بادشاہ کی وفاداری کا حلف مذہبی آزادی کیخلاف قرار؛ سکھ وکیل نے مقدمہ جیت لیا

میرے مذہب میں وفاداری کا حلف صرف پرودردگار کے لیے ہے؛ سکھ وکیل


ویب ڈیسک December 26, 2025
بادشاہ کی حلف برداری مذہبی عقائد کے منافی ہیں؛ سکھ وکیل

کینیڈا کے ایک سکھ وکیل پربجوت سنگھ وِرنگ کی درخواست پر عدالت نے نئے وکلاء کے لیے برطانوی بادشاہ چارلس سوم کی وفاداری کے لازمی حلف کو غیر آئینی قرار دیدیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق البرٹا کی عدالتِ عالیہ نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس طرح کا حلف مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

اس فیصلے کے بعد اب صوبائی حکومت کے پاس اس قانون میں تبدیلی کے لیے 60 دن کا وقت ہے جس میں اسے یا تو حلف کو اختیاری بنانا ہوگا یا ختم کرنا ہوگا۔

یہ مقدمہ سکھ وکیل نے 2022 میں دائر کیا تھا جس میں مؤقف اختیار کیا گا تھا کہ وکلاء کو بادشاہ کے لیے سچی وفاداری کا حلف دینا ان کے سکھ مذہب سے متصادم ہے۔

جس پر ایک زیریں عدالت نے 2023 میں مقدمہ خارج کر دیا تھا اور کہا کہ حلف علامتی نوعیت کا ہے۔ بعد ازاں اس فیصلے کو عدالت عالیہ میں چلینج کیا گیا۔

عدالت عالیہ نے دسمبر 2025 میں زیریں عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا اور کہا کہ یہ شرط وکیل کو مذہبی عقائد کے خلاف عمل پر مجبور کرتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ پربجوت سنگھ وِرنگ ایک سکھ ہیں اور ان کے عقیدے میں وفاداری صرف آکل پرکھ (سکھوں میں الٰہی ذات) کے لیے ہوسکتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس لیے کسی بھی ملک کے بادشاہ کی وفاداری کا حلف لینا ان کے مذہبی اصولوں کے خلاف تصور ہوگا۔

یاد رہے کہ حلف وفاداری ایک ایسا رسمی بیان ہوتا ہے جس میں کسی ملک یا اس کے حکمران کے لیے سچی وفاداری کا اظہار کیا جاتا ہے۔

برطانیہ میں اس کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے اور اسے مختلف ادوار میں قانون کے تحت ضروری قرار دیا گیا تھا۔

برطانیہ میں ملکہ یا بادشاہ کی وفاداری کا حلف سب سے پرانا قانون 1609 کا تھا جس نے حکومتی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کے لیے وفاداری کا حلف دینا لازمی قرار دیا تھا۔

یہ قانون بعد میں مختلف ادوار میں تبدیل ہوا مگر حلف دینے کا اصول برقرار رہا۔ تاہم 1858 کے ایکٹ کے تحت پرانے حلفوں کو یکجا کر کے ایک نئے حلف کی شکل دی گئی۔

جس میں بادشاہت کے حامل افراد کو وفاداری مانگنے کا طریقہ وضع کیا گیا تھا۔ برطانوی قانون سازی میں کئی بار تبدیلیاں لائی گئی ہیں تاکہ مذہبی یا ضمیر کی بنیاد پر حلف دینے سے انکار کرنے والے افراد کے لیے متبادل ممکن ہو سکے۔

جیسا کہ کے ایکٹ 1838 نے ایسے افراد کو رسمی حلف کے بجائے علامتی اور لفظی بیان کی اجازت دی تھی۔

عدالتی تاریخ میں حلف کی نوعیت پر کئی تنازعات بھی سامنے آئے۔ مثال کے طور پر 1999 میں مارٹن مک گینیس نے یورپی عدالت آف ہیومن رائٹس میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ کے اراکین کے لیے بادشاہ کو حلف دینا اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم عدالت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ حلفِ وفاداری کا مقصد عام طور پر ریاست یا سلطنت کے بنیادی آئینی اصولوں کے ساتھ وفاداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

 لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا مذہبی یا ضمیر کی بنیاد پر انکار کرنے والے افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے یا نہیں۔

اس فیصلے کے بعد اب کینیڈا میں آئینی حقوق اور مذہبی آزادی پر ایک وسیع بحث شروع ہو گئی ہے۔

 

مقبول خبریں