اسلام آباد:
پراپرٹی آنرشپ آرڈیننس کی عدالت سے معطلی پر مریم نواز کے ردعمل کےبعد ہائیکورٹ میں تبدیلی کی ہوا چلنے کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ’’ پنجاب پروٹیکشن آف اونر شپ آف ایموویبل پراپرٹی ایکٹ 2025‘‘ کی معطلی اور اس کے بعد وزیراعلیٰ مریم نواز کے ردعمل کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ آیا پنجاب کی اس عدلیہ میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں جس کو بہت سے لوگ صوبائی حکومت کے لیے انتہائی مددگار تصور کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت اور ’’ طاقتور حلقے ‘‘ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں تعیناتیوں، الیکشن ٹربیونل کی نامزدگیوں اور کیسز کی تقسیم کے حوالے سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان کے طریقہ کار سے واضح طور پر نالاں تھے جب کہ گزشتہ 2 برس کے دوران صوبائی حکومت اور پنجاب کی عدلیہ کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار رہے ہیں۔
جسٹس عالیہ کے چیف جسٹس بننے کے بعد پہلے نمبر پر الیکشن ٹربیونلز کی تقرری سے متعلق معاملہ الیکشن کمیشن اور انتظامی حکام کی خواہش کے مطابق حل کر لیا گیا۔ دوسرے نمبر پر جسٹس عالیہ نیلم نے اینٹی ٹیررزم کورٹس کے ایسے ججوں کا تبادلہ بھی کر دیا جو انتظامیہ کی نظر میں اچھے نہیں تھے اور انہیں ان کے پیشرو نے مقرر کیا تھا۔
اسی کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے درجنوں رہنماؤں اور کارکنوں کو 9 مئی کے کیسز میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔
انتظامی حکام اب تک بعض بینچوں کے سامنے اہم مقدمات کی سماعت کے لیے الاٹمنٹ پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم اب تنازع چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پیر کے اس حکم کے بعد شروع ہوا ہے جس میں ’’ پنجاب پروٹیکشن آف اونر شپ آف ایموویبل پراپرٹی ایکٹ‘‘ کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اسی دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم کے خلاف سوشل میڈیا مہم بھی شروع ہو گئی ہے۔ قانونی برادری جسٹس عالیہ نیلم کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ’’ انڈیپنڈنٹ گروپ‘‘ جو حکومت نواز مانا جاتا ہے، وہ بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کا دفاع کر رہا ہے۔
یاد رہے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (JCP) کا اجلاس جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہونے کا امکان ہے جس میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججوں کی مستقلی پر غور کیا جائے گا۔ ان ایڈیشنل ججوں کی مستقلی انڈیپنڈنٹ گروپ کے فعال ارکان کے لیے بہت اہم ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ’’ طاقتور حلقے ‘‘ پی ٹی آئی کے تناظر میں پنجاب کی عدلیہ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں گے۔ اس معاملے میں چیف جسٹس صاحبہ کا کردار اب بھی ناگزیر ہے۔