ڈالرز انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس سے امید بندھ چکی ہے کہ بہادر اور دلیر احمد الاحمد کو دنیا کا بہترین علاج میسر آئے گا اور وہ مکمل طور ہر صحت یاب ہوکر گھر لوٹیں گے۔
احمد ال احمد نے اسپتال میں ملاقات کے لیے آنے والے رشتہ داروں کو کہا کہ مجھے کسی قسم کا پچھتاوا نہیں، اگر دوبارہ ایسی صورتِ حال دیکھی تب بھی یہی کروں گا اور لوگوں کی جان بچاؤں گا۔
47 سالہ احمد الاحمد شام میں پیدا ہوئے اور 2006 میں بہتر مستقبل کی تلاش میں آسٹریلیا آئے تھے اور طویل جدوجہد کے بعد انہیں 2022 میں آسٹریلوی شہریت ملی۔
وہ دو کمسن بیٹیوں کے والد ہیں، جن کے لیے وہ ایک شفیق باپ اور آج پورے ملک کے لیے ایک ہیرو بن چکے ہیں۔